فیس بک اس وقت سماجی رابطے کے لیے مقبول ترین پلیٹ فارم ہے۔اس ماہ فیس بک کی دسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ دس برس میں فیس بک کی آمد نے ہماری بہت سی سماجی اقدار کو بدل ڈالا ہے۔ بہت آہستگی اور بہت خاموشی کے ساتھ ویلیوز میں تبدیلیاں آ گئی ہیں جس کے بعد لفظ ''فرینڈ‘‘ کو اب Redefined کرنے کی ضرورت ہے۔ فراز نے تو کہا تھا کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔ جبکہ فیس بک کی دنیا تو ہے ہی مصنوعی دوستی اور مصنوعی رابطوں کا ایسا جہان جہاں صنف کی تخصیص کے بغیر اجنبی مرد‘ عورتیں... سبھی آپ کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ایسے افراد جن سے آپ اپنی زندگی کی ہر بات شیئر کرتے ہیں لیکن کبھی اُس سے ملے تک نہیں ہوتے۔ حضرت علیؓ نے نہج البلاغہ میں فرمایا کہ دوستی سب سے بڑی رشتہ داری ہے۔ پھر ایک جگہ فرمایا کہ جس شخص کے پُرخلوص دوست ہوں وہ امیر ہے اور جو شخص پُرخلوص دوستوں سے محروم ہے وہ غریب ہے۔ دوست کا جس قسم کا تذکرہ یہاں فرمایا گیا وہ فیس بک فرینڈز سے یکسر مختلف ہے۔ دوستی کا اصل جہان وہ ہوتا ہے جہاں انسان اپنے دُکھ سکھ اپنے دوستوں سے شیئر کرتا ہے۔ وہ ان کے دکھ ان کے چہروں سے پہچانتا ہے۔ ان کی ضرورتوں کو ان کی خاموشی سے جان لیتا ہے۔
جب کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو دوست ہاتھ تھامتا ہے۔ کندھا تھپتھپاتا ہے۔ اس لمس کی گرمی وہ کچھ بیان کرتی ہے جو محض لفظ بیان نہیں کر سکتے۔ مشی گن یونیورسٹی میں اس موضوع پر تحقیق ہوئی کہ فیس بک استعمال کرنے والے لوگ کس سطح تک اپنے سماجی تعلقات میں مطمئن ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں فیس بک استعمال کرنے والے سینکڑوں افراد کے انٹرویوز ہوئے۔ انٹرنیٹ سائیکالوجی کے ماہر گراہم جونز نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ اپنے سماجی تعلقات اور دوستوں کے ساتھ اپنے روابط کے لیے صرف فیس بک کا استعمال کرنے والے افراد اپنی زندگیوں میں غیر مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ وہ حقیقی زندگی سے دور ہو کر انٹرنیٹ فرینڈ شپ کے دائرے میں رہ کر اُس خوشی اور احساس سے محروم ہو جاتے ہیں جو اصل میں اپنے دوستوں‘ خاندان کے افراد سے ملنے جلنے میں میسر ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں ایک اور عجیب بات بھی سامنے آئی کہ فیس بک یوزرز جتنی بار اس سوشل نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہیں‘ اتنی بار ہی ان کے مزاج پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ انسانوں سے دور رہ کر صرف فیس بک کی وال پر اپنے امیج کو بنانے والے افراد اپنی شخصیت میں حقیقی تبدیلیاں لانے کی بجائے ایک تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں۔
فیس بک کی دسویں سالگرہ پر‘ اب یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا آنے والے دور میں انسان‘ انسان سے دور ہو کر صرف اپنے آئی پیڈ یا کمپیوٹر کی سکرین پر ہی اپنے روابط قائم رکھے گا۔ کیا وہ دور کبھی پھر سے واپس آ پائے گا جب لوگ اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے ملنے کے لیے باقاعدہ وقت نکالا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھروں میں جایا کرتے تھے اور جب فرینڈ کا مطلب فیس بُک فرینڈ کی اصطلاح سے بالکل مختلف ہوتا تھا۔
فیس بک پر سینکڑوں ایسے دوستوں کی فہرست ہوتی ہے جن سے آپ زندگی میں کبھی ملے تک نہیں ہوتے لیکن ا ن کے ساتھ آپ اپنی تصویریں‘ زندگی کے معاملات شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر ایسے رابطوں میں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ جن لوگوں کے پروفائل پڑھ کر آپ انہیں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر کے دن رات ان کے ساتھ گفتگوکرتے رہتے ہیں‘ وہ پروفائل کس حد تک درست ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ جس خاتون سے آپ نے دوستی کر رکھی ہے ہو سکتا ہے وہ کسی مرد کا پروفائل ہو جو آپ کو دھوکہ دے رہا ہو۔
فیس بک پر ذاتی معلومات اور اپنے خاندان کی تصاویر اجنبی افراد کے ساتھ شیئر کرنے کی وجہ سے ہمارے ملک میں کئی قسم کے جرائم ہونے لگے ہیں۔ کراچی میں ہونے والا اغواء برائے تاوان کا واقعہ شاید آپ کی یادداشت میں اب بھی محفوظ ہو‘ جس میں ایک کروڑ پتی گھرانے کے اکلوتے بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔ اس بچے کے بارے میں تمام معلومات اغواء کرنے والوں نے فیس بک سے لیں کیونکہ وہ بچے کی فیس بک پر فرینڈ لسٹ میں موجود تھے۔
فیس بک پر لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ‘ اپنے امیج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔ اچھے بھلے معزز لوگوں کو اپنے قیمتی موبائل‘ نئی گاڑی کے ساتھ تصویریں کھینچ کر فیس بک پیج پر اپ لوڈ کرتے دیکھا ہے۔ ایسی ہی چھچھوری حرکتیں بعض ایسی خواتین کو بھی کرتے دیکھا ہے جن کا بظاہر تاثر تہذیب یافتہ اور پروقار خواتین کا ہے۔ وہ اپنی وال پر ایسے ایسے پوز والی تصاویر لگاتی ہیں کہ خیال آتا ہے کہ جوانی میں ان کو ماڈلنگ کا شوق رہا ہوگا جو اس وقت تو پورا نہ ہوا مگر اب اس شوق کو فیس بک پر پورا کیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک یہ ایسی ہی بات ہے کہ آپ سرِ راہ کھڑے ہو جائیں اور ہر آتا جاتا فقرے بازی کرتا رہے۔ ہاں اپنے محدود دوستوں اور خاندان کے ساتھ اپنی تصاویر شیئر کرنا بُرا نہیں ہے کیونکہ فیس بک کا ایک فائدہ جو سب کو دکھائی دیتا ہے وہ یہی ہے کہ انسان پیسے خرچ کیے بغیر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے خاندان کے افراد اور بچھڑے ہوئے دوستوں کے ساتھ رابطہ رکھ کر انہیں اپنے حالات سے باخبر رکھ سکتا ہے۔ انٹرنیٹ سائیکالوجسٹ کا کہنا ہے کہ فیس بک ایک زبردست ایجاد ہے مگر شاید ابھی ہمیں یہ جاننے میں تھوڑا وقت لگے گا کہ ہم رابطے رکھنے والی اس حیران کن ویب سائٹ کا صحیح استعمال کیسے کریں۔ آج کا انسان فیس بک کے ہزاروں دوستوں کی موجودگی میں تنہائی سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہے کیونکہ انسان کا انسان سے اصل رابطہ فیس بک وال پر نہیں‘ حقیقی زندگی میں ہی ممکن ہے۔