یہ خط کانگرس کی نوجوان رہنما پریانکا گاندھی نے سپیشل پروٹیکشن گروپ کو لکھا۔ ایس پی جی یعنی سپیشل پروٹیکشن گروپ بھارت میں وزیراعظم ، وزراء اور اہم شخصیات کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے۔
پریانکا گاندھی کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کی بیٹی، اندرا گاندھی کی پوتی اور بھارت کے مہان لیڈر جواہر لال نہرو کی پڑپوتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے خاندان کو بھارت میں حفاظتی مراعات (Security Privileges) حاصل ہیں۔ خاندان میں ان کے شوہر مسٹر رابرٹ ودرا (Robert Vadra)اور پریانکا کے بچے بھی شامل ہیں۔
ادھر نریندر مودی کی کابینہ میں سول ایوی ایشن کے نئے وزیر مسٹر اشوک گجاپتی راجو نے وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہی عندیہ دیا کہ وزارت پر سکیورٹی مراعات کے حوالے سے پڑنے والا اضافی بوجھ ختم کیاجائے۔ جن افراد کی سکیورٹی مراعات ختم کرنے کی فہرست تیار کی جارہی تھی، ان میں کانگرس کی صدرسونیا گاندھی کے داماد اور پریانکا گاندھی کے شوہر مسٹر رابرٹ ودرا بھی مبینہ طور پر شامل تھے۔ اس سے پہلے کہ وزیر موصوف کی طرف سے یہ حکم نامہ آتا پریانکا گاندھی نے ایس پی جی کے ڈائریکٹر کو خط لکھا کہ ائیرپورٹ پر دوران سفر مجھے اور میرے خاندان کو سکیورٹی چیکس سے جو استثنیٰ حاصل ہے، اسے ختم کیاجائے۔ جب ہم بطور خاندان سفر کررہے ہوں تو ہمیں عوامی چینلز سے آنے جانے کی آزادی دے دی جائے۔ اس خط میں پریانکا گاندھی نے مزید لکھا کہ ان کے شوہر رابرٹ ودرا کو یہ حفاظتی مراعات اس وقت حاصل ہوتی ہیں جب وہ گاندھی خاندان کے ساتھ سفر کرتے ہیں وگرنہ تنہا سفر کرتے ہوئے وہ ایک عام بھارتی شہری کی حیثیت سے تمام سکیورٹی چیکس سے گزرتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہوتی اور یہ کہ ان کے شوہر بہت عرصہ سے یہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے سکیورٹی چیکس پر استثنیٰ ختم کیاجائے تاکہ وہ عام بھارتی کی طرح سفر کرسکیں۔
اب ذرا اس سوچ کے مقابل اپنے حکمران طبقے کی نہ ختم ہونے والی خواہشات (جسے ہوس کہنا مناسب ہوگا) ملاحظہ کریں۔ گزشتہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کی گورنمنٹ نے عوامی مسائل سے پہلوتہی کی شاندار مثالیں قائم کیں لیکن قومی خزانے کی لوٹ مار کا پروگرام پوری تندہی سے جاری رکھا۔ حج سکینڈل سے لے کر ایفی ڈرین کیس تک۔ کرپشن اور لوٹ مار کی ایسی ایسی کہانیاں رقم کیں کہ خدا کی پناہ۔ مگر اسی حکومت کے وزیراعظم جنہیں قسمت کے ایک پھیرنے مملکت خداداد پاکستان کا حکمران بنادیا نے کیا کیا؟ جی ہاں نو ماہ تک وزیراعظم رہنے والے راجہ پرویز اشرف حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے ایک روز پہلے ایک ایسا حکم نامہ جاری کرگئے جس کی رو سے ہر سابق وزیراعظم ، سابق صدر ، سابق سپیکر ، سابق ڈپٹی سپیکر اور سابق وفاقی وزراء کو اپنی تنخواہوں اور الائونسز کا 17فیصد ہر ماہ مراعات کی مد میں ملے گا۔ اس کے علاوہ لائف ٹائم سکیورٹی کور اور پروٹوکول ملے گا۔سفر کے دوران ملک کے اندر ، ائیرپورٹس پر ہر طرح کے سکیورٹی چیک سے استثنیٰ کی سہولت حاصل ہوگی۔ سابق وزراء اعظم اور سابق صدور کے لیے مراعات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سے چند یہ بھی ہیں کہ ملک کی خدمت کرنے والے ان سابق حکمرانوں کو حکومت کی طر ف سے 17ویں گریڈ کا ایک پرائیویٹ سیکرٹری رکھنے کی اجازت ہوگی۔ لینڈ لائن فون اور موبائل فون کا ایک ایک سرکاری کنکشن ملے گا ، جس کا 10ہزار تک کا بل بھی سرکار ادا کرے گی۔ راجہ صاحب تو قسمت کے دھنی تھے ۔ قسمت نے وزیراعظم کی کرسی پر بٹھایا تو انہوں نے بھی نو ماہ '' قوم کی خدمت‘‘ کے عوض اپنے اور اپنے خاندان کے لیے پوری
زندگی کا سرکاری وظیفہ جاری کروالیا۔ راجہ صاحب نے یہ سب کیا تو سائیں قائم علی شاہ پیچھے کیوں رہتے۔ سندھ اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے ایک روز قبل مارچ 2013ء کو سندھ اسمبلی میں ایک نہیں بلکہ دو پرائیویٹ بل پاس ہوئے ۔جسے تمام ارکان کی سپورٹ حاصل ہوئی ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ یہ دو بل آخر کس حوالے سے تھے۔ کیا ان میں سندھ کے عوام کی بہبود کا کوئی منصوبہ ہے یا پھر سندھ کے پہلو میں بستے شہر قحط کے باسیوں اہل تھر کے لیے زندگی کی کوئی امید، پانی کے کسی منصوبے کی نوید،... مگر نہیں صاحب ایسا نہیں تھا، سائیں قائم علی شاہ کی زیر سرپرستی سندھ اسمبلی نے جو جو پرائیویٹ بل پاس کیے وہ ایک روز بعد ''سابق‘‘ ہو جانے والے وزیراعلیٰ ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور تمام ارکان اسمبلی کی شاندار قومی خدمات کے عوض سرکار کے خزانے سے لائف ٹائم مراعات کا تحفہ تھا، جس کی رو سے حفظ مراتب کے لحاظ سے سب کو سابق ہوجانے کے بعد بھی تمام عمر سرکاری خزانے سے استفادہ کرنے کا حق ہوگا۔ سکیورٹی ، الائونسز، مراعات کے علاوہ اس بل میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام سابق ارکان سندھ اسمبلی کو ہر طرح کے سرکاری ریسٹ ہائوسز، سرکاری گیسٹ ہائوسز، سندھ ہائوس اسلام آباد میں قیام اور طعام کی
اعلیٰ سہولتیں ، سرکار کے خرچ پر حاصل ہوں گی۔سابق ہونے والے ان ''قومی خدمت گاروں‘‘ کی فہرست بھی اب مختصر نہیں رہی، سو ان کی خدمات کے عوض آج بھی جو تاوان ہمیں مراعات کی صورت ادا کرنا پڑتا ہے وہ عوام اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ سابق خدمت گاروں کی یہ فوج ظفر موج کسی پیراسائٹ کی طرح قومی خزانے کا لہو چاٹ رہی ہے اور سرکاری خزانے پر عیش کرنے والے یہ لوگ دولت مند اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی جاگیروں ، کارخانوں سے کروڑوں ، اربوں کمانے کے باوجود سرکار کے پیسے پر عیش کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
پریانکا گاندھی بھارت کے ایک عظیم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود نئی حکومت اضافی بوجھ کم کرنے کے لیے ان کی سکیورٹی مراعات میں کمی کرنے کا سوچ رہی ہے۔ تو یہاں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا!اگر پریانکا گاندھی کی طرح ہمارے سابق حکمران خود اس بات کا احساس نہیں کرتے تو ایک کھلا خط ہمیں بھی حکومت کے نام لکھ دینا چاہیے۔ کیونکہ ان کی مراعات، سکیورٹی کور، پروٹوکول اور الائونسز کی مد میں قومی خزانے کا کروڑوں روپیہ برباد ہورہا ہے اور اس کا بوجھ میری اور آپ کی جیب برداشت کرتی ہے! مشکل معاشی صورت حال میں قومی خزانے کی ایک ایک پائی بچانے کی ضرورت ہے تاکہ پیسے عوام کی بھلائی کے منصوبوں پر خرچ ہوسکیں اور اس کے لیے ایسے پیرا سائیٹس (Paracites)سے نجات ضروری ہے۔