"SQC" (space) message & send to 7575

امیج بلڈنگ

آج کی دنیا میں امیج بلڈنگ کا تصّور بہت اہم ہے۔ صنعتیں اور ادارے اپنے امیج کو لوگوں میں بہتر بنانے کے لیے لاکھوں روپے اشتہارات پر لگا دیتے ہیں۔حکومت ‘امیج بلڈنگ پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپیہ اشتہارات پر لگا دیتی ہے۔حکومت ‘پیپلز پارٹی کی ہو یا ن لیگ کی‘ بہتر امیج کے لیے عوامی بہبود کے پروگراموں کو بڑھا چڑھا کر ‘اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں بیان کیا جاتا ہے۔اسی طرح ہمارے ہاں ایک جملہ اکثر بولا جاتا ہے کہ فن اور ثقافت کی سرگرمیوں سے دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج ابھرے گا۔بدقسمتی سے دہشت گردی نے پاکستان کے پُرامن ہونے کے امیج کو متاثر کیا ہے۔ یعنی بات گھما پھرا کر پھر امیج پر ہی آ کر رُکتی ہے جس مفہوم میں ہم لفظ امیج استعمال کر رہے ہیں۔اس کا اردو ترجمہ ‘مضبوط تاثّر ہو سکتا ہے۔ کچھ ممالک نے اس پر بہت بہتر کام کیا مثلاً بھارت ۔بھارتی اپنے ملک کے سیکولر امیج کو دنیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔اگرچہ وہاں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ جبر اور ظلم کے واقعات آئے دِن ہوتے رہتے ہیں۔ آرٹ‘کلچر‘فن‘ اور فلم کے میدان میں بھارت کا امیج دنیا بھر میں بہت مضبوط ہے۔باوجود یکہ اس گلیمراور رنگ و روشنی سے بھر پور اس امیج کی چھتری کے نیچے‘بھارت میں غربت وننگ‘ بھوک‘ریپ اور کرپشن کی اندھیر نگری موجود ہے۔بھارت کے مقابل ہماری صورت حال یہ ہے کہ :
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
اس میدان میں ہم ایک ناکام ملک ہیں‘ کہ ہم اپنی اچھی باتوں اور روشن‘پہلوئوں کو دنیا میں عام نہیں کر سکے‘ہمارے ہاں فن‘آرٹ‘ مصوری‘ ادب موسیقی کے بڑے نام موجود ہیں‘ مگر کتنے ایسے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے ہوں سوائے‘ہمارے محترم انتظار حسین کے جو 2013ئمیں ادب کے عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے تھے ‘سماجی خدمت کے میدان میں ہمارے پاس قابل فخر نام موجود ہیں۔ بھارت کے ہاں عبدالستار ایدھی جتنا بڑا کوئی سماجی ورکر نہیں۔ ایدھی ٹرسٹ ‘ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کی سماجی خدمات کا دائرہ تو اب پاکستان سے نکل کر بیرونی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ کراچی جہاں تواتر سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں وہاں رمضان چھیپا جیسی ہمدرد اور دردِ دل رکھنے والی سماجی شخصیت اپنے سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ‘دن رات خدمت خلق میں مصروف ہے۔ یہ تو بڑے پیمانے پر سماجی خدمت کا ذکر ہے‘ جبکہ چھوٹے چھوٹے پیمانے پر بھی ہزاروں لوگ‘کسی نہ کسی صورت‘عوامی بہبود کا کام کر رہے ہیں‘کوئی تعلیم کے میدان‘میں کوئی صحت کے میدان میں۔کوئی ہنر سکھا رہا ہے تو کوئی‘بے روزگاروں کے لیے روزگار کا سامان کرنے کی جستجو میں مصروف ہے۔
ان گنت روشن پہلوئوں‘اچھائیوں‘ اور خوب صورتیوں ‘کے باوجود‘ دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر کیوں نہیں ہے۔اس لیے کہ ہم مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی جیسے مسائل اور معاملات کو سلیقے سے ہینڈل کرنے کی بجائے‘انہیں بگاڑ دیتے ہیں۔یہ معاملے جب پاکستان کے ہاتھوں سے ہائی جیک ہو کر بیرونی دنیا میں پہنچتے ہیں‘ تو وہاں ان کو اس طرح سے پروجیکٹ کیا جاتا ہے کہ جس سے مغرب میں پاکستان کا تاثّر خراب ہو جاتا ہے۔ ملالہ کے واقعے کو جس طرح ‘ مغرب نے ہائی جیک کیا‘ پھر اُس کی خود نوشت لکھوائی گئی‘ اس سے باہر کی دنیا کو یہی پیغام گیا کہ پاکستان میں لڑکیوں کو پڑھایا نہیں جاتا‘ بلکہ سکول جانے والی بچیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے اگرچہ انکار نہیں کہ‘چند برسوں سے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقے میں طالبان نے بچیوں کے سکولوں کو بموں سے اڑایا‘لیکن پاکستان کا صرف یہی رُخ پوری سچائی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر بڑے سے بڑے تعلیمی ادارے میں‘طالبات کی تعداد‘لڑکوں سے زیادہ ہے۔لڑکیاں تعلیمی میدان میں شاندار نتائج دے رہی ہیں۔پاکستان آرمی کے ہر شعبے میں ذہین اور قابل لڑکیاں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو فائٹر پائلٹ بھی بننے لگی ہیں۔بہاولپور جیسے قدرے روایتی اقدار کے شہر سے تعلق رکھنے والی عائشہ فاروق پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ ہیں۔ جو کسی بھی طرح پروفیشنل ٹریننگ میں اپنے مرد ساتھیوں سے پیچھے نہیں۔
نمیرہ سلیم بھی فرانس میں مقیم ایک پاکستانی لڑکی ہے جس نے ناسا میں اپنے خلائی سفر کی ابتدائی تربیت مکمل کی۔یہ ابتدائی تربیت بہت سخت مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔2008ء میں وہ اُن دس افراد میں شامل تھی جنہیں ناسا نے خلاء میں بھیجنے کے 
لیے متفرق شعبوں سے منتخب کیا تھا‘اگرچہ بعض وجوہ کی بناء پر یہ مشن تکمیل کو نہیں پہنچ سکا لیکن نمیرہ سلیم کو اس حوالے سے خوب پذیرائی ملی۔ 23سالہ ثمینہ بیگ بھی ایک نوجوان پاکستانی ہیں جنہوں نے 2013ئمیں مائونٹ ایورسٹ ‘کی چوٹی سر کی اور دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بلند کیا۔ثمینہ پہلی پاکستانی خاتون ہے جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔پاکستان کی اِن قابلِ فخر خواتین کا ذکر کرتے ہوئے‘ مجھے پائلٹ شہناز لغاری بھی یاد آ رہی ہیں جو ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور دنیا کی واحد خاتون ہیں جو حجاب اوڑھ کر پروفیشنل جہاز اڑاتی رہی ہیں۔ چند سال پیشتر میں نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ پہلے انہیں قدم قدم پر جدوجہد کرنا پڑی کیونکہ وہ اپنا نقاب اتارنا نہیں چاہتی تھیں‘ جبکہ نقاب کے ساتھ جہاز اڑانے کی پہلی کوئی مثال موجود نہ تھی مگر اس بہادر خاتون نے بالآخر دیوار سے راستہ بنا کر دنیا پر ثابت کر دیا کہ پاکستانی خواتین باصلاحیت اور قابل ہیں۔
باہر کی دنیا صرف ملالہ یوسف زئی اور مختاراں مائی کو جانتی ہے۔ صرف انہی کی پذیرائی کرتی ہے ۔انہیںپاکستان کا میلا تاثر ابھار کر ہی اپنے مقاصد حاصل کرنا ہیں۔پاکستان کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ امیج بلڈنگ کی اس جنگ میں شکست سے بچنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں