عمران خان کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ اب احتجاجی سیاست ہی کرتے رہیں گے یا پھر اپنے صوبے کے مسائل پر بھی کچھ توجہ دیں گے۔ ان دنوں تو وہ احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کی ایک سیریز کرنے میں مصروف ہیں۔ پہلا جلسہ اسلام آباد‘ پھر فیصل آباد اور اب تازہ ترین جلسہ سیالکوٹ میں منعقد کیا۔ تمام جلسے خاصے بڑے تھے۔ ان کے سپورٹرز کی بڑی تعداد شدید گرمی کے باوجود شریک ہوتی رہی۔ عمران خان نے جو مہم الیکشن سے پہلے چلائی‘ وہی جذبہ ان کے سپورٹرز میں آج بھی نظر آتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پورا ایک سال گزرنے کے باوجود نیا پاکستان بنانے کے لیے ابھی بھی ان کے لبوں پر وہی نغمے‘ وہی نعرے ہیں۔ پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کو نئے ٹرینڈز دیئے۔ پہلی بار ان جلسوں میں گلوکاروں نے آ کر ملی نغمے گائے اورماحول کو گرمایا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ن لیگ نے بھی کچھ اثر لیا اور اپنے جلسوں میں ایک تو نوجوانوں کا تذکرہ بڑھایا‘ دوسرا پی ٹی آئی کو فالو کرتے ہوئے ملی نغمے گانے کے لیے مشہور گلوکاروں کو اپنے انتخابی جلسوں میں بلوایا اور جلسوں کو نوجوانوں کے لیے پرکشش بنانے کی خاطر خواہ کوششیں کی گئیں۔ انتخابات میں ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کی سخت سیاسی حریف بن کر میدان میں اتریں۔ اس کے بعد کی کہانی تو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کہانی میں پینتیس پنکچر لگائے جانے کا انکشاف بھرا باب چند ماہ کی تاخیر سے منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد سے ہی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر عمران خان اور تحریک انصاف کے احتجاج میں شدت نمایاں ہوئی۔ پہلے احتجاجی جلسے کا انعقاد 11 مئی 2014ء کو کیا گیا جب مسلم لیگ ن اپنی حکومت کی پہلی سالگرہ منا رہی تھی۔ یوں الیکشن کی شفافیت پر آواز اٹھا کر اور باقاعدہ دارالحکومت میں ایک احتجاجی جلسہ منعقد کر کے پی ٹی آئی نے اپنی طرف سے نواز حکومت کی پہلی سالگرہ کی خوشیوں کا مزا اچھا خاصا کرکرا کردیا۔ الیکشن میں دھاندلی یقینا ہوئی اور پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن میں کئی طرح کی رِگنگ ہوتی رہی ہے۔ ماضی میں بھی ہر الیکشن پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ انتخابات کے طریقہ کار کو فول پروف کرنے اور بہتری کی اصلاحات متعارف کروانے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے اور قوانین بنانے اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ منتخب جمہوری حکمرانوں سے لے کر ڈکٹیٹروں تک کبھی کسی نے الیکشن کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے مخلصانہ اقدامات نہیں کیے‘ کبھی کوئی قانون سازی اس حوالے سے نہیں ہوئی۔ اگر کچھ ہوا بھی تو اتنا سطحی تھا جس سے پورے پراسیس پر کوئی فرق نہیں پڑا اور پھر الیکشن میں دھاندلی صرف پولنگ بوتھ اور بیلٹ پیپر ہی کے ذریعے نہیں ہوتی بلکہ الیکشن سے پہلے‘ انتظامی سیٹ اپ میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں‘ انتظامی افسران کے تبادلے‘ من پسند ڈی سی اوز‘ ڈی ایس پیز‘ ایس پیز کی تقرریاںبھی اس کا حصہ ہوتی ہیں... کیا یہ سب الیکشن سے پہلے ہونے والی دھاندلی کے مظاہر نہیں ہیں اور کیا اس سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ صوبائی ڈویژن اور پھر ضلعی سطح پر یہ سب اکھاڑ پچھاڑ‘ تقرریاں اور تبادلے‘ کس مقصد کے حصول کے لیے کروائے جا رہے ہیں؟ یہ سب تو خیر ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور شاید ہوتا ہی رہے گا جب تک ایسا الیکشن کمیشن قائم نہیں ہوتا جو حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار ہو۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن‘ اشتیاق احمد نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ 2018ء کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن میں اصلاحات کی خاطر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے‘ یہ کمیٹی سو سے زیادہ انتخابی اصلاحات پر غورو خوض کر رہی ہے۔ دو اہم باتیں اور اصلاحات یہ ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بائیو میٹرک سسٹم متعارف کروایا جائے گا۔ ایسی تمام انتخابی اصلاحات اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک ہماری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق نہیں ہو جاتیں کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہی اصل جمہوری راستہ ہیں۔ بظاہر جمہوریت کے نعرے لگانے والی یہ سیاسی جماعتیں‘ کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں گی۔ یہ ایسے کسی انتخابی عمل کی حمایت نہیں کریں گی جس میں ان کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے سے قاصر ہوجائیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا یہی کلچر ہے۔ دھونس‘ دھاندلی اور روپے پیسے کے بے دریغ ا ستعمال سے الیکشن کے عمل کو متاثر کیا جاتا ہے۔ بات نوٹ دے کر ووٹ خریدنے کی ہو یا پھر بریف کیس کلچر کی‘ جس میں دوسری سیاسی جماعتوں کے اراکین کو با آسانی خریدا جا سکتا ہے‘ الیکشن کے عمل پر کبھی بھی کسی کو سو فیصد اعتماد نہیں رہا۔ شاید اسی وجہ سے پڑھے لکھے‘ باشعور لوگ‘ الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے گریز کرتے رہے ہیں مگر
2013ء کے الیکشن میں ایسے تمام افراد جو ووٹ ڈالنے کو ایک بے کار کی ایکسر سائز سمجھتے تھے‘ گھروں سے باہر نکلے اور انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اس نئی تبدیلی میں ایک اہم کردار تحریک انصاف کا ہے جس کو نہ سراہا جانا ناانصافی ہوگی۔ تحریک انصاف ہی کے سیاسی جلسوں میں پڑھے لکھے باشعور لوگ اپنے پورے پورے خاندان کے ساتھ شریک ہوئے۔ بیرون ملک سے بھی پاکستانی خاص طور پر ووٹ کاسٹ کرنے ایک دن کے لیے وطن آئے اور یہ بھی یقینا پی ٹی آئی کے سپورٹرز تھے۔
الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر احتجاج یقینا پی ٹی آئی‘ عمران خان کا جمہوری حق ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عوام اس وقت احتجاج کی کسی بھی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ احتجاجی سیاست کو عوام میں اس وقت کوئی پذیرائی نہیں مل رہی۔ ایک حکومت بنی ہے۔ اسے کام کرنے دینا چاہیے اور سیاست سے بالاتر ہو کر ملک کے لیے سوچنا چاہیے۔ اگر نواز حکومت بجلی کی پیداوار کے نئے منصوبوں پر عمل کرتی ہے تو اپوزیشن کو بھی اس کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ اگر نواز حکومت مہنگائی میں اضافہ کرتی ہے‘ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو اس پر احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ یقین کریں کہ اس احتجاج میں عوام بھی ان کا ساتھ دیں گے لیکن خدارا جو اچھا کام ہو رہا ہے اسے تو ہونے دیں۔ عمران خان خیبر پی کے میں اپنی حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ بدقسمتی سے خیبر پی کے دہشت گردی کے عذاب میں گرفتار‘ ایک پسماندہ صوبہ ہے اور ایک سروے کے مطابق اسے ایشیاء کے پسماندہ ترین علاقے کا درجہ حاصل ہے۔ عمران خان دیکھیں کہ اس وقت پولیو کے سب سے زیادہ کیسز فاٹا‘ وزیرستان سے سامنے آئے ہیں۔ بموں سے آج بھی وہاں بچوں کے سکولوں کو اڑا دیا جاتا ہے۔ افغانستان سے دہشت گردوں کا اس صوبے میں آنا جانا کوئی نئی بات نہیں۔ آج ہی کی خبر ہے کہ پشاور کے ایک بازار سے ایک ٹارگٹ کلر کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بارود اور کئی قسم کے بم اس سے برآمد ہوئے۔ یہ ٹارگٹ کلر افغان شہری ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی کو سب سے مشکل صوبے میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے (اس کا اعتراف عمران خان خود بھی کر چکے ہیں) تو یقینا اس کے پیچھے بھی کوئی حکمت ہوگی۔ اگر عمران خان کی نیت اس ملک کے لیے سچی ہے تو خیبر پی کے‘ کی حکومت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے عمران خان کے لیے بڑا امتحان رکھا ہے۔ اس صوبے میں قدم قدم پر مسائل کے مائونٹ ایورسٹ ہیں۔ جس نئے پاکستان کا خاکہ عمران خان کے ذہن میں موجود ہے‘ اس کو اس صوبے میں تعبیر کے روپ میں ڈھالیں‘ یہاں نئی پالیسیاں بنائیں‘ کرپشن کا خاتمہ کریں‘ ایسی قانون سازی کریں جس سے نظام میں موجود خرابیاں دور ہوں‘ صحت اور تعلیم گھر گھر پہنچائیں‘ یہاں عدالتوں میں ایسا نظام قائم کریں کہ لوگوں کو انصاف ملے‘ غربت میں پستے ہوئے لوگوں کی بہبود کے اقدامات کریں، جو لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرتے ہیں‘ ایسے جہالت زدہ بند ذہنوں کو شعور دینے کے لیے مہم کا آغاز کریں۔ اگر انہوں نے آج اپنے صوبے میں لوگوں کے مسائل کے حل پر توجہ نہ دی اور صرف احتجاجی سیاست کرتے رہے تو کل کو شاید ان کے حصے میں ایک صوبہ بھی نہ آئے! سوچ لیں خان صاحب!