"SQC" (space) message & send to 7575

سانجھی مائیں

ہم پاکستانیوں میں لاکھ برائیاں ہوں گی لیکن ایک خوبصورتی ایسی ہے جس کی برکت سے ہماری ذاتی زندگیوں سے لے کر اجتماعی زندگی کے معاملات تک الجھی ہوئی تمام چیزیں اب تک سلجھ رہی ہیں ۔۔۔۔ یہ خوب صورتی اورانعام ہے اپنی مائوں سے محبت کرنے کا ! ہم اپنے دین کی تعلیم اور بے پایاں محبت کے جذبے سے سرشارہونے کی بدولت اپنی مائوں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں اور بجاطورپراس ہستی کودنیاوآخرت کی کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ ہم مائوں کوسانجھا سمجھتے ہیں ،اس لیے جب کسی اجنبی بزرگ خاتون کو ' ماں جی ‘ کہہ کر پکارتے ہیں تو اس ایک لفظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی‘ اس خاتون کے ساتھ محبت اوراحترام سے لبریز رشتہ وجود میں آجاتا ہے۔ جن کی مائیں حیات ہیں وہ خوش نصیب ہیں کہ اس برکت کے سائے تلے زندگی کے مشکل مرحلے آسانی گزار رہے ہیں۔ ان کی ماں کی دعا سفر میں زادِ راہ ہوتی ہے ،کڑی دھوپ میں شجر سایہ دار اورخون جما دینے والی سرد رُتوں میں سکون کی تھپکی دیتی دھوپ کی ٹھنڈی تمازت جیسی!
کسی بھی خواب کا سامان جب بکھرتا ہے
تو تیرے لمس کی شدت مجھے دُلارتی ہے
ہوائے سرد سے تکنے لگیں لہو کے قدم
تو ایک دھوپ کی حدت مجھے پکارتی ہے
جن کی مائیں حیات ہیں‘ انہیں کسی دوسرے کے پاس دعا کے لیے جانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی پیرومرشد توان کی ماں ہے ۔ مرد اور عورت کی برابری کی بحث میں پڑنے والوں کو خبر ہوکہ آقائے دو جہان ﷺکی ایک حدیث کے مطابق اولاد پر ماں کی خدمت کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے۔ بچے کی پیدائش اور اس کی پرورش کرنے کے جس صبر آزما مرحلے سے ماں گزرتی ہے اس کے انعام میں ربّ کریم نے جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی ہے۔ وہ لوگ جن کی ماں اللہ کی رحمت میں جاچکی ہے ان کے وجود کو اس کی یادیں مہکاتی رہتی ہیں ،ان کی ماں ان کے قلب وروح میں بستی ہے۔ ایسے لوگ اپنی ماں کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتے ہیں۔۔۔۔خود نیک عمل کر کے اور اپنی ماں کے لیے کوئی کار خیر انجام دے کر ! حقیقت یہ کہ ماں اور بچے کا تعلق موت بھی نہیں توڑ سکتی۔ ماں چلی جائے تو ہجر میں اس کی محبت حیران کن رنگوں میں نظر آتی ہے ۔کبھی اس کا لمس اور کبھی بوسہ اس کے اوجھل ہو جانے کے باوجود تازہ رہتا ہے۔ وہ نگاہوں سے اوجھل ضرور ہوجاتی ہے مگر دل کے جہاں میں آباد رہتی ہے۔
اب بھی تنہا تو نہیں ہوں کہ ترے بعد یہاں
ایک میلہ تیری یادوں کا لگا رہتا ہے
افتخار عارف کا ایک شعر دیکھیے :
ہجرکی دھوپ میں مائوں جیسی باتیں کرتے ہیں
آنسو بھی تو چھائوں جیسی باتیں کرتے ہیں
ماںکو یاد کر کے جو آنسو بہتے ہیں وہ بہت قیمتی ہوتے ہیں ۔ ماں کی دعا اور ماں کے لمس کی طرح یہ آنسو بھی شہر جاں کی دلداری کا باعث بنتے ہیں۔
مئی املتاس کے پھول کھلنے کا مہینہ ہے‘ اسی مہینے کی دوسری اتوارکو دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی مائوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہم جو اپنی ماں کی محبت کے صدقے جی رہے ہوتے ہیں‘ ایسا موقع کب جانے دیں گے ۔ ہر روز ماں سے پیار کا اظہارکرتے ہیں تو آج کے دن اور زیادہ کریں گے ۔ یہ ماں سے پیارکے اظہارکا دن مغرب سے درآمد شدہ ہے تو کیا ہوا ۔ محبت کے لیے کسی جوازکی کیا ضرورت ہے، اس لیے اگر اس دن مائوں کو تحائف دیے جاتے ہیں ، ننھے بچے مائوں کے لیے اپنے ہاتھوں سے مدرز ڈے کے کارڈ پینٹ کرتے ہیں تو یہ سب بہت اچھا لگتا ہے۔ اس میں خوب صورتی ہی کے پہلو اجاگر ہوتے ہیں،اس لیے اس پر نکتہ چینی کا کوئی پہلو نکالنے کی ضرورت کیا ہے؟ 
مائوں کے عالمی دن پر ہمیں ان مائوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جو غربت زدہ ہیں، جن کے پاس خاطر خواہ وسائل نہیں لیکن ان کی مامتا کا سمندراپنے بچوں کے لیے ٹھاٹھیں
مارتارہتا ہے۔ بچوں سے ایک غریب ماں کی محبت کی شدت شاید امیر مائوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے کہ امراء کی زندگی میں دلچسپی کی بے شمار چیزیں ہوتی ہیں مگرغریب مائوں کا مرکز و محور ان کی اولاد ہی ہوتی ہے۔میرے ملک میں ایسی مائوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ملک کی 40 فیصد آبادی انتہائی غربت میں جی رہی ہے‘ ان حالات میں زندگی گزارنے والی مائیں صبح سے شام تک محنت کرکے بھی اپنے بچوں کو اچھا کھانا‘اچھے کپڑے اور سکول کی کتابیں نہیں دلوا سکتیں۔ مہنگائی اتنی ہے کہ ماں کے پلو سے بندھے چند روپوں میں اتنی قوت خرید نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچے کوکوئی کھلونا ہی خرید کر دے سکے ۔کیا کوئی ان مائوں کا دکھ محسوس کرے گا ، ان کی بات سنے گا؟ انہی مائوں نے قطاروں میں کھڑے ہوکر ووٹ ڈالے تھے اور اس کے ساتھ یہ خواب بن لیا تھا کہ نئی حکومت آئے گی تو سب اچھا ہو جائے گا۔ نئی حکومت آئے سال ہو گیالیکن ان مائوں کے آنگنوں تک کسی تبدیلی کی نوید نہیں پہنچی۔ ہاں ڈار صاحب جو کچھ فرماتے ہیں اور جن کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں‘ وہ ان مائوں کو سمجھ نہیں آتیں۔انہیں کیا پتہ ڈالر کیا بلا ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں کمی سے ان کے بجھتے ہوئے چولہے پر تو کوئی اثر نہیں پڑا !
مائوں کے عالمی دن پر ‘ تھر کی بدقسمت مائیں بھی تو یاد آتی ہیں۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قحط نے جن کی گودیں اجاڑ دیں۔ وہ مائیں بھی جو لاغر اور بیمار بچوں کو گود میں لیے آسمانوں کی طرف خاموش نگاہوں سے تکتی ہیں یا پھر مٹھی کے ہسپتال میں جہاں نہ دوائیاں پوری ہیں نہ ڈاکٹر۔ یہ مائیں بانہوں میں جکڑے بیمار بچے کی لمبی عمر کے لیے دعائیں کرتے ہوئے سرکار کے بارے میں بھی تو سوچتی ہوں گی جن کو ووٹ دے کر انہوں نے اقتدار کی مسند پر بٹھایا مگر اب انہیں تھرکے ان باسیوں کی کوئی پروا نہیں۔ چند روز تو ٹی وی کیمروں کے سامنے خوراک کے پیکٹ تقسیم ہوتے رہے‘ اب یہ خبر پرانی ہو گئی ہے،انہیں اب اخبار میں جگہ ملے گی نہ ٹی وی کی خبروں میں حالانکہ وہاں بھوک، بیماری اوردوسرے مسائل کا عذاب جوں کا توں ہے۔ان سب مائوں کے دکھ بہت بڑے ہیں ، ایک لمحے کے لیے کوئی ان کادکھ محسوس کر کے تو دیکھے۔خوشحال طبقے کی ماں اپنے بچوں کے قدموں میں دنیا کی ہر خوشی‘ہر نعمت ڈھیرکر دیتی ہے،ادھراس سے کہیں زیادہ محبت رکھنے والی مامتا کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کا پیارا بچہ کبھی بھوکا نہ رہے‘کبھی بھوکا نہ سوئے۔ ماں ہونا اپنے وجود سے باہر نکل کر اپنی اولاد کے لیے چھتر چھائوں بننے کا نام ہے۔ ایک کم وسیلہ‘خالی جیب ،غربت زدہ ماں ناانصاف معاشرے میں‘مامتا کی تپش کو کیسے اپنی روح پر سہتی ہو گی:
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا
حکمرانوں کے ایجنڈے میں ان مائوں کے دکھ دور کرنے کا کوئی پروگرام موجود ہے یا نہیں مگر آپ مائوں کے عالمی دن پر ان مائوں کے بارے میں ضرور سوچیے کہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں