رابعہ رات بھر سے جاگ کر اپنے بیالوجی کے پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔ گزشتہ تین مہینوں سے پڑھائی کا شیڈول بہت سخت تھا۔ ایف ایس سی پری میڈیکل کے دوسرے طلبہ و طالبات کی طرح رابعہ کے مستقبل کا فیصلہ بھی انہی امتحانات سے ہونا تھا۔ ڈاکٹر بننے کا جو خواب بچپن سے رابعہ دیکھتی آ رہی تھی ،اس خواب کی تعبیر کے لیے اب عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رابعہ کے ساتھ اس کے والدین کی بھی بھرپور کوشش یہی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو پڑھائی کے لیے بہترین ماحول فراہم کریں۔ ایک طرف ماں نے ہاتھ میں تسبیح تھام رکھی تھی اور مسلسل دعائوں کا ورد کر رہی تھیں، دوسری طرف رابعہ کے والد نے بھی اپنے دفتر سے آدھی چھٹی لے رکھی تھی کہ بیٹی کو پہلے پیپر کے روز خود امتحانی سنٹر چھوڑنے جائیں گے اور خود واپس لینے جائیں گے۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا آغاز مئی کے مہینے ہوتا ہے اور مئی میں گرمی اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتی ہے۔
پڑھائی کے لیے آرام دہ ماحول بنانے کی خاطر رابعہ کے والدین نے اس کے الگ کمرے میں ایئرکولر لگوایا تھا۔ اگرچہ یہ اضافی خرچہ ماہانہ بجٹ پر بوجھ کی صورت میں پڑا لیکن پھر بھی وہ مطمئن ضرور تھے کہ اپنی پڑھاکو اور ذہین بیٹی کے لیے گرمی میں کم از کم کولر تو لگوا سکے۔ پھر بار بار جانے والی بجلی میں بھی کولر یو پی ایس پر چلتا رہتا ہے۔ 2 مئی سے امتحانات کا آغاز ہوا۔ رابعہ کو امی ابو دونوں امتحانی سنٹر چھوڑنے کے لیے گئے۔امتحانی سنٹر ایک گورنمنٹ ہائی سکول بنایا گیا تھا۔ رابعہ کی اور بھی ہم جماعت لڑکیاں اسے وہاں مل گئیں اور ان میں ویسی ہی گفتگو ہونے لگی جیسی کمرۂ امتحان میں داخل ہونے سے پہلے طالب علموں میں ہوتی ہے۔ دس منٹ پہلے رابعہ بھی سب کے ساتھ کمرہ ٔامتحان میں پہنچی۔ مگر یہ کیا کہ کمرے میں کرسیاں تک موجود نہیں تھیں۔ جب وہاں لڑکیوں نے پوچھا تو ایک کرخت سے چہرے والی سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ آپ خود ہی کلاسوں سے جا کر کرسیاں اٹھا لائیں۔ یہ عجیب صورت حال تھی۔ رابعہ اور ا س کی طرح دوسری لڑکیوں کے لیے یہ سکول نیا تھا اور انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کن کلاس رومز سے جا کر کرسیاں لانی ہیں۔ بہرحال پیپر کا وقت شروع ہو چکا تھا اور وہ کرسیوں کی تلاش میں کلاس رومز میں جھانک رہی تھیں۔ خدا خدا کر کے سب اپنی اپنی کرسیاں اٹھا کر کمرۂ امتحان تک پہنچیں تو مئی کی گرم صبح میں پسینے سے شرابور تھیں۔ نگاہیں بے اختیار چھت کے پنکھے کی طرف گئیں تو پنکھا اپنے تین پروں کے ساتھ حیرت سے پڑھے لکھے پنجاب کی طالبات کو دیکھ رہا تھا۔ پلیز پنکھا چلوا دیں۔ ایک طالبہ نے ہمت کر کے کہا۔ ''پنکھا خراب ہے ‘‘! یہ جواب تھا کہ ایک پتھر جو وہاں کھڑی طالبات کے سر پر لگا۔
''پیپر کیسے دیں گے اتنی گرمی میں‘‘ ایک اور طالبہ نے احتجاج کیا۔ کمرے میں دو پنکھے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ کے اوپر لگا ہوا پنکھا گھوں گھوں کی آواز کے ساتھ چل رہا تھا اور مقدور بھر ہوا بھی دے رہا تھا۔ یاد رہے کہ اس ساری کارروائی کے دوران امتحان کا وقت شروع ہوئے چند منٹ گزر چکے تھے۔ خیر کمرۂ امتحان میں موجود کرخت صورت سپرنٹنڈنٹ اور انتہائی سنجیدہ چہرہ لیے‘ سپروائزر نے لڑکیوں سے کہا کہ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جائیں۔ طالبات کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔ دعائیں پڑھنے لگیں۔ آخر بیالوجی کا پیپر تھا اور وہ بھی پہلا ۔ اسی لیے سب کے چہرے قدرے نروس تھے۔ پیپر ابھی بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ ایک اور دھماکہ خیز خبر آئی کہ سوالنامہ جسے عرف عام میں کوئسچن پیپر کہا جاتا ہے‘ ابھی تلک سپرنٹنڈنٹ کے پاس نہیں آیا۔ وہ لانا بھول گئے یا کچھ بھی ہوا یہ ایک انہونی بھی ہو گئی‘ اب رابعہ سمیت تمام طالبات حیران پریشان دیکھ رہی تھیں کہ اب کیا کریں۔ انہیں پریشانی تھی کہ اگر پیپر لیٹ شروع ہوا تو ہم مطلوبہ سوالات کم وقت میں کیسے حل کر سکیں گے‘ فوراً ایک ایمرجنسی نافذ ہوئی۔ سوالنامہ منگوانے کا اہتمام کر لیا گیا اور خدا خدا کر کے صوبائی دارالحکومت کے ایک امتحانی سنٹر میں انٹرمیڈیٹ کے پہلے پرچے کا آغاز ہوا۔ 2 مئی کا سورج رفتہ رفتہ جوبن پر آنے لگا۔ گرمی بڑھنے لگی مگر کمرۂ امتحان میں طالبات پنکھے کے بغیر پسینے میں شرابور پرچہ حل کرنے میں مصروف تھیں۔ کئی دفعہ ماتھے سے پسینہ گر کر امتحانی شیٹ پر رابعہ کے لکھے ہوئے لفظوں کو مٹا گیا۔اسے اپنے والدین یاد آ گئے‘ جو اپنے وسائل سے بڑھ کر اسے سہولت آمیز زندگی دیئے ہوئے تھے‘ رابعہ کو خیال آیا اگر امی ابو کو خبر ہو جائے کہ ان کی پیاری بیٹی اتنی گرمی میں بغیر پنکھے کے پرچہ حل کر رہی ہے تو فوراً اس کے لیے ایک عدد پنکھا لے کر آ جائیں گے۔ خیر اسی گرمی میں طالبات نے پرچہ حل کیا۔ تاخیر سے پرچہ شروع ہونے پر ان کو اضافی وقت دے دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا مئی کا پورا مہینہ رابعہ کو اسی ماحول میں پرچے حل کرنا ہوں گے ؟ کیا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا مشہود کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں؟ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پنجاب حکومت کے
اقدامات دنیا بھر سے توصیف سمیٹ رہے ہیں۔ میٹرو بس منصوبہ‘ دانش سکول‘ لیپ ٹاپ سکیم‘ سب اپنی جگہ خوب صورت اقدامات ہیں لیکن پنجاب کے دارالحکومت میں سرکاری سکولوں کی حالتِ زار‘ ٹوٹی کرسیاں‘ خراب پنکھے‘ گرمی میں ٹھنڈے پانی کا ناکافی انتظام اور اس ماحول میں امتحان دینا طلبہ و طالبات کے ساتھ ناانصافی ہے۔ رابعہ جس کے والدین‘ اپنی جیب پر اضافی بوجھ ڈال کر اس کے لیے الگ کمرے میں ایئرکولر لگواتے ہیں‘ وہ پنکھے کے بغیر‘ مئی کی شدید گرمی میں‘ پرچہ حل کرتے ہوئے کیسے اپنی بہترین کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ اگر صوبائی دارالحکومت میں سرکاری سکولوں کا حال یہ ہے تو پھر پنجاب کے پسماندہ‘ چھوٹے شہروں کے سرکاری سکولوں کی حالتِ کیا ہوگی؟
ایسے خستہ حال سرکاری سکولوں کی چھتیں مرمت کروانے‘ پنکھے ٹھیک کروانے‘ ٹھنڈے پانی کے کولر لگوانے سے پنجاب حکومت کے دوسرے شاندار منصوبوں کی طرح‘ دنیا بھر میں واہ واہ تو نہیں ہوگی لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے دل ضرور دعائیں دیں گے۔ ورنہ رابعہ نے اس شام گھر آ کر جب امی ابو کو امتحانی سنٹر میں گزرے پہلے دن کی روداد سنائی اور اس کے بعد رابعہ کے والدین نے حکمرانوں کو جتنی '' دعائیں ‘‘ دیں وہ سب یہاں بیان کی ضرورت نہیں!