بہار کی بارش میں بھیگی اپریل کہ صبح محبت کے اوّلین دنوں کی طرح سحر انگیز ہے۔ اس خوب صورت موسم میں آج کا کالم لکھنے بیٹھی تو دل چاہا ہی نہیں کہ آج خیالات کو سیاست کی نذر کر دیا جائے۔ خیالات کی رو نے کہا کہ آج زندگی کے بارے میں سوچو۔ اس کے بارے میں لکھو۔ دیکھو یہ کیسے کیسے روپ بدلتی ہے‘ زندگی جو وقت کی صورت میں کبھی حسین خواب جیسی لگتی ہے اور کبھی کڑے عذاب جیسی۔ اپریل کی بارش میں بھیگی ہوئی یہ صبح‘ چائے کی گرم پیالی جیسی ہے‘ جسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے‘ سوچوں کی کھڑکیاں وا ہونے لگتی ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ کوئی شعر کہا جائے‘ کوئی نظم تراشی جائے۔ کہتے ہیں کہ موسم بہار انسانی سوچ اور ذہن کو تحریک دیتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ:
April is the Cruellest Month, breeding
Lilacs out of dead land, mixing
Memory and desire, Stirring
Dull roots with spring rain
بہار کی خوشبو سے بوجھل ہوا‘ یادوں پر سے ماضی کی گرد جھاڑتی ہے اور پھر بھولے بسرے منظر‘ یاد آنے لگتے ہیں۔
ہمارے باکمال شاعر‘ فیض احمد فیض کی یہ نظم کس کو بھولی ہو گی‘ جسے ٹینا ثانی نے اپنی آواز کا رنگ دے کر ہر خاص و عام میں مقبول کر دیا۔
بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آتے ہیں‘ پھر عدم سے
وہ خواب سارے‘ شباب سارے‘
جو ترے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے‘
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے‘
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں‘
جو ترے عشاق کا لہو ہیں‘
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملال احوال دوستاں بھی
خمار آغوش مہ وشاں بھی
غبار خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے سوال سارے
جواب سارے!
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے!
فیض بھی کیا کمال شاعر تھے‘ ایک ہی مصرعے میں‘ رومان‘ محبت‘ انقلاب‘ زندگی کی تلخ حقیقتیں سمو دیتے۔ بہار ہی کے موضوع پر اردو شاعری میں کئی اشعار ملیں گے‘ جیسے:
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
اور
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
ان دنوں بہار اپنے حسین رنگوں کے ساتھ ہمارے بام و در پر اتری ہے۔ شہر لاہور کی کچھ سڑکوں کے کنارے گل نشتر عجب نظارہ پیش کرتے ہیں۔ شہر کی خوبصورت شاہراہوں کے کناروں پر قوس قزح کے رنگوں میں کھلے‘ ان گنت پھول‘ توجہ کے طالب ہیں کہ انہیں دیکھ کر انہیں سراہا جائے۔ مگر گل نشتر کی تو بات ہی الگ ہے‘ جب درخت گل نشتر کا سرخ پھول اپنی شاخوں پر اٹھاتا ہے‘ تو سبز پتے جھڑ جاتے ہیں۔ پھر پھول ہی پھول درخت کی بانہوں میں بھرے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پھول اس دور کے Wordsworth کے انتظار میں ہیں کہ کوئی ان کے حسین سراپے پر ایسی ہی نظم کہے جو وڑزورتھ نے ''ڈیفوڈلز‘‘ پر لکھی تھی۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جھیل میں کھلے آبی کنول کے پھول ورڈزورتھ سے پہلے اس کی بہن ڈورتھی نے دیکھے‘ وہ اتنی مسحور ہوئی کہ اس نے ان پھولوں کے بارے میں اپنی ڈائری میں بہت تفصیل سے لکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈورتھی نے بھی پھولوں کا یہ حسین منظر اپریل کے مہینے میں دیکھا تھا۔15 اپریل 1802ء کو اس نے اپنی ڈائری کم جرنل میں اپنے احساسات بیان کیے۔ حیرت انگیز طور پر ڈورتھی کے نثری بیان اور ورڈزورتھ کی نظم میں اتنی مماثلت ہے کہ ناقدین نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ دراصل ڈورتھی کی ہی انسپیریشن تھی‘ جسے اس کے شاعر بھائی نے شاعری میں ڈھالا۔ اور یہ نظم 1804ء میں پہلی بار چھپی۔ غالباً اسی سال ہی لکھی گئی۔
ایک طرف بہار میں جابجا پھولوں کی قطاریں نظر آتی ہیں تو دوسری جانب‘ اسی موسم بہار میں‘ پھولوں جیسے بچے‘ بیماری اور بھوک کے جبر سے کملا کر رزق خاک ہوتے جاتے ہیں۔ بہار میں یہ دل دہلا دینے والا منظر میرے وطن کے ہی کے بدقسمت باسیوں کی بستی کا ہے۔ تھر جہاں بھوک‘ بیماری اور موت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہاں بہار کے نشان نظر نہیں آتے۔ تھر کے باسیوں کے بجھے چہرے ہوں یا‘ پھر صحرائے تھر کے بنجر منظر‘ ہر جانب خزاں چھائی ہوئی ہے۔
بہار‘ خوشبو‘ رنگ اور پھولوں کی بات کرتے ہوئے‘ بھوک‘ بیماری اور موت کا تذکرہ عجیب لگتا ہے لیکن شاید اس کے بغیر تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ فیض نے ہی تو کہا تھا؎
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
یہی زندگی ہے‘ جہاں ہر بہار کے ساتھ ایک خزاں موجود ہے‘ ہر زندگی کے ساتھ موت ہمسفر ہے‘ یہی پورا سچ ہے۔ یہی پوری تصویر ہے کہ اسلام آباد میں ڈالر سستا ہونے کی خوشی میں حکمران خوشحالی کی نوید سنا رہے ہیں اور دوسری جانب صحرائے تھر میں گندم کمیاب اور روٹی نایاب ہے اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں!