"SQC" (space) message & send to 7575

مقبولیت کا گراف:الیکشن سے پہلے اوربعد

11 مئی 2013ء کے الیکشن کئی حوالوں سے اہم تھے۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت میں زبردست مقابلہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں یہ دونوں جماعتیں عوام میں مقبول تھیں۔ آج الیکشن کے سات ماہ کے بعد دونوں کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 
ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف اہم حریف تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عوامی مقبولیت کا دعویٰ رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات کی دوڑ میں دو بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل نہیں تھی اور تحریک انصاف کے لیے بھی یہ پہلا بڑا اور اہم الیکشن تھا۔ الیکشن مہم میں اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف نے نئے رجحانات متعارف کروائے اور مقبولیت کے گراف میں اضافہ کیا تو یہ غلط نہ ہوگا۔ پی ایم ایل نواز نے بھی بہترین انداز میں اپنی الیکشن مہم چلائی۔ شہباز شریف اور نوازشریف کی شخصیت کی کشش نے بھی اہم کردار ادا کیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس الیکشن کی مہم چلانے کے لیے عمران خان اور میاں نوازشریف کے مقابل عوامی سطح پر مقبول اور پُرکشش رہنما موجود نہ تھا۔ دوسرا پانچ سال کی حکومت کے بعد ان کے دامن میں کرپشن کے کئی سکینڈل موجود تھے اور صورت حال منیرؔ نیازی کے اس شعر جیسی تھی ؎ 
 مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیرؔ 
عذاب مجھ پہ نہیں حرفِ بددعا کے سوا 
شاید تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کے جیالے بھی اپنی پارٹی اور لیڈر شپ کی کارکردگی سے سخت نالاں تھے اور روایتی انداز میں پارٹی کی الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے رہے تھے۔ یوں میدان میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف گھن گرج کے ساتھ موجود تھیں۔ دونوں جماعتوں کے بنیادی سیاسی منشور میں عوام کے لیے 
تبدیلی اور خوشحالی کے نعرے لگائے گئے۔ پی ایم ایل نواز نے خود انحصاری کا نعرہ لگایا۔ کشکول توڑنے کا وعدہ کیا۔ توانائی کا بحران ختم کرنے کے خواب دکھائے‘ مہنگائی کو قابو میں رکھنے اور صنعتوں کی بحالی‘ روزگار کی فراہمی کی خوشخبریاں سنائیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے ایک قدم آگے بڑھ کر کرپٹ نظام کو بدلنے اور حقیقی تبدیلی لانے کا انقلابی نعرہ لگایا۔ چونکہ یہ جماعت پہلی بار اس دوڑ میں شامل تھی اس لیے ان کا دامن صاف تھا جبکہ ان کے پاس پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن پر مبنی سکینڈلز کی داستانیں عوام کو سنانے کے لیے موجود تھیں۔ اسی لیے نوجوانوں خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے میں تحریک انصاف نے حیرت انگیز مقبولیت حاصل کی۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی تحریک انصاف کے حمایتی تھے۔ الیکشن میں خصوصی طور پر کئی لوگ ووٹ کاسٹ کرنے بیرون ملک سے پاکستان آئے۔ تحریک انصاف کے نوجوان سپورٹرز میں جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ تحریک انصاف پاکستان میں حقیقی تبدیلی لا کر رہے گی۔ ملک میں ایک ایسی فضا تھی کہ اس بار کے الیکشن عوام کے لیے بہترین حکومتیں لائیں گے۔ پھر 11 مئی 2013ء بھی گزر گیا۔ 
الیکشن ہوئے‘ حکومتیں بنیں اور اب ان حکومتوں کو بنے ہوئے سات ماہ ہو چکے ہیں۔ وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں ن لیگ نے حکومت بنائی۔ سندھ پیپلز پارٹی کو مل گیا اور دہشت گردی میں جکڑا ہوا صوبہ پاکستان تحریکِ انصاف کے حصے میں آیا۔ اب اگر ان سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت کا جائزہ لیں تو صورت حال مئی 2013ء سے مختلف نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ نواز نے اپنے وعدوں کے برعکس‘ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیا۔ کشکول گلے میں ڈالے ہوئے خودانحصاری کی باتیں اب عوام کے ساتھ صرف سنگین مذاق لگتی ہیں۔ روزگار دینے کے وعدے کرنے والوں نے صنعتوں اور اداروں کی نجکاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ وی آئی پی کلچر اپنی جگہ موجود ہے۔ عوام کو بجلی اور گیس کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ گھر کے چولہوں سے لے کر کارخانوں کی مشینوں تک ۔گیس اور بجلی کی عدم دستیابی نے زندگی کو پہلے سے مشکل کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط کے تحت تعلیم اور صحت کے بجٹ پر کٹوتی کردی گئی ہے۔ یوتھ بزنس سکیم بھی صرف مقبولیت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کی شرائط مبہم ہیں۔ ایک غریب اور ضرورت مند نوجوان قرضہ لینے کی شرائط پوری نہیں کر سکتا اور جو قرض لینے میں کامیاب ہوگا وہ سود در سود قرض کے منحوس چکر میں پھنس جائے گا۔ اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی‘ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی... کا فلسفہ صرف الیکشن کی مہم تک کامیاب تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد سے ہی اس فلسفے کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں مسلم لیگ ن نے اپنے سپورٹرز میں اپنی مقبولیت کھوئی ہے۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف نے الیکشن میں انقلابی نعرے لگا کر جو مقبولیت حاصل کی تھی‘ اس غبارے میں سے ہوا تیزی سے نکل رہی ہے۔ انہیں خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا، جہاں عمران خان اپنی جماعت کی آئیڈیالوجی کے مطابق صوبے کا نظام بہتر کر سکتے ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کی عملداری کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ عوام کو Deliver کرنے کی بجائے تحریکِ انصاف نے اپنی توانائیاں دھرنوں اور احتجاج کی نذر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بجلی سے لے کر امن و امان کے مسائل تک ہر بات کا الزام وفاق پر دھرنا تحریک انصاف کا وتیرہ ہے۔ صوبے میں وہی اقرباپروری‘ کرپشن اور وی آئی پی کلچر موجود ہے جبکہ جلسوں میں آج بھی عمران خان انقلاب‘ انصاف اور تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں۔ اب ان کو کون بتائے کہ خان صاحب! انتخابات سے پہلے یہ باتیں آپ کو سجتی تھیں، اب آپ کے پاس خود حکومت موجود ہے‘ آپ تبدیلی لا کر دکھائیں۔ ہر نالائقی کا ملبہ وفاق پر ڈال کر آپ فراغت حاصل نہیں کر سکتے۔ بھارت میں عام آدمی کی حکومت صرف دہلی میں قائم ہوئی ہے اور اس کی بازگشت آج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے عملی طور پر چند دنوں میں منظر کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور آپ ہیں کہ آج بھی اپنی ہر تقریر میں دوسری پارٹیوں پر طنز اور تنقید کرتے نظر آتے ہیں‘ کبھی اپنی حکومت کی نالائقیوں کا بھی جائزہ لیں۔ جہاں سات ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ 
مری خطائوں کی فہرست لے کے آیا ہے 
عجیب شخص ہے اپنا حساب بھول گیا 
تحریک انصاف نے اپنی مقبولیت کھوئی ہے۔ پارٹی کے حمایتی نوجوان اب اس جوش و خروش سے حمایت میں تقریریں کرتے دکھائی نہیں دیتے‘ جو کبھی ان کا خاصہ تھا۔ اس کالم کا محرک بھی تحریک انصاف کا ایک ایسا ہی ڈائی ہارڈ قسم کا نوجوان سپورٹر تھا جو کارکردگی کے نام پر صرف دھرنوں اور احتجاج کی سیاست سے مایوس دکھائی دیا۔ صرف چہرے کے تاثرات تھے جو کہہ رہے تھے ؎ 
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں