"SQC" (space) message & send to 7575

درست سمت میں پہلا قدم

چینی قوم کی ترقی میں قدیم دانش کا بہت ہاتھ ہے جس کو چینیوں نے اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا۔ ایسی ہی ایک عقل کی بات پرانی چینی کہاوت یوں بیان کرتی ہے: 
"It is better to take many small steps in right direction than to make a great leap forward only to stumble backward".
صحیح سمت کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے جانا‘ ایک بڑی چھلانگ لگانے سے بہتر ہے‘ جو غلط سمت کی طرف ہو اور جس کے بعد آپ کو مزید پیچھے جا کر منہ کے بل گرنا پڑے۔ 
صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت وہ خوبی ہے جو ناکام اور کامیاب افراد کے درمیان ایک لکیر کھینچتی ہے۔ بہت ذہین اور قابل افراد بھی جب صحیح قوت فیصلہ سے محروم ہوتے ہیں تو زندگی میں اپنے وسائل اور صلاحیتوں کا بہتر استعمال نہیں کر سکتے‘ اس کے برعکس اوسط درجے کی صلاحیت کے مالک افراد اگر صحیح فیصلے سے درست سمت کا چنائو کر کے سفر آغاز کرتے ہیں تو ایک دن منزل ضرور پا لیتے ہیں اور یہی حال قوموں کا بھی ہے۔ پاکستان 1947ء میں آزاد ہوا اور برسوں کے سفر کے بعد بھی معاشی حالت دگرگوں ہے‘ سماج ابہام کا شکار ہے اور بحیثیت قوم اجتماعی مقاصد کا تعین نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس جب گراں خواب چینی سنبھلے تو 1949ء میں مائوزے تنگ جیسے لیڈر نے پیپلز ری پبلک آف چائنا کی نئے سرے سے بنیاد رکھی۔ غربت اور افیم کے نشے میں ڈوبی چینی قوم کے مقاصد کا تعین کیا‘ تو آج چین دنیا کے سپرپاور ملکوں کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ اس وقت چین زرعی ملک تھا اور مائوزے تنگ نے تہیّہ کیا کہ وہ چین کو زرعی ملک سے صنعتی ملک میں تبدیل کر دیں گے۔ صحیح وقت پر ایک صحیح فیصلے نے چینی قوم کے لیے درست سمت کا تعین کردیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد آنے والے ''صنعتی انقلاب‘‘ نے جس طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا‘ اس میں مائوزے تنگ کا یہ فیصلہ بالآخر چین کے لیے درست ثابت ہوا اور آج چین کی انڈسٹری نے امریکہ سمیت دنیا بھر کی صنعتوں کو مقابلے کی ایسی فضا میں لا کھڑا کیا ہے جہاں چین کو شکست دینا مشکل نظر آتا ہے۔ آج یورپی اور امریکی سپر سٹورز میڈ ان چائنا مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ 
دنیا کی ترقی کو دیکھ کر اپنے گھر کے سلگتے ہوئے مسائل کا دھیان آتا ہے۔ آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی ہم ابھی تک غربت کے خاتمے‘ سو فیصد خواندگی‘ صحت‘ تعلیم سب کے لیے اور معاشی ترقی کے دوسرے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگرچہ مخلص افراد بھی میدانِ عمل میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے کرپشن اور دہشت گردی کا ناسور جس غیر محسوس طریقے سے وطن عزیز کی جڑوں تک پھیل گیا ہے‘ اس کی خبر ہوتے ہوتے ہم بہت کچھ گنوا چکے ہیں۔ طبقہ اشرافیہ اور صاحبِ اختیار و اقتدار کی کرپشن نے عوام کو غریب تر کیا‘ ملک میں غربت اور بھوک بڑھی لیکن دہشت گردی‘ بدامنی‘ خودکش حملوں نے خوف اور دہشت کی ایسی فضا بنا دی جس میں زندگی بارود کی نذر ہونے لگی‘ حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے وار آن ٹیرر کا عذاب اس سرزمین پر اُتارا۔ غریب طبقے کے بے وسیلہ نوجوانوں کی برین واشنگ اس انداز میں کی گئی کہ خواب دیکھنے کی اور امید اوڑھنے کی عمر میں انہوں نے اپنے جسموں پر بارود پہن لیا‘کچی عمروں میں یہ بھٹکے ہوئے نوجوان بے گناہوں کی موت کا سامان بننے لگے اور آج خودکش دھماکوں میں آئے دن زندگی سے بھرپور لوگ چیتھڑوں میں بدل جاتے ہیں۔ 
دہشت گردی‘ طالبانائزیشن‘ یہ وہ مسائل ہیں جن کو ہمارے حکمرانوں نے سنجیدہ نہیں لیا۔ ایک فیصلہ درست بھی کیا تو دوسرے غلط فیصلے نے اس کی اہمیت پھر گھٹا دی۔ مثلاً دہشت گردی کے مائونٹ ایورسٹ کو شکست دینے کے لیے 2009ء میں ایک ادارہ بنایا گیا جس کا نام National counter terrorism authority تھا۔ کافی عرصہ تک یہ ایک غیرفعال ادارہ رہا... اگرچہ بدامنی عروج پر تھی اور خودکش حملوں کے سانحے آئے روز ہوتے رہے‘ مگر یوسف رضا گیلانی کی حکومت شاید اس سے زیادہ اہم مسائل میں الجھی ہوئی تھی۔ 2010ء کا آغاز ہو گیا‘ مگر ادارے کو فعال نہ کیا جا سکا۔ پھر داتا دربار لاہور میں خودکش حملہ آور تمام تر حفاظتی حصار توڑ کر دہشت گردی کا بھیانک حملہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو حکومت کو خیال آتا ہے کہ اس نام کا بھی کوئی ادارہ موجود ہے۔ جولائی 2010ء کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اعلیٰ سطح کا اجلاس بلاتے ہیں جس کا ایجنڈا ہوتا ہے کہ اب NACTAکو فعال کیا جائے اور ساتھ ہی دہشت گردی پر قابو پانے میں اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی حکومت اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ کو نافذ کرنے میں سستی کا شکار ہوئی۔ اس وقت جب قومی سلامتی کے اتنے بڑے مسئلے کو مجرمانہ غفلت سے نظرانداز کیا جا رہا تھا تو عین اسی دورانیے میں ایفی ڈرین کرپشن سکینڈل کے تانے بانے بُنے جا رہے تھے۔ 
ایک جانب 2009ء میں ایفی ڈرین کیس کی صورت اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے تو دوسری طرف 2010ء میں حج کرپشن سکینڈل بھی منظر عام پر آتا ہے‘ جس میں گیلانی حکومت نے حج جیسے مقدس فریضے کی انجام دہی میں کرپشن کا کاروبار کر کے خوب بدنامی کمائی۔ یہ تھیں حکومت کی مصروفیات کی ایک جھلک کہ جب ملک میں قتل و غارت جاری تھی تو NACTAکی اعلیٰ سطحی میٹنگ بلائی گئی اور وہ بھی محض میڈیا اور عوام کے لیے ایک دکھاوا تھی کیونکہ اس میں کوئی قابلِ قدر فیصلہ یا لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔ تھری ڈی کے نام سے ڈائیلاگ‘ ڈیٹرنس اور ڈیویلپمنٹ کی ایک کاغذی پالیسی بنائی گئی‘ جو فائلوں تک ہی محدود رہی۔ قومی سلامتی کے حساس اور ناگزیر اہمیت کے معاملات میں بے حسی اور بدنظمی کا اذیت ناک مظاہرہ کیا گیا۔ 
حالیہ دنوں میں نوازشریف حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس کی کچھ تفصیلات تو منظر عام پر آ چکی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جس کا Secretive measures کے طور پر اعلان کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال انسدادِ دہشت گردی کے لیے قائم قومی ادارہ NACTA کو فعال کرنے کا عزم کر لیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے اس پر جو تفصیلی لائحہ عمل تیار کیا اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بالآخر صحیح سمت کی طرف پہلا قدم اٹھانے کا آغاز ہو گیا۔ اس بات کو سراہنا چاہیے کہ حکومت نے اس ناسور سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمہ جہت قسم کی پالیسی تیار کی ہے‘ جس میں بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گرد جس ماحول اور فضا میں پنپتے ہیں اس ماحول کو تبدیل کیا جائے‘ دہشت گردی کے پیچھے موجود وجوہ کا خاتمہ ضروری ہے۔ جس طرز پر انڈونیشیا اور ملائیشیا نے ہر سطح پر معاشی‘ تعلیمی اور روزگار میں بہتری لا کر دہشت گردی سے نمٹا تھا‘ اُس انداز میں پاکستان کو بھی اس مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ پالیسی فائل ورک تک محدود نہ رہے تو یہ اگرچہ دیر سے اٹھایا گیا‘ مگر درست سمت کی طرف پہلا قدم ضرور ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں