"SQC" (space) message & send to 7575

ڈرامہ

اُردو لغت میں دیکھیں تو لفظ ڈرامے کا مفہوم یہی ہے کہ جھوٹی سچی کہانی کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ اس پر حقیقت کا گمان گزرے۔ اداکاری اور منظر نگاری ایسی ہو کہ دیکھنے والا سچ اور جھوٹ کی پہچان بھول جائے۔ ڈرامے اب صرف سٹیج اور ٹیلی ویژن ہی پر پیش نہیں کیے جاتے بلکہ حقیقی زندگی میں بھی ہمارے اردگرد ایسے ڈرامے ہو رہے ہوتے ہیں جن پراصل کا گمان ہوتا ہے۔ مقامی ڈرامہ نگاروں اور ہدایت کاروں کے ڈراموں کے ساتھ ساتھ‘ عالمی منظر نامے پر بھی ایسے ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں جو شاطر اور چالاک ہدایت کاروں کے فن کا نمونہ ہوتے ہیں۔ جہاں سچ پر جھوٹ کا پردہ ڈالا جاتا ہے اور جھوٹ سچائی کا نقاب اوڑھ کر دنیا کے سامنے آ جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسے عالمی ڈراموں کا حصہ بن جانے والے معصوم جانتے تک نہیں کہ انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ دست قاتل کو ہی دست مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ آنکھیں چھین کر شہر میں چراغ بانٹنے والوں کی خباثت اور سنگدلی کو پہچان نہیں پاتے کیونکہ ایسے کردار اپنے فن میں ایسے طاق ہوتے ہیں کہ ان کی اداکاری اور مکر میں کوئی جھول دکھائی نہیں دیتا۔ شمالی وزیرستان کی نبیلہ رحمان اور زبیر رحمان بھی ایسے ہی سادہ لوح بدقسمت ہیں جن کے پرسکون گائوں کو ایک بے نام جنگ نے بدامنی کا مرکز بنا دیا۔ ان کے چمکتے نیلے آسمان پر اب پرندے نہیں، موت بانٹنے والے ڈرون پرواز کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک روشن صبح وہ اپنی دادی مومنہ کے ساتھ کھیتوں میں موجود تھے کہ ایسے عالم میں آسمان پر امریکی ڈرون نمودار ہوا۔ یکایک آگ کا ایک گولہ ڈرون سے نکلا اور کھیتوں میں عین اس جگہ آ گرا جہاں مومنہ اور بچے موجود تھے۔ آگ کے طوفان میں ان کی پیاری دادی جھلس کر جاں بحق ہو گئیں۔ آگ کے شعلے نبیلہ اور زبیر تک بھی پہنچے مگر خوش قسمتی سے یہ دونوں بچ گئے۔ تازہ ترین ڈرامہ یہ ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کا شکار یہ دونوں بچے امریکی کانگریس کے ممبر، ایلین گرے سن کی دعوت پر اپنے والد کے ہمراہ امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ وہ امریکی میڈیا اور کانگریس کو اپنی دکھ بھری کہانی سنا رہے ہیں۔ امریکی ڈرونز میں بے موت مارے جانے والے معصوم پاکستانیوں کے اعدادوشمار منکشف کرتی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد آج کل امریکہ میں ’’Drone Victims‘‘ کے ساتھ ہمدردی کا یہ ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ امریکی اتنے بھی سنگدل اور بے رحم نہیں۔ ہو سکتا ہے امریکی پارلیمنٹ کے ممبر ایلین گرے سن Alan Grayson واقعی اچھی نیت کے ساتھ یہ سب کر رہے ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں میل دور، بسنے والے لوگوں کی کامیاب جاسوسی کرنے والے امریکہ کو ڈرون حملوں کا شکار معصوم لوگوں کے دکھ جاننے کے لیے نبیلہ اور رحمان کو امریکہ کیوں بلانا پڑا؟ گرے سن اسی امریکی کانگریس کے ممبر ہیں، جو موت بانٹتے ڈرونز کی خریداری، تیاری اور دوسرے ملکوں کو ڈرون فروخت کرنے کے کروڑوں ڈالرز کے بل کو بلا چوں و چراں پاس کر دیتی ہے جبکہ اسی برس جولائی 2013ء میں امریکی کانگریس نے فرانس کو Reaper Drones فروخت کرنے کے حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کو Go Ahead دیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نبیلہ اور زبیر رحمان کی تصاویر چھاپنے والا امریکی میڈیا ان معصوم بچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی تصویریں اپنے اخبارات میں چھاپنے کا حوصلہ رکھتا ہے جو امریکی ڈرونز کے حملوں میں مارے گئے۔ چلڈرن آف ڈرون کے نام سے مسلے ہوئے اور جھلسے ہوئے پھول جیسے بچوں کی تصاویر ایک بار دیکھ لیں تو گہری اداسی سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر امریکی میڈیا واقعی ایسے بدقسمت لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنا چاہتا ہے تو پھر پینٹاگون اور سی آئی اے کے ان عہدیداروں کی زبانیں روکے جو اس سارے ڈرامے کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ امریکی ڈرونز کے حملے جائز ہیں اور جو معصوم لوگوں کی موت کو Collateral Damage کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ جس روز شمالی وزیرستان کے دو بہن بھائی، اپنے گھر سے ہزاروں میل دور واشنگٹن میں بیٹھے امریکیوں کے سامنے قاتل ڈرون کے ہاتھوں مرنے والی 67 سالہ دادی کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اب نیلا آسمان اچھا نہیں لگتا کیونکہ آسمان نیلا ہو تو اس پر پرندے نہیں ڈرون اترتے ہیں‘ اسی روز، امریکی صدر باراک اوبامہ دو اہم آرمڈ کمپنیوں کے سی ای اوز کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے جو ڈرون کے میزائل بناتی ہیں۔ ان آرمڈ کمپنیوں کے ساتھ حکومت نے ڈرون میزائل خریدنے کے کئی معاہدے کر رکھے ہیں۔ سنا ہے کہ نبیلہ اور زبیر کی دکھ بھری کہانی پڑھ کر صدر اوباما بھی چند لمحوں کے لیے اداس ہوگئے تھے۔ لیکن کیا کریں کہ دنیا میں امن قائم کرنے کا ٹھیکہ بھی ان کے پاس ہے جن کے ہاتھ میں لاکھوں بے گناہ اور معصوم لوگوں کی موت کا لائسنس ہے۔ یوں لگتا ہے ڈرون اسی مقصد کے لئے بنائے گئے تاکہ دنیا میں ’’امن‘‘ قائم کیا جا سکے۔ شاید ڈرون یونہی گرتے رہیں گے اور بے گناہ لوگ مرتے رہیں گے اور ہمدردی کے ڈرامے کے لئے شاطر، ڈرامہ نگاروں کو نئے کردار بھی ملتے رہیں گے۔ کبھی ملالہ، کبھی نبیلہ اور زبیر…اور کبھی کوئی اور…! اذیتوں کے تمام نشتر مری رگوں میں اتار کر وہ بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں