اگر محض نیک ارادوں‘ بلند بانگ دعوئوں اور خوشنما بیانات سے مسائل حل ہوتے اور سہولتوں کے تاج محل تعمیر ہوا کرتے تو پاکستانی قوم اس وقت دنیا کی خوش قسمت ترین قوم ہوتی۔
خوبصورت الفاظ سے مرصّع بیانات کی جو منڈی ہمارے ہاں روز سجتی ہے‘ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں سجتی ہو کیونکہ دنیا تو اس مقولے پر یقین رکھتی ہے کہ 'Action speaks louder than words‘ جبکہ ہمارے ہاں معاملات اور ہیں۔ مہنگائی سے لے کر دہشت گردی تک اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے لے کر ڈرون حملوں تک‘ ہم سب کچھ ارادوں‘ بیانات اور لفظی احتجاج سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ہمارے ہاں حکومتیں بعض اوقات پورے پانچ سال (اگر پورے ہو جائیں)‘ انہی خوشنما بیانات کے سہارے گزار دیتی ہیں مگر زمینی حقیقتیں سماعتوں میں اترتے خوشنما لفظوں سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔
ادھر خودکش بم دھماکے‘ دہشت گردی کے خوفناک حملے تواتر سے ہو رہے ہیں‘ اِدھر پُرعزم بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ''ہم دہشت گردوں کو کسی قیمت پر امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ اُدھر مہنگائی کا عفریت عام شہری کے لیے بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کو ناممکن بنا رہا ہے‘ اِدھر عوام کے دکھ درد میں گھلتے حکمران بیان دیتے ہیں ''مہنگائی ہر صورت کنٹرول کریں گے‘‘‘ اُدھر ڈرون گرتے ہیں‘ بے گناہ مرتے ہیں‘ پاکستان کی خودمختاری اور قومی تشخص مسخ ہوتا ہے اور اِدھر بیان آتا ہے۔ ''ڈرون حملوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘۔ غرض کوئی معاملہ ہو‘ کوئی بڑے سے بڑا مسئلہ ہو‘ بیانات کے ذریعے اُس کا فوری تدارک موجود ہے۔
ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے عوام میں پذیرائی ملے‘ اس لیے ایسے پروگراموں اور پراجیکٹس کا اعلان حکومتوں کی مجبوری ہوتا ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ اس حکومت نے عوام کے لیے بہت سے فلاحی منصوبے شروع کیے ہیں۔ کبھی پیلی ٹیکسی سکیم‘ کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اب حالیہ نواز حکومت نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے سمال بزنس لون سکیم کا اجرا کیا ہے۔ وقتی طور پر حکومت کو پذیرائی ضرور ملتی ہے‘ مگر ایسے کسی بھی فلاحی منصوبے کے‘ جو بغیر کسی مکمل اور مناسب ہوم ورک کے شروع کیا جائے‘ خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ ایسے پروگراموں کی ذرائع ابلاغ سے تشہیر کی جاتی ہے‘ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کروڑوں روپے کے اشتہار دیئے جاتے ہیں‘ پھر بھی مطلوبہ اور ممکنہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ منصوبہ ساز اور پالیسی میکر زمینی حقائق سے دور‘ دفتروں کے آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ بیوروکریسی میں کتنے ایسے افسران ہوں گے جو عوام کے ساتھ رابطہ رکھتے ہوں‘ کسی بھی وزارت میں اصل کام یہی بیوروکریٹس کرتے ہیں‘ جو خود طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ عوامی مسائل سے دور ہونے کی وجہ سے وہ پالیسی بناتے ہوئے ان پیرا میٹرز کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو کسی منصوبے کی تکمیل اور کامیابی کے لیے ضروری ہوں۔ مثلاً بے روزگار نوجوانوں کے لیے سمال بزنس لون میں کہا گیا ہے کہ مختص رقم پچاس فیصد تک خواتین کو دی جائے گی۔ عمر کی حد پہلے 35 رکھی گئی تھی‘ اب بڑھا کر 45 کردی گئی ہے۔ 20 لاکھ روپے تک قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ اس پروگرام کی ذرائع ابلاغ میں تشہیر سے حکومت واہ واہ تو سمیٹ رہی ہے لیکن جب اس پروگرام کی تکمیل کے مختلف مراحل پر بحث ہوتی ہے تو بہت سارے ویکیوم نظر آتے ہیں۔
یہ رائے میری نہیں‘ اُن تجربہ کار افراد کی ہے جو برسوں سے اسی فیلڈ سے منسلک ہیں۔ چند دن پہلے ڈاکٹر شہلا جاوید اکرم سے ملاقات ہوئی جو پاکستان میں وومن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بانی ہیں۔ خواتین کو بزنس کی طرف لانے اور ان کے لیے مشکل راہوں کو آسان بنانے کے حوالے سے ڈاکٹر شہلا کا کام بہت نمایاں ہے‘ اس لیے ان کی رائے اہم ہے۔ وہ خواتین کی نفسیات‘ ان کے مسائل اور ان کی زندگی میں موجود رکاوٹوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ اگر خواتین کو بزنس کے مختلف شعبوں میں باقاعدہ تربیت دی جائے تو ان کی کارکردگی شاندار اور ثمر آور ہو سکتی ہے۔ مذکورہ بالا سمال بزنس لون سکیم میں ایسا کچھ نہیں بتایا گیا کہ آیا خواتین کو قرضے دے کر کاروبار میں ان کی رہنمائی کے لیے کوئی ادارہ بنایا جائے گا؟ کیونکہ بغیر بنیادی شعور اور ضروری تربیت کے حکومت جتنا قرض بے روزگاروں کو دے گی وہ ضائع ہو کر پیلی ٹیکسی سکیم کی طرح فلاپ منصوبے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک
ادارہ بنایا جائے جو تربیت دے‘ سپروائز کرے اور ہر مشکل اور رکاوٹ میں نئے کاروباریوں کا ساتھ دے تاکہ وہ نہ صرف اپنے لیے روزگار پیدا کریں بلکہ اپنے کاروبار کے ذریعے دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ حکومت اس حوالے سے مختلف Incentive دے کر ان کی صلاحیتوں اور ارادوں کو مہمیز کر سکتی ہے۔ صرف قرضہ سکیم کا ا جراء مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ منسٹری آف ویمن ڈویلپمنٹ میں الگ سے ایک ایسا شعبہ قائم کرنا چاہیے جو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کی خواہش مند خواتین کی رہنمائی کرے۔
ہمارے ہاں اربوں روپیہ ایسی حکومتی سکیموں کی نذر ہو جاتا ہے جن کی منصوبہ بندی کرتے وقت زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ سمال بزنس لون سکیم کا دوبارہ جائز لیا جائے‘ ماہرین کی مدد اور رائے طلب کی جائے اور ایک ایک قدم کو مرحلہ وار پرکھا جائے۔ ضروری تربیت دینے کے لیے پہلے سے موجود اداروں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے‘ وومن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تعاون سے ورکشاپس منعقد کی جا سکتی ہیں‘ وہاں کامیاب بزنس وومن اپنے تجربات سے نئی خواتین کو بہت کچھ سکھا سکتی ہیں۔
ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا خوشنما بیانات اور خوب صورت فلاحی منصوبوں کے فائل ورک سے باہر نکل کر عملی طور پر! کیونکہ سچ یہی ہے کہ "Action speaks louder than words"۔