49 دن کی حکومت کے بعد اروند کجری وال نے جان لوک پال بل اسمبلی میں مسترد ہونے پر وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ 70 سیٹوں کی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف اس احتساب بل کے حق میں صرف 27 ووٹ آئے جبکہ 42 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا ‘یوں اروند کجری وال کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ محض دہلی میں عام آدمی کی حکمرانی قائم ہونے سے کرپشن فری معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا بلکہ ابھی عشق کے اور بھی امتحان باقی ہیں۔ 44 سالہ سابق بیوروکریٹ اروند کجری وال نے عام آدمی کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے اناہزارے کی قیادت میں جس سفر کا آغاز کیا تھا اس کا اصل امتحان ہی اب شروع ہوا ہے ۔کجری وال کے عزم اور جذبے کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ وہ آئندہ اس سے بھی بڑا کوئی معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے اور نئے الیکشن کا مطالبہ کر دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کا ہر ورکر اب پہلے سے زیادہ پُرعزم ہے کہ اب کی بار بھی وہ اپنے جھاڑو سے میدان سیاست کے پرانے بُرجوں کو گرانے میں کامیاب ہوں گے۔
جان لوک پال بل کے خلاف کانگریس اور بی جے پی کا مشترکہ گٹھ جوڑ عام آدمی کی حکومت کو گرانے کا باعث بنا اور یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ دونوں بڑی جماعتوں کا یہ گٹھ جوڑ کھرب پتی بھارتی مکیش امبانی کی کرپشن کے تحفظ کے لیے تھا کیونکہ اروند کجری وال نے مکیش امبانی کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ مکیش امبانی گروپ کی آئل اینڈ گیس کمپنی نے مصنوعی قلّت پیدا کر کے ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جو غریب عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس طرح قیمتوں میں اضافے کے بعد کمپنی اربوں روپے ناجائز منافع کما رہی ہے۔ یہی اروند کجری وال کا سب سے بڑا قصور تھا کہ بھارتی انڈسٹری کے ایک طاقتور ٹائیکون کو کرپشن کے معاملے پر کٹہرے میں کھڑا کرنے کا خواب دیکھا۔ ادھر مکیش امبانی جو دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں‘ اپنے پیسے کی بدولت حکومتوں کو بنانے اور گرانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بقول مکیش امبانی کے کانگریس‘ مری دکان ہے‘ میں یہاں سے جو چاہے خرید سکتا ہوں۔
گھاگ سیاستدان اور ارب پتی کارخانہ دار دراصل اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور مفاد کے اس کھیل میں عام آدمی کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔ اگر جنوبی ایشیا کی سیاست کا مطالعہ کریں تو کم و بیش یہاں ہر ملک میں کرپشن اور اقربا پروری کی ایسی ہی فضا نظر آتی ہے۔ اہل اقتدار اور طاقتور ہر طرح کے احتساب سے بالاتر ہیں۔ قانون اور ضابطے عام آدمی کے لیے ہیں۔ ایسی فضا میں دہلی میں‘ عام آدمی پارٹی کے نام سے جس تحریک کا آغاز ہوا‘ اُسے مساوات اور انصاف پر مبنی معاشرے کا خواب دیکھنے والے ہر طبقہ فکر نے پذیرائی دی۔ اس قافلے کا قافلہ سالار‘ اناہزارے ہے‘ جس نے 5 اپریل 2011ء کو اینٹی کرپشن
بل ‘جسے جان لوک پال بل کا نام دیا گیا ہے ‘کے پاس ہونے تک بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ کرپشن کے خلاف تحریک کا آغاز انا ہزارے نے 1998ء میں کیا لیکن دنیا بھر کی خبروں میں اناہزارے کا نام 2011ء میں آیا۔ دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجری وال بھی اس سفر میں ان کے ہمراہ ہو لیے‘ جنہوں نے ریونیو آفیسر کی نوکری سے استعفیٰ دے کر پری ورتن کے نام سے ایک این جی او بنائی۔ اس این جی او کی چھتری کے نیچے کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے لیے اروند نے دو سال پہلے ایک گروپ بنایا جس کا نام India against corruption تھا۔ اس میں دہلی کے بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہو گئے۔ بھارتی بیوروکریسی کو قریب سے دیکھنے کے بعد اروند کجری وال کو یقین ہو گیا تھا کہ جب تک طاقتور کرپٹ مگرمچھ قانون کے شکنجے میں نہیں آئیں گے یہ ناسور غریب عوام کی خوشیاں چھینتا رہے گا۔ اس ایک خواب نے کجری وال اور اناہزارے کو اکٹھا کردیا۔ 1963ء میں ڈرافٹ ہونے والے لوک پال بل میں بہت ساری نئی شقیں شامل کر کے اسے جان لوک پال بل کا نام دیا۔ جان سے جنتا یعنی عوام‘ عوامی خواہشات پر مبنی احتساب بل ہے اور اس میں کرپشن کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے جبکہ حکومتی ڈرافٹ میں یہ سزا صرف 7 سال ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے عملی میدان میں قدم رکھ کر اروند نے 26 نومبر 2012ء کو عام آدمی پارٹی کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس خواب کو خاکروبوں سے لے کر رکشہ ڈرائیوروں اور بڑے بڑے اداروں کے سی ای اوز تک‘ سب نے سپورٹ کیا۔
اسی سپورٹ سے عام آدمی پارٹی نے الیکشن جیت کر حکومت بنائی۔ اس سارے سفر میں کجری وال نے بخوبی دیکھ لیا کہ سیاستدان عوام کے نام پر ووٹ لے کر حکومتیں تو حاصل کرتے ہیں مگر کسی بھی ایسے نظام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جو ان کو قانون کے سامنے جوابدہ کرے اور ان کی کرپشن اور بددیانتی پر سوال اٹھائے۔ یقینا ایسا ہی سسٹم عام شہریوں کے حق کا تحفظ کر سکتا ہے۔ 49 دن کی حکومت کرنے کے بعد عام آدمی پارٹی اور اروند کجری وال کے سیاسی سفر کا آغاز اب ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ گھاگ سیاستدانوں اور کھرب پتی اشرافیہ کے مقابل‘ یہ چراغ کب تک جلتا ہے۔
جہاں تک اروند کجری وال اور ان کے حامیوں کا تعلق ہے‘ ان کے عزم اور جذبوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ وہ صرف حکومت سے مستعفی ہوئے ہیں‘ اپنے خوابوں سے نہیں...!!