پنجابی زبان کی پردھان لکھاری امرتا پریتم اپنی سوانح حیات، ''رسیدی ٹکٹ‘‘ کے پہلے باب میں لکھتی ہیں ''میں دیکھتی تھی‘ باورچی خانے کی ایک پڑچھتی پر تین گلاس‘ باقی برتنوں سے الگ تھلگ‘ ہمیشہ ایک کونے میں پڑے رہتے تھے۔ یہ گلاس صرف اس موقع پر زیریں چھت سے اتارے جاتے تھے‘ جب والد کے مسلمان دوست آتے اور ان کو چائے‘ لسی پلانا ہوتی۔ اور اس کے بعد مانجھ دھو کر وہیں رکھ دیئے جاتے تھے‘‘۔
صرف اس ایک مختصر سے پیراگراف کو پڑھ کر‘ یہ جھلک ضرور مل جاتی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں اگرچہ ہندو اور مسلمان صدیوں سے اکٹھے تھے‘ میل ملاقات بھی تھی مگر اس سانجھی زندگی میں نفرت کی ایک لکیر ضرور درمیان میں موجود تھی۔ نفرت کی وہ لکیر آج بھی موجود ہے۔ اس خطے میں بسنے والے ڈیڑھ ارب انسان شکل و صورت میں ایک جیسے ہیں‘ ایک ہی جیسے خدوخال اور دلوں میں بسنے والی خواہشیں اور آنکھوں میں اترنے والے خواب بھی‘ ایک ہی جیسے‘ مگر پھر ایسا کیا ہے کہ برسوں ساتھ رہنے کے باوجود ہمیں تقسیم ہونا پڑا۔ ہجرت کے درد سے گزرنا پڑا۔
یہی امرتا پریتم تھیں‘ گوجرانوالہ جس کی جنم بھومی تھی۔ لاہور سے جسے عشق تھا مگر پھر تقسیم کے وقت اسے سب کچھ چھوڑ کر دلی میں بسنا پڑا۔ امرتا پریتم‘ پاکستان کی ممتاز ادیبہ‘ افضل توصیف سے کہا کرتی تھیں کہ تم ہجرت کے رشتے سے میری بہن ہو‘ کہ افضل توصیف کو ضلع ہوشیار پور کے گائوں سمبلی سے ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا۔ اپنے جان سے پیارے رشتوں کو وہاں ان لوگوں کے ہاتھوں خون میں نہاتے دیکھا‘ جو برسوں ان کے باپ دادا کی دہلیز کے وفادار رہے تھے۔ (اس وقت) کم سن افضل توصیف نے اپنی تائے‘ چاچے کی بیٹیوں کو اپنی عزت بچاتے ہوئے‘ گھر کے کنویں میں چھلانگ لگاتے خود دیکھا تھا۔ یہ کنواں آج بھی سمبلی گائوں میں موجود ہے۔ اور کتنی ہی دلگداز کہانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ صدیوں ساتھ رہنے والوں کے درمیاں نفرت آتش فشاں کے لاوے کی طرح پل رہی تھی۔ اور یہ لاوا تقسیم کے وقت درد اور دکھ کی کئی کہانیاں تحریر کر گیا۔
نفرت کا یہ آتش فشاں اگر ٹھنڈا ہو گیا ہوتا تو شاید 2002ء میں ریاست گجرات میں بسنے والے‘ مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام نہ ہوتا۔ اعلیٰ منتظم ہونے کی شہرت رکھنے والے گجرات کے وزیراعلیٰ مودی نے بے بسی کی اداکاری کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کے اس قتل عام کی درحقیقت سرپرستی کی اور اگر نفرت کا یہ آتش فشاں ٹھنڈا ہو گیا ہوتا تو سینکڑوں نہتے مسلمانوں کے قتل پر سیکولر بھارت کا قانون خاموش نہ رہتا۔
لہو کی یہ لکیر ایک حقیقت ہے‘ جس نے اس خطے میں چار جنگوں کی آگ بھڑکائی۔ امن کے سارے معاہدے‘ ڈیکلریشن‘ اعلامیے سبوتاژ کرنے میں‘ نفرت کا یہ آتش فشاں آج بھی مصروف عمل ہے۔ چار جنگیں تو تاریخ وار اس کہانی کا حصہ بن چکی ہیں‘ 1947ء‘ 1965ء‘ 1971ء اور 1999ء۔ مگر اب تو ایک غیر اعلان شدہ جنگ اس خطے میں ہر وقت جاری رہتی ہے۔
لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں ہمیشہ سرحد کے اُس پار سے ہوتی ہیں۔ فرائض کی انجام دہی میں‘ فوجی جوان شہادت کا رتبہ پاتے ہیں مگر ان معصوم نہتے شہریوں کا مقدمہ کون سنتا ہے جو بدقسمتی سے لائن آف کنٹرول کے قریب کے گائوں میں اپنے گھر بسائے بیٹھے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو الگ کرنے والی لائن آف کنٹرول کو ایک بار سابق امریکی صدر کلنٹن نے دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ قرار دیا تھا کیونکہ یہاں بسنے والے لوگ مسلسل ایک خوف اور جنگ کی حالت میں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے برس بعض 2013ء میں بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ سے‘ لائن آف کنٹرول سے 500 کلو میٹر دور واقع ایک گائوں میں 14 سال کا لڑکا اور 8 ماہ کا شیرخوار بچہ شہید ہو گئے تھے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرکریک‘ سیاچن اور پانی کے ایشو کے علاوہ کشمیر کا بنیادی اور اہم ایشو موجود ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بار بار خلاف ورزیاں کیں۔ آج بھی آٹھ لاکھ بھارتی فوجی کشمیر کی حسین وادی میں موجود ہیں۔ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں آئے دن خبروں کا حصہ بنتی ہیں۔
پاکستان نے امن کے لیے ہمیشہ ہاتھ بڑھایا جبکہ بھارت نے اپنی ہر کوشش سے امن کو زک پہنچائی۔ بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوت موجود ہیں۔ ادھر بھارت ہر دہشت گردانہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دلی میں پاکستان سے آئے ہوئے مہمان وزیراعظم نوازشریف کو حلف برداری کی تقریب میں بھی یہ باور کرانا نہیں بھولتا کہ خطے میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار آپ ہی ہیں۔ میزبانی کے اخلاقی تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ مہمان وزیراعظم کے ہاتھ میں ایک چارج شیٹ تھما دی جاتی ہے۔ اور مودی ایسا کیوں نہ کرتے کہ بھارتی عوام ان سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ مودی کی تو تمام تر انتخابی مہم ہی پاکستان دشمنی پر مبنی تھی۔ بھارتی اپنے ماضی کو نہیں بھولتے۔ وہ اپنی روایات کو نہیں بھولتے۔ یہ ہم ہیں جو اپنے زخموں اور تاریخ کو بھول کر بھارت سے دوستی کے خواہاں ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کا رشتہ ایک خام خیال ہے۔ ہاں مگر امن کے لیے کوششیں ضرور سراہی جانی چاہئیں اور ان کوششوں میں کوئی تعطل نہیں آنا چاہیے۔
محسن نقوی نے شاید ایسے ہی رنجشوں‘ نفرتوں اور کشمکش سے بوجھل رشتوں کے لیے یہ خوبصورت اور حقیقت پسندانہ شعر کہا ؎
جو دوستی نہیں ممکن تو پھر یہ عہد کریں
کہ دشمنی میں بہت دور تک نہ جائیں گے
پاکستان کے وقار اور قومی سلامتی کی حفاظت کرتے ہوئے ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں‘ مگر اپنی تاریخ کو بھلا کر اور لہو کی لکیر کو فراموش کر کے ان کی شرائط پر دوستی کرنے والے حکمران‘ لاکھوں کشمیریوں کی اس آواز پر کان دھریں جن کے دل زرد پتے کی طرح کانپتے ہوئے التجا کرتے ہیں:
I have spread my dreams under your feet;
Tread softly, because you tread on my dreams.