یہ بلا شبہ ایک کریہہ منظر تھا جس نے مارچ کی خوشگوار دوپہر میں عجیب تلخی گھول دی۔تہذیب‘ انسانیت ‘احساس‘ ہمدردی‘ تعلیم‘ شعور کیا سارے نظریات‘ سارے الفاظ‘ بے معنی ہو چکے ہیں؟۔خوب صورت چہروں کے پیچھے اتنے بدنما لوگ چھپے ہوتے ہیں‘کچھ لوگ انسانوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی بھوک مٹانے کے جنون میں اتنا کھاتے ہیں کہ آنکھیں باہر ابل پڑتی ہیں۔لیکن نہ ان کی نیت بھرتی ہے نہ پیٹ بھرتا ہے۔ایسے ہوس کے مارے انسانوں کے سامنے لوگ بھوک سے بلکتے رہیں۔سسکتے رہیں تڑپتے رہیں انہیں رتی بھر اس کی پروا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ بدقسمتی سے ہمارے حکمران بھی ہیں۔تھر میں جس طرح بھوک ننھے بچوں کو موت کی وادی میں لے گئی مگر سندھ کے حکمران ثقافت میلے کی روشنیوں میں مگن رہے۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دولت‘اقتدار‘اور اختیار‘انسانوں کو انسانیت سے ہی عاری کر دیتا ہے۔
حکمرانوں ہی پر کیا موقوف‘صدیوں کی بھوک کے مارے ہوئے ایسے لوگ ہمیں اپنے اردگرد بھی نظر آتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے غریب ملازموں کو سامنے بھوکا بٹھا کر خود انواع و اقسام کے کھانے اپنے پیٹوں میں انڈیلتے رہتے ہیں۔
میں نے بھی ایسا ہی ایک منظر دیکھا جس نے مارچ کی خوشگوار دوپہر کو غارت کر دیا۔میں اس تلخی میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتی ہوں‘تاکہ آپ بھی اس تحریک کا حصہ بنیں۔اور ان مظلوم غریب بچوں کے لیے اپنی جگہ آواز ضرور اٹھائیں جنہیں‘قسمت نے غربت اور افلاس کی پاداش میں امیر گھرانوں میں ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا ہے جہاں ان پر دن رات جبر ہوتا ہے ۔16مارچ کی دوپہر‘ملتان کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں ایک خوشحال خاندان اپنی دو ملازم بچیوں کے ساتھ آیا ۔سات آٹھ افراد پر مشتمل گھرانہ ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ اور بچیاں دوسری میز پر کھانے کا آرڈر دیا۔کھانا شروع ہوا۔انواع و اقسام کے دیسی اور بدیسی کھانوں کی ورائٹی میز پر سج گئی۔کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو،چمچ اور کانٹوں کی آوازیں۔خوش گپیاں قہقہے ۔لذت کاو دہن میں غرق‘ان لوگوں کو احساس تک نہیں تھا کہ ان کی ملازم بچیاں‘ بھوکے پیٹ‘بجھے ہوئے چہرے لیے ان کی ساتھ والی میز پر بیٹھی جانے کس طرح‘اپنی بھوک پر قابو پاتے انہیں کھاتا دیکھ رہی تھیں۔
اتفاق سے ان کے ساتھ ہی میں بھی اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھی۔ اور یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں لکھنے اور تقریر کرنے کو تو خوب صورت الفاظ کے ڈھیر موجود ہوتے ہیں مگر ایسے مواقع پر کن الفاظ میں اس بے حس خاندان کو احساس دلایا جائے کہ اک نظر اپنی ان غریب ملازم بچیوں کو ہی دیکھ لیں، جو کسی بے بسی کے ساتھ ریسٹورنٹ کے ماحول میں اپنے چاروں طرف لوگوں کو کھانا کھاتے دیکھ رہی ہیں۔میں ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھی کہ ہمارا کھانا سرو ہونا شروع ہو گیا اب ایسے میں میرے لیے کھانا کھانا تو ایک جرم ہوتا۔ بالآخر میں نے ریسٹورنٹ کے ایک اہلکار سے کہا کہ آپ ان بچیوں کو ہماری طرف سے کھانا لاکر دیں کیونکہ ہم اس طرح کھانا نہیں کھا سکتے۔اس نے جواب دیا۔''میڈم یہ ان کی ملازم ہیں،آپ پلیز کھانا کھائیے۔‘‘
ٹھیک ہے ''اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ان کو جا کر کہیں کہ انہیں بھی کھانا دیں‘‘میں نے کہا لیکن یہ ان کا مسئلہ ہے و ہ ان ملازم بچیوں کو کھانا کھلائیں یا نہیں۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘یہاں روز لوگ اپنے ملازم بچوں کے ساتھ کھانا کھانے آتے ہیں ہم ان کو مجبور نہیں کر سکتے۔‘‘اہلکار نے بتایا۔
یہ گفتگو قریب بیٹھی بچیاں بھی سن رہی تھیں اور شاید ان کے بے حس مالک بھی۔انہیں اندازہ ہو گیا کہ کوئی بات ان کے متعلق ہی کہی جا رہی ہے‘ وہ میری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے سادہ سے الفاظ میں کہہ دیا '' آپ مہربانی کریں اور اپنی ان ملازم بچیوں کا بھی کچھ احساس کریں۔آدھے گھنٹے سے آپ کھانے میں مصروف ہیں اور یہ بیچاری بھوکی بیٹھی صرف آپ کو دیکھ رہی ہیں۔معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کے ذاتی معاملے میں مداخلت کی لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔کیونکہ غربت زدہ بھوکے بچوں کو سامنے بٹھا کر ہم پیٹ بھرنے کا جرم نہیں کر سکتے‘‘۔
اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ کہانی الگ ہے بچیوں کو کھانا سروکیا گیا ۔ اس تلخ واقع کے بعد اگرچہ مجھ سے کھانا تو نہ کھایا جا سکا مگر ضمیر ضرور مطمئن تھا۔
پچھلے دنوں گھریلو ملازم بچیوں پر ظلم اور جبر کی کئی خبریں اخبارات میں آئیں اور پنجاب حکومت نے ان گھریلو ملازم بچوں اور بچیوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔اسی حوالے سے ایک تجویز پیش کرنا چاہتی ہوں کہ یہ بھی قانون کا حصہ بنائیں کہ تمام ریسٹورنٹ‘ ہوٹل اس بات کو یقینی بنائیں کہ کھانے کے لیے آنے والے افراد کے ملازم بچے‘بچیوں کو بھی ساتھ ہی کھانا سرو کیا جائے گا ۔تمام بڑے اور چھوٹے ریستوران اس عمل کو اپنے قاعدے‘اور ضابطے کا حصہ بنائیں۔
ہوٹل کی انتظامیہ تمام میزوں پر ایسی ہدایات مینو کارڈ کے ساتھ رکھ سکتی ہے۔اگر ایسا ہو جائے تو یقین کریں ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔ اہل زر جو ظلم‘غربت زدہ بھوکے ملازم بچوں پر کرتے ہیں اس کا خاتمہ ہو گا اور وہ ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے اس قاعدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ جو منظر میں نے ملتان میں دیکھا ایسا روز ہمارے ریستورانوں میں ہو رہا ہے۔اہل دل لوگ اس پر کڑھتے ہیں لیکن وہی بات کہ کسی کا ذاتی مسئلہ سمجھ کر آواز اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔اب ضروری ہے کہ ہم احساس کو آواز میں ڈھالیں اور کسی شادی‘ تقریب‘ کسی جگہ بھی ایسا بدنما منظر دیکھیں تو ان لوگوں کو احساس ضرور دلائیں جن کے بارے میں احسان دانش نے درست کہا ہے ؎
وہ زر کے بل پہ اڑاتے ہیں مفلسوں کا مذاق
خدا بساط سے بڑھ کر نہ دے کمینوں کو