"SQC" (space) message & send to 7575

احساسِ ذمّہ داری کا قحط

دراصل تھرپارکر میں قحط دوائوں اور خوراک کا نہیں‘ احساسِ ذمّہ داری کا ہے۔برسوں سے غربت کے مارے ہوئے لوگوں کی بہتری کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ قدرتی بارشوں سے اگنے والے سبزے اور چارے پر زندگی گزارنے والے سادہ رہن سہن کے صحرائی لوگ‘ جنہیں نہ عالیشان پلازے درکار تھے نہ بل کھاتی پختہ سڑکوں کا جال، نہ شاندار تعلیمی ادارے، نہ جدید سہولتوں سے مزین دوا خانے،انہیں اگرکچھ درکار تھا تو دو وقت کی روٹی، بیماری میں دوا اور پینے کو صاف پانی۔ گویا زندہ رہنے کے لیے چند بنیادی ضرورتوں کا پورا ہونا ہی اُن کے لیے سب کچھ تھا اور ہے ، مگر یہ بھی کسی سے نہ ہو سکا۔چھیاسٹھ برس بعد بھی تھرپارکر کے صحرائی لوگ جہالت اور غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔اُن کی غذائی ضروریات کا اچھی طرح پورا ہونا تو دور کی بات ، وہاں سادہ روٹی کا بھی قحط پڑ گیا۔ پھلوں اورمتوازن غذا سے دوری ہی وجہ بنی کہ ان میں قوت مدافعت اس قدر کم ہو گئی کہ اُن کے جسم بیماریوں کو دعوت دینے لگے۔سندھ کے ایک حصے میں بھوک، بیماری اور موت کا رقص چند ماہ سے شدید ہوچکا ہے، یہاں تک کہ مائوں کی بانہوں میںبچے دم توڑرہے ہیں ۔ معمول سے زیادہ سردی نے نمونیا اور فلوجیسی بیماریوں کو جنم دیا۔آس پاس نہ ڈسپنسری نہ دوا خانے‘شہر کتنے لوگ جا سکتے ہیں اور جو بیماراورلاغر بچوں کو لے کر شہر کے سرکاری ہسپتا ل تک پہنچے تووہاں جاں بلب بچوں کے لیے آکسیجن تھی نہ ضروری ادویات ۔اور تو اور ڈیوٹی پر ڈاکٹر ہی موجودنہیں تھے۔ ایسے میں ننھی جانیں کیسے بچ سکتی تھیں۔ بچوں کی اموات کے حوالے سے متضاد خبریں ہیں۔ سندھ حکومت اپنی سنگین نااہلی کو چھپانے کے لیے درست اعداد و شمار پر پردہ ڈال رہی ہے اور یہ کام سند ھ کے وزیر اطلاعات بخوبی کر رہے ہیں۔فرماتے ہیں کہ زیادہ اموات خوراک کی کمی سے نہیں بلکہ صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہوئیں ۔لیکن وہ بھول گئے کہ صاف پانی کی فراہمی بھی تو سندھ حکومت کی ذمّہ داری تھی۔اگر ہسپتالوں میں دوائیں اوردوسری ضروری سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بیماروںکا علاج نہیں ہوتا تو اس کی ذمہ داری بھی سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی اس صورت حال پر سوموٹو ایکشن لے چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ پر بلاول بھٹو بھی برہم ہیں۔ دیکھنایہ ہے کہ تھرپارکر کے معصوم بچوں کی اموات کے سانحے کے بعد قائم علی شاہ کی وزارت اعلیٰ قائم رہتی ہے یاعالمی دستور کے مطابق انہیں فارغ کردیا جاتا ہے۔ حکومتی اور انتظامی سطح پر سنگین غفلت کی شاید ہی ایسی کوئی اور مثال ہو۔اگر ذمہ داران کے دلوں میں اس جرم کی سنگینی کا احساس پیدا ہوجائے تواس علاقے میں ہمیشہ کے لیے غذا، پینے کے صاف پانی اور علاج کی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنا ئی جاسکتی ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہاں احساس ذمہ داری کا شدید قحط ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سائیں قائم علی شاہ‘بھوک اور بیماری سے مرنے والے تھرپارکر کے باسیوں کی خبر گیری کے لیے تشریف لائے تو انہیں شاندار ضیافت دی گئی۔ انواع و اقسام کے کھانے صوبے کے حاکم کے سامنے چن کربھوک سے مرنے والوں کی بے بسی کا مذاق اڑایا گیا:
وہ زر کے بل پر اڑاتے ہیں مفلسوں کا مذاق
خدا بساط سے بڑھ کرنہ دے کمینوں کو!
تھرپارکر میں ہونے والا سانحہ پوری دنیا کے اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں جہاں گندم ہماری ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتی ہے‘انتظامیہ کی بدترین نااہلی کے باعث گوداموں سے گندم ضرورت مندوں تک نہ پہنچائی جا سکی۔گندم کی پیداوار کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گندم کی پیداوار 3.5فیصد بڑھی ہے ۔ گزشتہ برس 25ملین ٹن ٹارگٹ تھالیکن اس سے زیادہ گندم پیدا ہوئی۔ سندھ جہاں کا ایک حصہ بھوک اور قحط کا شکار ہو کر موت اور بیماری کے شکنجے میں گرفتار ہے، وہاں اس برس گندم کا ٹارگٹ 11ملین ٹن تھاجبکہ پیداوار ہدف سے 4فیصد زیادہ ہوئی۔
خوراک کی اتنی فراوانی کے باوجود متعلقہ اداروں کی مجرمانہ بے حسی ہے کہ اس دھرتی کے غریب ایک ایک نوالے کو ترستے رہیں۔اگر یہ خبر میڈیا پر نہ آتی تو ابھی تک سندھ حکومت‘بلاول بھٹو اور قائم علی شاہ کامیاب سندھ فیسٹیول کے خمار میں ہی گم ہوتے۔ بہرحال تھرپارکر سانحے نے دہشت گردی سے بڑھ کر دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا ہے۔اگرچہ اب وہاں امدادی کارروائیاں تیزی سے جاری ہیں لیکن ابھی کتنی اموات مزید ہوں گی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وبائی امراض سے ہزاروں لوگ شدید متاثر ہیں۔غذائی کمی کی وجہ سے لوگ انیمیا اور قوت مدافعت کی کمی کا شکار ہیں۔ایسے حالات میں جلد صحت یابی ممکن نہیں ہوتی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ تھرپارکر جیسے ناخواندہ اور پسماندہ علاقے سے منتخب ہونے والے سندھ کے سابق حکمران ارباب غلام رحیم نے بھی بیان دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ انہوں نے بھی سندھ پر حکمرانی کا شوق تو خوب پورا کیا مگر جن لوگوں نے انہیں اسمبلی میں بھیجاتھاان کا قرض انہوں نے بھی ادا نہیں کیا۔تھرپارکر میں ہونے والے قحط، موت،بیماری اور
بھوک کے اس جرم میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ ذرا ذہن پر زور ڈالیے تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ ملک میں میکرو اکنامکس کا معاشی انقلاب لانے والے ایک اور امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی ق لیگ نے تھرپارکر سے منتخب کروا کراقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا تھا۔سیدھے سادے‘ غربت زدہ ‘صحرائی لوگوں کو کس کس انداز میں استعمال کیا جاتا رہا مگر کسی حکومت‘کسی صاحب دل نے ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے لیکن ہمارے صحرائی علاقوں میں مصنوعی آبپاشی کا انتظام ابھی تک نہیں ہو سکا۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ہریالی آئے گی تو معاشی حالات بہتر ہوں گے ۔ پیٹ میں روٹی ہوگی توقلم اور تختی کا خیال آئے گا اورشعور کا سفر شروع ہو گا، اپنے حقوق کی پہچان ہو گی، یہاں کے باسی بھی ووٹ مانگنے والوں سے سکول اور ڈسپنسریاں بنانے کا مطالبہ کریں گے۔ وہ بھی سوال کر یں گے کہ قحط سے مرنے والے ان کے بچوں کا دکھ بہت بڑا ہے۔اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسی غفلت کا مظاہرہ ہوا ہوتا تو پوری کی پوری حکومت الٹ جاتی، مگر یہاں براہِ راست ذمہ دار افراد میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کر رہے ہیں،آٹے کے تھیلے بانٹتے ہوئے تصویریں بنوا رہے ہیں‘بیماری اور بھوک کے ہاتھوں ادھ موئے تھرپارکر میں انواع واقسام کے کھانے کھا رہے ہیںکیونکہ بدقسمتی سے یہاں خوراک اور دوائوں سے زیادہ احساس ذمہ داری کا قحط زوروں پر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں