"SQC" (space) message & send to 7575

سبز انقلاب آئے دہائیاں گزر گئیں مگر…!

مٹھی‘تھرپارکر میں‘اس قحط زدہ ‘بنجر موسم کا پہلا مینہ برسا تو بچے بالے دیوانہ وار گلیوں میں رقص کرنے لگے۔اس بستی کے مکینوں کو جب بھوک اور غربت کے باعث‘بیماری سے لڑتے اور موت کے منہ میں جاتے دیکھتی ہوں تو بے اختیار نارمن بورلاگ (Norman Borlaug) یاد آتا ہے جس نے کہا تھا کہ سبز انقلاب کے بعد‘دنیا میں قحط اب‘فصل کی کم پیداوار سے نہیں آئے گا۔ اگر کہیں بھوک اور قحط نے ڈیرہ جمایا تو اس کے پیچھے بددیانت سیاستدانوں کی کرپشن‘اور خوراک کی غیر مساوی تقسیم ہو گی۔
نارمن بورلاگ وہ خواب گر تھا جس نے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کی بھوک کو محسوس کیا۔بڑھتی ہوئی آبادی کے سامنے‘ فصلوں کی محدود پیداوار کی تلخ حقیقت کو سمجھا اور پھر ایک خواب دیکھا کہ انہی کھیتوں سے دگنی‘چوگنی فصل اُگے گی ‘ اور روئے زمین پر کوئی شخص‘بھوک سے نہیں مرے گا‘ ہر شخص کو پیٹ بھر‘روٹی نصیب ہو گی۔ نارمن بورلاگ‘انسانی تاریخ کا ایک مہربان کردار ہے۔ وہ امریکی زرعی سائنس دان تھا‘مگر اس کی روح‘خواب دیکھنے والے‘ایک رومان پرور انسان کی تھی۔اس کا دل غربت زدوں کے لیے محبت اور ہمدردی سے بھرا تھا۔نارمن بورلاگ نے اس وقت نسل انسانی کو یہ خواب دکھایا جب مردم شماری کے ماہرین‘ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں خوفناک تجزیے کر رہے تھے‘ مگر جو ہولناک تصویر‘ایک امریکی بیالوجسٹ اور آبادی پر 
تحقیق کرنے والے سائنس دان Paul Ehrlichنے کھینچی‘ وہ دل دہلا دینے والی تھی۔ پال نے اپنی کتابPopulation Bomb میں لکھا تھا کہ انسانیت کی بھوک مٹانے کی یہ جنگ اب ختم ہونے والی ہے۔ستر کی دہائی میں کروڑوں لوگ خوراک کی کمی کے باعث قحط زدہ ہو کر موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ یہ کتاب 1968ء میں امریکہ میں چھپی اور دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی مقبول ہو گئی۔ اس پر کانفرنسیں اور سیمینار ہونے لگے۔ پال ان کانفرنسوں میں جاتا اور قحط زدہ انسانیت کی اس تصویر کو ہر بار پہلے سے زیادہ خوفناک انداز میں پیش کرتا۔عین اسی دور میں ‘نارمن بورلاگ ان تمام زمینی حقائق کے برعکس ایک اور ہی خواب کی تعبیر ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ وہ پودوں کی اس انداز میں جینٹیک میوٹیشن پر ریسرچ کر رہا تھا جس سے فصل کی پھل اٹھانے کی صلاحیت دگنی چوگنی ہو جائے۔ ایک جانب پال بھوک اور قحط سے دنیا کو موت کا پیغام دے رہا تھا تو دوسری جانب نارمن بورلاگ امکانات کے نئے جہان دریافت کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔پھر سبز انقلاب کا معجزہ رونما ہوا۔ ہر انسان کو پیٹ بھر کر روٹی میسر آنے لگی تو اس خواب کو بالآخر تعبیر کی صورت مل گئی۔ 
بورلاگ گندم اور چاول کی بہت زیادہ پیداوار دینے والی اقسام دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تجرباتی بنیادوں پر میکسیکو میں فصل اگائی گئی اور حیرت انگیز طور پر اسی زمین سے دگنی پیداوار حاصل ہوئی۔ بورلاگ سائنس دانوں کی ایک ٹیم کے ہمراہ اس پراجیکٹ پر سولہ سال کا م کرتا رہا۔ اسے مقامی کسانوں کی طرف سے عدم تعاون اور مزاحمت کا سامنا بھی رہا مگر اس کے باوجود نارمن مقصد کے حصول میں جتا رہا۔
اس نئی بائیو ٹیکنالوجی کو Dwarfingکا نام دیا گیا ۔اس میں گندم کی بالیاں چھوٹے قد کی مگر مضبوط ہوتی ہیں تاکہ زیادہ فصل کا بوجھ اٹھا سکیں۔جلد ہی اس نئی تکنیک کو نارمن بورلاگ نے جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں میں تجرباتی انداز میں اپنایا اور فی ایکڑ پیداوار کئی گنا بڑھ گئی۔1962ء میں بھارت کے زرعی تحقیقاتی اداروں کے ساتھ مل کر‘کامیاب تجربہ کیا۔اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر پروگرام کی ایک ریسرچ رپورٹ کے بعد‘ جب پاکستان کا نمبر ان 37ملکوں کی فہرست میں آیا جہاں خوراک کی کمی کے باعث قحط کا خطرہ ہے‘ تو نارمن بورلاگ‘اس نئی ٹیکنالوجی کو لے کر پاکستان بھی آئے اور یہاں بھی‘گندم اور چاول کی Dwarfing Cropsکا کامیاب تجربہ کیا۔افریقہ کے سوکھے ہوئے کھیتوں اور قحط زدہ بستیوں میں بورلاگ کے سبز انقلاب نے زندگی کی لہر دوڑا دی۔ آج دنیا میں زراعت کے میدان میں جو بھی ریسرچ ہو رہی ہے ‘ اس کی بنیاد نارمن بورلاگ کے ایک ایسے خواب پر ہے‘ جو اُس وقت کسی دیوانے کا خواب ہی لگتا تھا‘مگر نارمن بورلاگ کی لگن اور سچے جذبے نے اس انہونی کو کر دکھادیا۔اسی ریسرچ کی بدولت آج کوئی بھی فصل‘کسی بھی موسم میں اگانے کے کامیاب تجربے کیے جا رہے ہیں۔1970ء میں بورلاگ کو ادب کا نوبل ایوارڈ دیا گیا۔ کہاجاتا ہے کہ جتنی زندگیاں روئے زمین پر نارمن بورلاگ کے سبز انقلاب نے بچائیں‘ انسانی تاریخ میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔
نوبل امن ایوارڈ کی تقریب سے نارمن بورلاگ نے ایک تاریخی خطاب کیا۔ اس نے کہا: جو شخص اس زمین پر پیدا ہوا ہے‘ خوراک حاصل کرنا اس کا بنیادی اور اخلاقی حق ہے۔نارمن بورلاگ نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ انسانوں کی د و مختلف دنیائیں آباد ہیں۔ایک دنیا عیش پرستوں کی دنیا ہے جن کے پاس ضرورت سے وافر سرمایہ اور وسائل ہیں۔ دوسری طرف کم نصیب لوگوں کی دنیا ہے‘ جہاں غربت اور بھوک اس کے مستقل ساتھی ہیں۔سماجی انصاف کی بات کرتے ہوئے اس خواب گر نے ایک بہت خوبصورت جملہ بولا:If You Desire Peace, Cultivate Justiceسماجی انصاف کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی ہے‘ جب ہر شخص کو پیٹ بھر کر روٹی میسر آئے۔یہ اس کا بنیادی حق ہے۔
You cannot build a peaceful world on empty stomachs and human misery. دنیانارمن بورلاگ کی احسان مند رہے گی‘ جس نے اس دھرتی سے بھوک کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ناصر کاظمی نے ایسے ہی کسی مسیحاکی تلاش میں کہا ہو گا ؎
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمین کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
سبز انقلاب آئے ہوئے بھی اب دہائیاں گزر گئیں‘ مگر تھرّی آج بھی بھوک اور قحط کا عذاب سہہ رہے ہیں اور بورلاگ کے الفاظ میں اس قحط کا سبب بددیانت سیاستدانوں کے کرتوت اور خوراک کی غیر مساوی تقسیم ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں