گل بانو کی عمر دس سال ہے۔ سرخ و سفید رنگت اورمعصوم سے خدوخال والی یہ بچی گھر بھر کی لاڈلی ہے۔ گھر میں غربت کے باوجود محبت کی فراوانی ہے۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی گل بانو گھر کے ہر فرد کا پیار سمیٹتی ہے۔ وہ شمالی وزیرستان کے ایک گائوں کی رہائشی ہے۔ یہاں اس کا باپ رحیم خان محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے،پھر بھی جس طرح کے حالات و واقعات اس کی ننھی سی زندگی میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں‘ اس سے وہ اندازہ کر سکتی ہے کہ ان کے گائوں میں حالات اچھے نہیں ہیں اور گائوں سے باہر بھی کچھ ظالم لوگ معصوم لوگوں کی جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ گل بانو کا سب سے بڑا بھائی شیر خان‘ کچھ عرصہ پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ پشاور فلم دیکھنے گیا تھا۔ وہاں سینما میں خودکش بمبار گھس آیا۔ زوردار دھماکہ ہوا اور اس کا شیر جوان جیسا ''لالہ‘‘ اس سانحہ میں مارا گیا۔ اس روز سے گل بانو کی ماں بہت اداس رہتی ہے اور اس کی دادی اپنے جوان پوتے کی موت کی خبر برداشت نہ کر سکی اور خود عدم کے سفر پر چلی گئی۔ گل بانو دیکھتی ہے کہ لالہ کی موت کے بعد اس کے بابا کا چہرہ بجھ سا گیا کیونکہ لالہ‘ بابا کے ساتھ کام کرتا تھا اور اس کا سہارا تھا۔ گل بانو کو بھی اپنا بھائی بہت یاد آتا ہے۔ وہ اسے اپنے کندھوں پر سیر کرواتا تھا اور لالہ کے کہنے پر ہی ماں نے گل بانو کو بھی سکول داخل کروایا تھا لیکن پھر انہی ظالموں نے گل بانو کے سکول کو بارود سے اڑا دیا۔ ایسا ہی حادثہ اس کے بھائیوں کے سکول میں بھی پیش آیا۔
یہاں سارا گائوں پریشان تھا کہ وہ اپنے بچوں کو کیسے سکول بھیجیں۔ سکولوں کو بارود سے اڑا دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں گل بانو کی ماں نے اپنے بچوں کو بھی سکول بھیجنا چھوڑ دیا۔ اب سارا دن وہ گڑیوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔ اس کی ماں نے کپڑے اور روئی سے گڑیاں اس کو گھر پر ہی بنا کر دی ہیں۔ گل بانو‘ ان گڑیوں سے باتیں کرتی ہے جیسے یہ اس کی سہیلیاں ہوں۔
''گل بانو نے ایک دن اپنی گڑیا سے باتیں کرتے کرتے اسے بتایا کہ تمہیں پتہ ہے‘ ماں کہتی ہے یہاں جنگ لگ چکی ہے اور اب ہمیں اپنے گھر کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا ہوگا۔ پیاری گڑیا تم دعا کرو کہ جنگ ٹھیک ہو جائے اور ہم اپنے گھر کو چھوڑ کر کہیں نہ جائیں‘‘۔ گل بانو دعائیں کرتی رہی لیکن وہ وقت آ گیا جب انہیں بھی اپنے گائوں کے سینکڑوں لوگوں کی طرح اپنے گھروں سے نکلنا پڑا۔ گل بانو کے بابا بہت فخر سے بتاتے تھے کہ پاکستان کے فوجی بہادری کے ساتھ دشمنوں سے لڑ رہے ہیں۔ ایک روز انشاء اللہ یہ علاقہ‘ ایسے دشمنوں سے پاک ہو جائے گا۔ پھر جب گھر چھوڑتے وقت ماں بہت رونے لگی تو بابا نے اسے سمجھایا کہ یہ رونے کا نہیں دعا کا وقت ہے۔ دعا کرو کہ خدا ہماری افواج کو کامیابی عطا کرے۔وہ ہمارے امن اور سکون کی خاطر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم تو اپنی جان بچا کر جا رہے ہیں۔ صرف اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑ رہا ہے تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔ اللہ خیر کرے گا ہم ایک روز واپس اپنے گھروں کو آئیں گے۔ بابا نے ماں کو سمجھایا تو ماں کے آنسو تھمنے لگے۔ اب اس کا دل بہادر فوجیوں کی کامیابی کے لیے دعا گو تھا۔ اپنے گھر کو چھوڑنے کا غم ہلکا لگ رہا تھا۔
جنگ کی وجہ سے اس علاقے میں کرفیو تھا۔ لوگوں کے باہر نکلنے پر پابندی تھی۔ اب فوج کی طرف سے تین دن کرفیو میں نرمی کی گئی اور انہی دنوں میں گل بانو نے اپنے بابا‘ ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ گھر کا کچھ سامان باندھا اور اپنے گائوں سے ہجرت کی۔ ان کے ساتھ گائوں کے کئی اور خاندان تھے۔ گٹھڑیوں میں ضروری سامان باندھے‘ چارپائیاں سر پر اٹھائے‘ وہ لوگ گائوں سے نکلے تاکہ کوئی ٹرانسپورٹ مل سکے۔ اپنے وطن میں ہجرت کرنے والی دس سالہ گل بانو نے سامان میں اپنی گڑیا اٹھا رکھی تھی۔ اسے بھی اپنے گھر کو چھوڑنے کا دکھ تھا۔ اس کا ننھا سا دل بے حد اداس تھا مگر اسے بابا نے سمجھایا تھا کہ جب دشمن مارا جائے گا‘ جنگ ختم ہو جائے گی تو ہم اپنے گھر کو واپس آ جائیں گے۔ پھر کوئی اس کا سکول بارود سے نہیں اڑائے گا بلکہ وہ امن اور سکون کے ساتھ سکول بھی جائے گی اور اپنی گڑیوں سے بھی کھیلے گی۔
پورا دن گل بانو نے بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ بنوں میرام شاہ روڈ پر گزارا۔ یہاں چیک پوائنٹ پر خاندان کی رجسٹریشن ہو رہی تھی اور انہیں رجسٹریشن نمبر الاٹ کیے جا رہے تھے۔ گل بانو نے دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ کیمرے سے ان کی تصویریں بنا رہے ہیں بلکہ ایک کیمرہ مین نے جب بنوں چیک پوائنٹ پر آئی ڈی پیز کے قافلے میں سرخ و سفید رنگت اور سنہری بالوں والی ایک ننھی بچی کو‘ گڑیا اٹھائے ہوئے دیکھا تو اس نے بطور خاص اس بچی کی تصویر زوم لینز کے ساتھ بنا لی کیونکہ اس کے چہرے پر معصومیت کے ساتھ خوف کے بھی گہرے سائے تھے۔ اس کی شربتی آنکھوں میں اپنے گھر کو چھوڑنے کا دکھ تھا۔ اپنے گائوں سے باہر ایک اجنبی جگہ پر آ کر عدم تحفظ کا احساس تھا۔ گل بانو کی یہ تصویر اگلے روز کے کئی اخبارات میں چھپی ہوگی مگر اس کو اس کی خبر نہیں۔ وہ اب اپنے خاندان کے ساتھ ایک عارضی گھر میں قیام پذیر ہے۔ بنوں میں‘ آئی ڈی پیز کے لیے عارضی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کھانے پینے کا بھی بندوبست ہے لیکن ان عارضی گھروں میں‘ گل بانو جیسے دوسرے سینکڑوں لوگوں کو شدید عدم تحفظ کا احساس ہے۔ یہ لوگ دن رات دعائیں مانگتے ہیں کہ پاک فوج کو ضرب عضب آپریشن میں مکمل کامیابی ہو اور ان کے گائوں میں پھر سے امن و سکون کا بول بالا ہو۔
بابا کو گل بانو کی فکر ہے اور گل بانو کو اپنی گڑیا کی۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی گڑیا اس اجنبی شہر کے اجنبی ماحول میں بہت اداس ہے اور جلد از جلد اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہے۔ گل بانو کا ننھا سا ذہن خوف زدہ ہے۔ وہ راتوں کو اکثر خوف سے چیختی ہے۔ اس نے اپنی چھوٹی سی عمر میں اپنے اردگرد جنگ زدہ حالات دیکھے۔ گھر کو چھوڑا‘ ہجرت کی اور آئی ڈی پیز کے کیمپوں میں دوسرے بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔
قارئین! گل بانو‘ سینکڑوں آئی ڈی پیز بچوں میں سے ایک بچی ہے۔ اس طرح کے سینکڑوں بچے جنہوں نے اپنی عمر کے اس حصے میں جنگ اور دہشت گردی سے پیدا ہونے والے حالات دیکھے‘ موت کے سائے اپنے اردگرد منڈلاتے دیکھے‘ اپنے گھروں سے ہجرت کی‘ ان بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ جتنا عرصہ یہ عارضی گھروں یا کیمپوں میں رہتے ہیں وہاں ان کے لیے تفریح کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا جائے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ پھر عید ہوگی۔ ایسے میں کتنے پاکستانی بہن بھائی‘ اپنے ہی وطن میں مہاجرین کیمپوں میں موجود ہوں گے۔ صرف حکومت کو نہیں‘ تمام سیاسی جماعتوں‘ ویلفیئر کا کام کرنے والی تنظیموں اور ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ یہ جنگ جو ہماری بہادر افواج لڑ رہی ہیں‘ یہ جنگ ہم سب کی ہے۔ لیکن اس کے اثرات ان لوگوں پر زیادہ پڑے ہیں جنہیں اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا مگر پھر بھی ان کے حوصلے بلند ہیں کہ یہ قربانی رائگاں نہیں جائے گی۔ ایک روز سینکڑوں آئی ڈی پیز کی طرح گل بانو بھی واپس اپنے گھر ضرور جائے گی۔