دسمبر کے آخری دِنوں کی اداسی چار سُو ہے‘ شاید یہ رائیگانی کااحساس ہے جو ذہن و دِل کو جکڑے ہوئے ہے۔ بارہ مہینے‘ باون ہفتے‘ تین سو پینسٹھ دن اور اِن دنوں میں ریت کی طرح پھسلتی ہوئی‘ ہزاروں گھڑیاں ‘اپنا وقت پورا کر کے‘ماضی کی گُپھا میں اُتر گئیں اور ہمارے ہاتھوں پر ناکام ارادوں اور نارسا خوابوں کے اڑتے رنگ رہ گئے۔ اب زندگی مہلت دے گی تو پھر سے ارادے باندھے جائیں گے‘ خواہشوں کی آبیاری کریں گے اس اُمید کے ساتھ کہ وقت کا ہر لمحہ قیمتی ہے اور ہر لمحے سے زندگی کشید کر یں گے۔
دسمبر کے انہی اداس دِنوں میں آنٹی افضل توصیف کی لائبریری سے بہت قیمتی کتاب ہاتھ لگی۔ یوں تو یہ کتاب بہت عرصے سے مری نظر میں تھی مگر اس کو پڑھنے کے لیے جو ٹھہرائو اور خاص کیفیت چاہیے تھی وہ میسر نہ تھی۔ وہی زندگی کے بے انت جھنجھٹ اور جھمیلے!! مگر اِن دِنوں‘ جب دِل اور ذہن ایک خوبصورت اداسی کی لے پر دھڑک رہے تھے‘ مجید امجد کی 'شبِ رفتہ‘ کو پڑھنے کا بہترین وقت تھا۔ سچا شعر غم اور اداسی کی گیلی مٹی سے سر اٹھاتا ہے مگر مجید امجد کے ہاں جو گہری سوچ‘ زندگی کا عمیق مشاہدہ اور اداسی کی گمبھیرتا موجود ہے‘ اُس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں‘ صرف مجید امجد کی نظمیں اور اشعار پڑھ کر ہی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ انگریزی ادب کو بطور مضمون پڑھنے والوں کی ذہنی اور فکری تربیت کا حصہ ہے کہ لکھاری کی زندگی کو پڑھا جائے اور اس کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھائو‘ دُکھ سکھ‘ کا بغور مطالعہ کیا جائے‘ وہ کیسے ماحول میں رہتا تھا‘ کیسے لوگ اس کی زندگی کا حصہ تھے‘ اُس کے محبوب چہرے کون سے تھے‘ تبھی جا کر اُس تخلیق کار کے تخلیق کیے ہوئے حرفوں کے جہان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
''شبِ رفتہ کے بعد‘‘ مجید امجد کا وہ غیر مطبوعہ کلام تھا جو اُن کی وفات کے بعد مجید امجد اشاعتی کمیٹی لاہور کے زیر انتظام شائع ہوا۔ پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری جاوید قریشی‘ جو خود بھی شاعر ہیں‘ کی کوششوں سے درویش شاعر مجید امجد کا بکھرا ہوا کلام شائع ہوا۔ جاوید قریشی کا دیباچہ 'حرفِ معذرت‘ کے عنوان سے کتاب کے آغاز میں موجود ہے‘ جس سے اس بے مثال اور باکمال تخلیق کار کی ذاتی زندگی کو جاننے میں مدد مِلتی ہے لیکن کم و بیش چالیس برس قبل شائع ہونے والی یہ کتاب خود بھی ایک کہانی سناتی ہے۔ مٹیالے سے کالے رنگ کے سرورق پر کتاب کا نام تحریر ہے۔ شبِ رفتہ کے بعد۔ نیچے مجید امجد کی تصویر نام کے ساتھ موجود ہے۔ اس کتاب کی قیمت 20روپے تھی۔ اُس وقت پنجاب آرٹس کونسل کی طرف سے اس کی اعزازی کاپی افضل توصیف صاحبہ کو بھجوائی گئی۔ اس کے صفحات مٹیالے سے ہو چکے ہیں اور ان کو پلٹیں تو ایسی ہی خوشبو آتی ہے جیسی پُرانی کتابوں کے بوسیدہ اوراق سے آتی ہے‘ جن پر بہت قیمتی لفظ موتیوں کی طرح بکھرے ہوں۔
ساہیوال کی دیہاتی فضا میں‘ سرکاری دفتر کی پرانی میز کرسی پر سر جھکائے فائل ورک کرنے والا بظاہر چھوٹا موٹا سا سرکاری ملازم‘ اردو ادب کا منفرد اور پکتا شاعر تھا۔ شہر کے ڈپٹی کمشنر جاوید قریشی اس ہیرے کو پہچانتے تھے‘ اسی لیے بیمار شاعر کی عیادت کے لیے اُس کے چھوٹے سے مکان پر خود چلے جاتے۔ مجید امجد تمام عمر تنہا رہے‘شادی نہیں کی۔ لیکن ایک جرمن سیاح خاتون شالاط کی محبت نے شاعر کے ہجر زدہ دِل کو گداز بخشا۔ مجید امجد اس کسمپرسی میں عدمِ سفر کو روانہ ہوئے کہ اُن کے قریب وقتِ آخر کوئی نہ تھا۔ میت کے پاس جو دس بیس لوگ موجود تھے اُن میں سے کوئی بھی رشتہ دار نہ تھا۔ جاوید قریشی لکھتے ہیں کہ ''ایک تو امجد صاحب کی موت خود چھوٹا سانحہ نہ تھی دوسرے جس بے سروسامانی میں انہوں نے جان دی وہ بھی وجہِ کرب بنی ہوئی تھی۔ وہ ٹرک جس پر مجید امجد کی میت کو ساہیوال سے جھنگ تک آخری سفر طے کرنا تھا‘ گندگی اور غلاظت سے پاک نہ تھا۔ میں نے ٹرک کو دھلوایا اور اس میں ایک دری بچھوا دی ۔ ادھر ادھر برف کی سلیں رکھوا کر ٹرک کو مجید امجد کی میت کے لیے تیار کروا لیا گیا۔ مغرب کے وقت امجد صاحب کی میت اُن کے دیرینہ ملازم کی نگرانی میں جھنگ کے لیے روانہ ہوئی۔‘‘
یہ تھا اُس شاعر کا سفرِ آخرت جس نے تمام عمر تشنہ آرزوئوں کی سولی پر ایک جان لیوا تنہائی کے عالم میں گزار دی اور پھر ؎
کئی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول!
لفظ عمر‘ مجید امجد کی شاعری میں بار بار آتا ہے۔ کبھی عمر کے گزرنے کا‘ کبھی رائیگانی کا احساس‘ زندگی کی بے ثباتی اور خواہشوں اور آرزوئوں میں سانس لیتے انسان کے فانی ہونے کا احساس کئی رنگوں میں مجید امجد کی شاعری سے جھلکتا ہے ؎
مِری ہی عمر تھی جو میں نے رائیگاں سمجھی
کسی کے پاس نہ تھا ایک سانس وافر بھی
ایک اور غزل میں اسی رائیگانی کو اس انداز میں بیان کیا ؎
اور اب یہ کہتا ہوں یہ جُرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
اپنی زندگی کی پچاسویں سالگرہ پر ''پچاسویں پت جھڑ‘‘کے نام سے جو نظم لکھی‘ اُس کی چند لائنیں:
اتنا بھر پور سماں تھا‘ مگر اب کے تو ہر اک گرتے ہوئے پتے کے ساتھ
اور اک مٹی کی تہہ... میرے لہو میں اُتری
اور اک ریت کی سلوٹ... میرے دِل میں اُبھری
اور اک زنگ کی پپڑی میری سانسوں پر جمی
ایک نظم ''کون دیکھے گا‘‘ کے عنوان سے ہے:
جو دن کبھی نہیں بیتا‘ وہ دِن کب آئے گا
انہی دِنوں میں اُس اک دِن کو کون دیکھے گا
اس ایک دِن کو جو ہے عمر کے زوال کا دِن
انہی دِنوں میں نمویاب کون دیکھے گا
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
سال 1969ء ‘میں 31دسمبر کو لکھی گئی ایک نظم‘دسمبر کے اِن آخری دِنوں کے نام جن کی گزرتی اور سرکتی ہوئی اداسی نے مجھے مجید امجد کی ''شبِ رفتہ کے بعد‘‘ پڑھنے پراُکسایا‘ چند سطریں:
سب کو برابر کا حصہ ملنا ہے اُس میعاد سے‘ جس کو دِن کہتے ہیں
کھوئی ہوئی اِس پونجی میں سب سانجھی ہیں
تیرے دِن ‘ جو تیری آنکھوں کی ٹھنڈک میں گزرے
میرے دِن جو دِل سے نہ گزرے
آج وہ کیا ہیں‘کسی خلاء کے خانے
خالی خالی خانے‘
دیکھیں تو سہی' کھولیں تو سہی اِن خانوں کو۔۔!
کھوئی ہوئی اس پونجی میں سب سانجھی ہیں۔