"SQC" (space) message & send to 7575

آئینہ

جگہ جگہ چراغاں کا اہتمام تھا۔ گھروں سے لے کر شہر کی اہم عمارتوں‘سرکاری اداروں اور مساجد پر بتیوں کی لڑیاں لگا کر دلکش انداز میں چراغاں کیا گیا۔ مگر اس روشنی سے صرف باہر کی دنیا خوب صورت نظر آتی تھی۔ اندر دِل کی نگری میں اندھیرا تھا۔ دِل اور روح روشن نہیں تھی۔یہی سوچ اُس کے اندر خالی پن کا احساس پیدا کر رہی تھی۔وہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھرا۔خوشحال بستیوں سے لے کر غربت زدہ گلی کوچوں میں گیا۔ اُس نے زندگی کو عیش و نشاط کے جھولے میں بھی دیکھا اور حسرتوں اور تکلیفوں کی سولی پر سسکیاں بھرتے ہوئے بھی۔ اُس نے انسان کو مسرتوں اور خوشحالی میں غرق خدا سے غافل بھی پایا اور ایسے اللہ والے بھی دیکھے جو تن پر کپڑے کی دھجیاں لپیٹے‘سوکھی روٹی کھاکر‘ خالق کی نعمتوں کے تشکر میں سجدہ ریز تھے۔زندگی کے تضادات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنا اُس کی عادت ثانیہ تھی۔اِن دِنوں ربیع الاول کے بابرکت ماہِ مبارک میں اُس نے دیکھا کہ لوگ نبی پاکؐ سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کئی طرح سے کر رہے تھے۔ نعتوں کی محافل تھیں۔ درود پاک کی مجالس بھی۔غریبوں میں کھانا بھی تقسیم ہو رہا تھا‘ مگر ان سب میں ایک چیز بہت نمایاں تھی‘ اور وہ تھی نمودو نمائش کا پہلو۔گھروں میں لائوڈ سپیکر لگا کر اونچی آواز میں نعتیں پڑھی جاتیں۔ بہت ساری نعتیں سُن کر ایسا لگتا کہ مشہور گانوں 
کی طرز پر لکھی گئی ہیں اور انہیں اُسی دُھن پر ہی پڑھا جا رہا ہے۔ یوں نعت سنتے ہوئے بھی گانے کے بول کان میں گونجتے رہتے۔ وہ ایک گناہ گار مسلمان ہے اور اُسے ایسی نعتیں سنتے ہوئے شدت سے احساس ہو تاکہ نعت کے تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اُسے حیرت ہوتی کہ علمائے دین اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیوں نہیں کرتے۔ وہ دیکھتا کہ بڑے بڑے عالمِ دین ایسے ٹی وی پروگراموں میں بیٹھے ہوتے ہیں جہاں دین کو بھی کمرشل انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اب جہاں ہر شے کمرشل ہو چکی ہے وہاں مذہب اور دین بھی اس سے نہیں بچ سکا۔ اُسے یاد آیا کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی اشیائے خوردنی سستی ہونے کی بجائے اور مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اور لوٹ مار کا یہ کام عید الفطر تک جاری رہتا ہے۔ ذخیرہ اندوز اور ملاوٹ کرنے والے اس ماہِ مبارک میں خوب پیسہ کماتے ہیںاور پھر یہی لوگ روزے رکھ کر اور محافل شبینہ کا اہتمام کرکے اپنے مذہبی ہونے کا بھر پور تاثر دیتے ہیں۔لوگوں کی امداد کرنے کے نام پر اپنے گھروں کے باہر غرباء کی لمبی لمبی قطاریں لگوا کر خوش ہوتے ہیں کہ محلّے پر ان کی امارت کا خوب رُعب پڑ رہا ہے۔ اسلام تو درس دیتا ہے کہ مدد کرو تو اس طرح کہ عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ لیکن یہاں تو اپنی پبلسٹی کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں نے سرکاری پیسے سے بیوائوں میں سلائی مشینیں بھی تقسیم کرنا ہوں تو پہلے کیمرہ مینوں کو بُلا لیا جاتا ہے تاکہ بروقت تصویر کھینچی جا سکے۔نمود و نمائش کا یہی پہلو ماہِ ربیع الاوّل میں بھی نظر آتا ہے۔ہم اپنے اسلام پسند اور مذہبی ہونے کا اظہار صرف رسومات پوری کر کے‘ہی کرتے ہیں۔
دین کی اصل روشنی‘سیرت مبارکہ کی اصل روح‘ ہمارے روّیوں میں نظر نہیں آتی۔ وہ تاجر جو ربیع الاوّل کی آمد پر اپنے بازاروں کو 
جھنڈیوں اور قمقموں سے سجاتے ہیں کبھی سوچتے ہیں کہ وہ تجارت اور کاروبار میں سیرت پاکؐ کے اصولوں کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں۔ یہاں تو سارا کاروبار ہی جھوٹ پر ہوتا ہے۔ ناجائز منافع خوری‘ذخیرہ اندوزی۔ بددیانتی‘ تجارت اور کاروبار کے وہ ''اصول‘‘ ہیں جن پر عمل کر کے ہر تاجر راتوں رات امیر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی تاجر حضرات اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کی معاشی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔غریب مسلمانوں کے منہ سے لقمہ تک چھین لیتے ہیں۔ اور یہی لوگ ماہِ ربیع الاوّل کو منانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
اُس نے ٹیلی ویژن آن کیا تو‘ہر چینل پر جشن عید میلادُالنبیﷺ کے حوالے سے خصوصی پیکیج چل رہے تھے۔ ملک کی تمام اہم عمارتوں‘وزیراعظم‘ایوان صدر‘ قومی اسمبلی۔ صوبائی اسمبلیوں کی پُرشکوہ عمارتوں پر برقی قمقمے سجا کر چراغاں کیا گیا تھا۔ ہر طرف روشنی کا سیلاب سا تھا۔ مگر اس کے باوجود سوچوں میں تیرگی سی تھی۔اُس نے سوچا کہ اِن عمارتوں کے مکین‘اسمبلیوں میں تقریریں کرنے والے‘ عوام سے وعدے کر کے ووٹ لے کر آتے ہیں‘ اُن کی غربت دور کرنے کا عہد کرتے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان وہ اپنے عہد کی کتنی پاسداری کرتے ہیں؟یہ سب کے سامنے ہے کہ اُن کی ساری 
توانائیاں اپنی جیبیں بھرنے میں صرف ہوتی ہیں ۔غریب کی بات کرنے والے ایسے شاندار محلاّت میں رہتے ہیں‘ جہاں انہیں مفلوک الحال انسانوں کی دہائی سنائی نہیں دیتی۔ اقربا پروری‘ بددیانتی‘ جھوٹ‘قومی خزانوں کی چوری‘لوٹ مار سب ہر گناہ میں شریک ‘ہر جُرم میں برابر کے حصہ دار۔ یہ حکمران‘ یہ قومی رہنما سیرتؐ کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں۔ خوب صورت تقریریں کرتے ہیں۔ نبی پاکؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ رسماً کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سارے دوسرے دِنوں کی طرح ہم عید میلاد النبی بھی ''منا‘‘ رہے ہوتے ہیں کاش کہ ہم کائنات کے اس عظیم اور بابرکت ترین دن کو رسم کی طرح منانے کی بجائے‘اس کی روح اور اس کے درس کو اپنائیں۔اپنے روّیوں میں جگہ دیں۔
وہ سوچ کے اسی راستے پر چلتا چلتا خود بینی کی ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں‘چاروں طرف آئینے سجے تھے۔ اُس نے ان آئینوں میں اپنا چہرہ دیکھا تو اُسے یہ بھیانک سچ دکھائی دیا کہ جن اندھیروں کو وہ دوسروں کی ذات میں تلاش کر رہا ہے وہ خود اِن اندھیروں میںلتھڑا ہوا ہے۔ سیرت پاکؐ سے دوری کا پچھتاوا تھا کہ گناہوں پر شرمندگی کا احساس‘ وہ اشکوں میں ڈوب گیا۔ اُس کا وجود آنسو بن کر بہنے لگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں