"SQC" (space) message & send to 7575

دشمن کو کامیابی سے شکست دیں

نام نہاد سیکولر بھارت کا نیا وزیر اعظم نریندر مودی ایک ہارڈ لائنر ہے ۔ایک انتہا پسند ہندو جس کا ماضی انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو ہندو ازم پر یقین رکھتی ہے۔ نریندر مودی مسلمانوں سے نفرت کا برملا اظہار کرتا ہے۔یہ محض الزام نہیں بلکہ سانحہ گجرات میں سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خاموش تماشائی بنااس جرم میں برابر کا شریک رہا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا کہ جسے اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے۔ ویسے بھی مودی نے اس پر آج تک معافی نہیں مانگی۔ بلکہ اس نے کئی بار کہا ہے کہ اسے اس پر پشیمانی نہیں اور اگر دوبارہ موقع ملا تو وہ پھر ایسا کرے گا۔ دراصل نریند ر مودی بھارت کی سرزمین پر اقلیتوں کے وجود سے نفرت کرتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ اس کی مخاصمت تو دنیا پر عیاں ہے‘گجرات کے سکھ بھی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ مودی نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں سکھوں کے خلاف تعصبانہ رویہ اختیار کیا اور وہاں سکھوں کی آباد کاری کی حوصلہ شکنی کی۔ گجرات سانحے کے حوالے سے جب ایک غیر ملکی اخبار نے مودی سے پوچھا کہ کیا اسے اس پر کوئی پچھتاوا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اتنے بڑے قتل عام کو نہ روک سکا۔اس پر مودی اپنے کئے پر ذرا سا بھی نادم دکھائی نہ دیا۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نریندر مودی کتنا شدت پسند ہے ۔ 
سوال یہ ہے کہ شائننگ انڈیا اور ایشیا جائنٹ (Asia Giant)کا خواب دیکھنے والے بھارتی عوام نے کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کے امیدوار انتہا پسند ہندو کا امیج رکھنے والے شخص کو ووٹ کیوں دیا؟اگلے پانچ برسوں کے لیے بھارت کا سب سے طاقتور عہدہ اسے کیوں دلایا؟کیا اس لیے کہ وہ اگلے پانچ سال انتہا پسندی اور اقلیتوں سے نفرت خصوصاً بھارتی مسلمانوں پر ظلم کا ایک نیا باب شروع کرے ؟ مودی بھارت کو طاقتور بناتا ہے یا پھر اقلیتوں کے خلاف مہم شروع کر کے بھارت کو مزید کمزور کرتا ہے،یہ سب آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا ۔
تبدیلی ایک بنیادی فیکٹر ہے جس کے لیے بھارت نے دس سال سے حکمرانی کرنے والی کانگریس کو شکست دی اور بی جے پی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اور دوسری بات جو انتہائی اہم ہے اور الیکشن میں نریندر مودی کی کامیابی کا سبب بنی ‘وہ ہے مودی کا پرو بزنس امیج۔
ایک ہارڈ لائنر ہونے کے ساتھ‘یہ بھی مودی کی شخصیت کا اہم پہلو ہے۔اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں جس طرح مودی نے گجرات میں صنعت کے فروغ اور کاروبار کے لیے حالات کو ساز گار بنایا، نئی صنعتیں لگانے کے عمل کو آسان تر بنانے کے لیے ون ونڈو سسٹم قائم کیا ،کرپشن کا راستہ روکنے کے ہر ممکن اقدامات کئے، نئے روزگار پیدا کئے اور مسلسل پھلتی پھولتی معیشت کے خوابوں کو تعبیر عطا کی‘اس نے مودی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات چاہئیں۔ وہ اپنے مسائل فوری حل کرنے کے طالب ہیں ۔ انہیں مودی کی شکل میں ایک بہترین معیشت دان دکھائی دیا جو کامیاب ہو کر گجرات کی طرح پورے بھارت کی معیشت کو بہتر بنا دے گا۔ اگر واقعتاً ایسا ہو جاتا ہے تو پھر بھارت میں آئندہ بھی مودی کا ووٹ پکا ہو جائے گا۔
بھارت کا اس وقت خواب یہ ہے کہ مضبوط معیشت کے ذریعے جنوبی ایشیائی خطے میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرے ۔عالمی منظر نامے پر کسی بھی ملک کی اہمیت اور اثرو رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس کی حیثیت کتنی مضبوط ہے۔اس کا زرمبادلہ کتنا زیادہ ہے۔ اس کی برآمدات کتنی ہیں۔ فارن ریزرو کتنے ہیں۔ اس ملک میں امن و امان کی صورتحال کیسی ہے۔ سرمایہ کاری کے کیا مواقع ہیں۔ بھارت معاشی میدان میں آگے نکلنا چاہتا ہے اور یہی چیز مودی کی کامیابی کا باعث بنی۔یہ فیکٹر اس وقت دنیا بھر میں کامیابی کی ضمانت مانا جاتا ہے۔ یہ بات اب حقیقت بن چکی ہے کہ اسلحہ کے لحاظ سے طاقتور ممالک آپس میں روایتی جنگ نہیں لڑیں گے ۔ بلکہ اب ہر جنگ معاشی محاذ پر لڑی جائے گی۔ درحقیقت ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ملک سب سے آگے ہو گا‘ وہی معاشی میدان بھی بھی سب سے آگے ہو گا اور جو معاشی میدان میں فاتح ہو گا‘ دنیا پر بھی وہی راج کرے گا۔ گجرات کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مودی ایک صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتا ہے تو پورے ملک کو بھی ترقی یافتہ بنا سکتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ مستحکم اور مضبوط معاشی بنیادیں رکھنے والا ملک ہی اپنی شرائط پر دوسرے ملکوں سے تعلقات استوار کر سکتا ہے۔نریندر مودی کی شکل میں بھارتی عوام نے ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم چنا ہے جو اس خواب کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس وقت جب بھارت کی دیگر ریاستیں پانی‘بجلی اور گیس کے بحران کا شکار تھیں،توانائی کا بحران کارخانوں کی کارکردگی پر بری طرح اثر انداز ہو رہا تھا ‘نریندر نے گجرات میں پانی ‘بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا۔یہ پہلا قدم تھا جس نے گجرات کو کارخانہ داروں کے لیے پسندیدہ ریاست کا درجہ دیا۔بھارت کے عالمی شہرت یافتہ کاروباری گروپ ٹاٹا انڈسٹریز نے سستی کاروں کا پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا۔لیکن توانائی کا بحران اور نئے کاروبار کے لیے فضا ناہموار دیکھ کر گجرات کا رخ کیا جہاں 18ماہ کی مدت میں پلانٹ کو چالو کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا۔اسی طرح ریل کار کی مینو فیکچرنگ کے لیے بھارت کی ایک اور بڑی صنعت‘گلوبل ریل جائنٹ نے اپنے عظیم الشان منصوبے کے لیے گجرات کا انتخاب کیا۔صرف ان دو بڑی نئی صنعتوں کے ساتھ گجرات میں روزگار کے کتنے ہی مواقع پیدا ہوئے۔ بارہ سال تک گجرات پر حکمرانی کے دوران
مودی نے چین کے تین دورے کیے اور چین کے ساتھ سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کئے۔ بھارت کی سب سے بڑی آئل ریفائنری گجرات میں قائم ہے۔اس کے علاوہ کئی آٹو موبائل‘ فارما سوٹیکل انڈسٹریزیہاں موجود ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بھی ریاست گجرات میں واقع ہے۔
کانگریس کے 10سالہ دور اقتدار میں بھارت کی معیشت سست روی کا شکار ہوئی ۔ بے روزگار ی کا تناسب 26%تک جا پہنچا ۔ ایسے کئی مسائل بھارتی معیشت کے لیے چیلنج بنے۔ اگلے پانچ برسوں میں بھارت 50ملین نئی نوکریاں پیدا کرنے کاٹارگٹ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایسی ہی لیڈرشپ کا خواہاں تھا جو یہاں کاروبار کوبڑھاوا دے، صنعتوں کو فروغ دے اور نئے روزگار پیدا کرے۔نریندر مودی کا انتخاب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وگرنہ ہندو ایک انتہا پسند ہندو ہی ہوتا ہے۔ظلم تو کانگریس کے دور میں بھی بہت ہوئے۔ہماری بلائنڈ کرکٹ ٹیم بھارت گئی تو کھلاڑیوں کو تیزاب پلا دیا گیا۔ہندو انتہا پسندوں کی اتنی شرمناک حرکت پر کانگریس حکومت کے کسی ذمہ دار نے معذرت نہیں کی۔سو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اصل جنگ اکانومی کے محاذ پر ہو گی۔ پاک بھارت تعلقات کی اصل شکل اب کیا ہو گی‘کئی طرح کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایک مضبوط دشمن کی موجودگی بعض اوقات غفلت میں پڑی قوموں کو جگا دیتی ہے۔ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں اپنی جگہ مگر اب ہمیں بھی مضبوط اکانومی اور مستحکم پاکستان کے خواب کو پورا کر کے دشمن کو شکست دینی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں