"SQC" (space) message & send to 7575

\"I Took the one less travelled by\"

ہر مسافر پر زندگی کے سفر میں فیصلے کی مشکل گھڑی ضرور اترتی ہے، جس میں وہ سود وزیاں کا حساب کرتا ہے‘ فائدہ اور نقصان پلڑے میں تولتا ہے‘ منفی اور مثبت اثرات کا جائزہ لیتا ہے اور فیصلہ پھر بھی مشکل لگتا ہے۔ دوراہے پر کھڑے ہوئے مسافر کو کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، راستہ بھی ایسا جو زرد جنگل میں سے گزرتا ہے اور کچھ واضح نہیں ہوتا کہ زرد جنگل میں سے گزرنے والا راستہ اختتام پر مسافر کے لیے آسودگی لائے گا یا اُس کے جسم و جاں میں تھکن اتارے گا۔ ایسے میں شاید وہ صرف دِل کی آواز پر کان دھرتا ہے اورپھر اسی آواز کے پیچھے چلتا ہوا ایک ایسے راستے کا انتخاب کرتا ہے جس پر اس سے پہلے کوئی نہیں گیاہوتا۔ راستے پر اُگی سبز گھاس اور خود روپھول گواہی دیتے ہیں کہ اس راستے کو کسی مسافر کے پائوں نے نہیں چھوا۔مسافر خوابوں اور اُمیدوں کی گھڑی کاندھے پر اٹھائے اس نئے راستے پر سفر کا آغاز کرتا ہے۔ مشکل مگر نیا راستہ اُسے امکانات کے ایک جہان کی طرف لے جاتا ہے اور بعد میں آنے والوں کے لیے وہ ایک مثال بن جاتا ہے۔یہی خیال رابرٹ فراسٹ کی شہرہ آفاق نظم The Road Not Takenسے ماخوذہے۔ زندگی میں ہروہ شخص اس تجربے سے گزرتا ہے، جو دوراہے پر پہنچ کر کسی ایک راستے کا انتخاب دل کی آواز پر کرتا ہے اور پھر امید کی طاقت سفر کو خوشگوار بنادیتی 
ہے۔فیصلے کی ایسی ہی مشکل گھڑی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر بھی اتری تھی جب ایک ڈکٹیٹر کے سامنے انہوں نے انکار کر کے اپنے لیے ایک نیا اور مشکل راستہ چنا کیونکہ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ اس انکار کی بازگشت پر کالے کوٹ والے وکیل دھمال ڈالتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے۔ جون کی کڑکتی دوپہروں میں بھی دھرنے جاری رہے ور دسمبر جنوری کے یخ بستہ دِنوں میں بھی احتجاج کا سلسلہ نہ رُکا۔ اس مشکل سفر میں افتخار چودھری کی طاقت وکیل‘سول سوسائٹی‘ میڈیا اور وہ سب لوگ تھے جو اس انکار کی حمایت میں اُن کے لیے باہر آئے۔مگر مسافر کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا۔ فیصلے کی مشکل گھڑیاںاور دوراہے بار بار مسافر کی زندگی میں آتے رہے اور ہر بار ایک مشکل فیصلہ ایک نئے راستے کو روشن کرتا رہا۔
22مارچ 2009ء کو بطور چیف جسٹس اپنے عہدے پر بحالی کے بعد افتخار محمد چودھری نے پاکستان میں مشکل فیصلوں کی ایک تاریخ رقم کی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کرپشن کے کئی سکینڈل سامنے آئے اور ہر بار تاریخ ساز فیصلے کیے۔ملکی تاریخ میں پہلی بار وقت کا وزیر اعظم عدالت میں پیش ہوا۔ توہین عدالت اور عدالتی حکم پر عملداری نہ کرنے کی پاداش میں وقت کے حکمران کو گھر بھیج دیا گیا۔حکمرانوں کی کرپشن‘بیورو کریسی کی بدعنوانیاں ‘ سماج کے ہر طاقتور طبقے ،خواہ وہ صنعت کار ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ یا وڈیرے ہوں‘ افتخار محمد چودھری نے بطور چیف جسٹس میرٹ پر فیصلے دیے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لاتعداد سووموٹو ایکشن لیے ۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد سے لے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے مظلوموں کے لیے وہ اُمید کا استعارہ بن گئے۔ بطور 
چیف جسٹس بحالی کے بعد سے اُن کی ریٹائرمنٹ کے آخری دن تک ایسا لگتا ہے کہ حکومت خواہ پیپلز پارٹی کی تھی یا ن لیگ کی‘ اصل حکمرانی، عدل و انصاف کی اس خواہش نے کی جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے‘ ہر مظلوم کی آنکھ کا خواب ہے‘ اور یہ خواب افتخار محمد چودھری نے ایک عام پاکستانی‘ ایک عام شہری کی آنکھوں میں جگایا جب انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے عام آدمی کے حق میں فیصلے دیے۔ ظالم اور طاقتور کے مقابلے میں مظلوم اور کمزور کا ساتھ دیا اور اس دور میں کیا دولت مند‘ کیا طاقتور و ڈیرے‘ کیا حکمران اور کیا افسر شاہی کے نمائندے‘ سبھی ضرورت پڑنے پر عدالت کے کٹہرے میں جوابدہ ہوئے۔
بطور چیف جسٹس‘ افتخار محمد چودھری نے پاکستان کے عدم مساوات پر مبنی معاشرے میں غریب آدمی کے دکھوں کا احساس کرتے ہوئے‘ سپریم کورٹ میں ہیومن رائٹس کا ایک الگ سیل بنا دیا جہاں روزانہ سیکڑوں درخواستیں ‘ پورے پاکستان سے آتیں۔یہ سیل دن رات کام کرتا۔ بطور چیف جسٹس لاکھوں کیسوں کو جلد از جلد نبٹانے کے لیے انہوں نے دِن رات کام کیا۔ یوں احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کی عمدہ مثالیں قائم کیں۔
11دسمبر 2013ء کو افتخار محمد چودھری نے بطور چیف جسٹس اپنا 
آخری ورکنگ ڈے گزارا ۔اب اُن کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک یادگار‘شاندار اور ہنگامہ خیز دور گزار کر وہ سرخرو ہوئے ہیں۔ رابرٹ فراسٹ کی نظم کے اُس مسافر کی طرح جسے زرد جنگل میں ایک دوراہے کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ راستہ بھی واضح نہیں ہوتا مگر پھر وہ دِل کی آواز کے پیچھے چلتا ہوا ایک مشکل اور نئے ‘راستے کا انتخاب کرتا ہے۔سفر کے اختتام پر اُس کا دِل آسودہ ہوتا ہے کہ راستہ مشکل ہی سہی مگر اسی راستے نے اُس کے لیے امکانات کے جہان روشن کیے ۔ کبھی کبھی تنہائی میں بیٹھے ہوئے افتخار محمد چودھری بھی ایسے ہی سوچا کریں گے کہ انہوں نے عدم مساوات اور ناانصافی کے عہد میں انصاف اور مساوات کی خواہش عام شہری کے دل میں جگائی اور اب کوئی بھی حکمران ہو ‘کوئی بھی قاضی ہو‘ لوگ اپنا حق مانگنے کے لیے آواز ضرور اٹھائیں گے۔ یہی ہے وہ نیا راستہ جو افتخار محمد چودھری نے تراشاہے ۔اس لیے وہ زیرِ لب رابرٹ فراسٹ کی یہ لائنیں گنگنا رہے ہیں۔
Two roads diverged in a wood, and i..... I took the one less travelled by
And that has made all the difference.

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں