انگریزی کی ایک کہاوت ہے:
If you are not a part of solution you are a part of problem.
بارہ‘ تیرہ حرفوں پر مشتمل وانٹس کی یہ چھوٹی سی بات‘ ایک آئینہ ہے‘ جس میں ہم‘ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے مائونٹ ایورسٹ جیسے بڑے مسئلے کے حل کے لیے کون کون سی سیاسی جماعت سنجیدہ ہے اور کون سی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایسی ہیں جو قومی سلامتی اور ملکی امن کے اس اہم اور حساس مسئلے پر صرف سیاست کرنا چاہتی ہیں۔
تحریک انصاف‘ جس ابہام کا شکار تھی اس میں سے کافی حد تک نکل آئی ہے۔ طالبان کے خلاف آپریشن کی حمایت کر کے بالآخر عمران خان نے اپنی جماعت کی سیاسی فکر کو صحیح سمت میں موڑ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف میں دونوں طرح کے طبقہ ہائے فکر بیک وقت موجود ہیں۔ ایک جانب وہ جو مذہبی رجحانات رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ جو بظاہر مذہبی رجحان نہیں رکھتے‘ جنہیں عرف عام میں لبرل سوچ کے حامی افراد کہا جاتا ہے۔ عمران خان کی اپنی شخصیت میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں اور یہی ان کی طاقت بھی ہے۔ جدید اور لبرل اندازِ فکر رکھنے والا شخص اگر مذہب کے قریب ہو ‘دین اسلام کو سمجھنے کی جستجو رکھتا ہو‘ اور زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے جو ضابطۂ اخلاق دیا ہے‘ اس پر یقین رکھتا ہو تو میری ناقص رائے میں یہی وہ امتزاج (Combination) ہے جس کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے ؛کیونکہ اسلام ارتقاء کا مذہب ہے۔ اجتہاد کا حکم دیتا ہے۔ کائنات کو تسخیر کرنے کے لیے غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام وہ نہیں جس کی تصویر بھٹکے ہوئے طالبان دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور نہ ہی جدید سوچ رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مذہب کی حدود و قیود کو خیر باد کہنے کو ہی ماڈرن ازم کہتے ہیں۔ اس وقت بھی ہمارا سماجی رویہ غلط ہوتا ہے جب ہم مذہبی رجحان رکھنے والوں اور نماز کی پابندی کرنے والوں کو بنیاد پرست یا طالبان کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ جس طرح ہم نے بہت بنیادی چیزوں کو کنفیوز کر کے‘ معاملات کو بگاڑا ہے‘ ہمیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اس کام کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں اور یہ کام ہم نے‘ ہمارے بڑوں نے‘ ہمارے معاشرے کے ملّا نے اس خوبی سے کیا کہ اب ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ آج ہم شرمندہ ہیں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اب دہشت گرد کہا جانے لگا ہے۔ مسلمانوں کے روپ میں دہشت گردوں کی نرسری کہاں اور کیسے تیار ہوئی۔ یہ ایک افسوسناک اور دل گداز کہانی ہے۔ ہم نے اسلام جیسے جدید‘ اجتہاد کی گنجائش رکھنے والے‘ ہر زمانے کے مذہب کو مسجد کے نیم خواندہ پیش امام کے حوالے کردیا۔ جس نے‘ منبر پر بیٹھ کر‘ دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو رگیدنے کا کام کیا۔ اسلام‘ شیعہ‘ سنی‘ دیوبندی اور بریلوی میں بٹتا چلا گیا۔ یوں سب مسلمان بھائی بھائی بننے کے بجائے اپنے اپنے فرقوں کی پرستش میں لگ گئے۔ فرقہ واریت کے ناسور نے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنی شروع کردیں اور اسلام کے نام لیوا بھول گئے کہ پیغمبر آخرالزماںؐ نے تو فرمایا کہ تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک تمہارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ اسلام جبر کا دین نہیں اور یہاں اسلام نافذ کرنے کا عزم کرنے والوں نے ڈنڈے‘ بندوقیں اور بارود اٹھا لیا۔ ہم نے جس بنیاد کو چھوڑا‘ دنیا نے اس کو حقیقت جان کر اپنا لیا۔
ہم نے اسلام ملّا کے حوالے کیا تو اس نے نماز نہ پڑھنے پر عذاب الٰہی کی وعید سنائی مگر یہ نہ بتایا کہ نماز کیا ہے اور انسان کے لیے ضروری کیوں ہے؟ کیونکہ وہ خود اس گہرائی سے نابلد تھا۔ ڈاکٹر ناظر حسین کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے 25,26 سال تک یورپ کے ایسے میڈیکل ریسرچ سنٹرز میں‘ مغربی سائنس دانوں کے ساتھ کام کیا‘ جو طبِ نبویؐ پر تحقیق کا کام خاموشی اور جانفشانی سے کر رہے تھے۔ سنتِ نبویؐ کے کسی ایک مقدس پہلو کو لے کر وہ ایک خاص دورانیے تک اس پر سائنسی انداز میں تحقیق کرتے اور پھر نتائج نکالتے۔ نماز کی افادیت پر وہاں برسوں تحقیق ہوئی۔ ڈاکٹر ناظر بتاتے ہیں کہ اٹلی کے ایک نامور معالج‘ جو طبی میدان میں تحقیق کا بڑا نام ہے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر مسلمان پانچ وقت نماز کو اس انداز میں ادا کریں جو ان کے نبیؐ نے فرمایا ہے تو انہیں کبھی ڈاکٹر کے پاس نہ جانا پڑے کیونکہ نماز ایک مکمل علاج ہے۔ نماز کی وقت پر ادائیگی‘ انسان کو باآسانی نظم کا خوگر کر دیتی ہے۔ زندگی میں قاعدہ اور ضابطہ آ جائے تو انسان اپنی صلاحیتوں اور وقت کا بہتر استعمال کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر ناظر بتاتے ہیں کہ طبِ نبویؐ اور سنتِ نبویؐ پر تحقیق کرنے والے اس یورپی سائنس دان کو انہوں نے خود دیکھا کہ وہ اپنے کمرے میں نماز کے ارکان قیام‘ رکوع اور سجدہ کو ایک صحت بخش ایکسرسائز سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے اسلام کے ہر روشن پہلو کو معلومات زندگی سے نکال کر صرف عبادات تک محدود کر دیا اور عبادات کو بھی ایک سطحی نظر سے دیکھا۔ اس کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
ہم ہر شے کو سطحی نظر سے دیکھنے والے لوگ ہیں اور بدقسمتی سے ہم نے کائنات کے سب سے بڑے مذہب اسلام کو سطحی نظر سے دیکھا۔ مسجد کے ملّا سے لے کر سیاست کی بساط پر موجود اقتدار اور اختیار کا کھیل کھیلنے والی مذہبی جماعتوں تک ‘ سب اس میں برابر کے قصوروار ہیں۔ قومی منظرنامے پر مولانا فضل الرحمن ایک اہم مذہبی رہنما ہیں مگر ان کا اندازِ سیاست سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہر حکومت کا حصہ ہو کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالبان کی حمایت بھی کرتے ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ معصوم بے گناہوں پر خودکش حملے کرنے والوں کے خلاف اگر پاک فوج ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے آپریشن کرتی ہے تو اس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اس عمل کی مخالفت میں قومی سلامتی پالیسی کی اہم ترین کابینہ میٹنگ کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ یوں حساس ترین قومی معاملات پر سیاست کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مولانا سمیع الحق‘ مولانا عبدالعزیز اور ان جیسے دوسرے ''مذہبی رہنما‘‘ طالبان کے روپ میں دہشت گردی‘ قتل و غارت کرنے والے قاتلوں کے زبردست حمایتی ہیں۔ ایسے ہی معزز محترم رہنما جب مسئلے کے حل کا حصہ نہیں بنتے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مسئلے کا حصہ ہیں۔ وہ مسئلہ جو 18 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ انہیں بھی اس پر کچھ غورو فکر کرنا چاہیے۔
If you are not a part of solution, you are a part of problem.