"SQC" (space) message & send to 7575

سیاست کا سوپ اوپیرا

سینکڑوں اقساط پر مبنی ڈراموں کا آغاز امریکہ سے ہوا۔ان کو سوپ اوپیرا(Soap Opera)کہا جاتا تھا۔ڈرامے مقبول ہوئے تو رفتہ رفتہ ان کو صرف سوپ کہا جانے لگا۔لفظ سوپ یعنی صابن کا استعمال اس لیے ہوا کہ سینکڑوں قسطوں پر مشتمل ان ڈراموں کو صابن بنانے والی کمپنیوں سے سپانسر شپ ملی۔سوپ ڈراموں کی ٹارگٹ آڈینس گھریلو خواتین ہوتیں تھیں۔یہ ڈرامے دن کے اوقات میں ہفتے کے پانچ دن براڈ کاسٹ ہوتے۔مبالغہ آمیز جذبائیت اور سنسنی خیزی سے بھر پور ہر قسط ایک ایسے موڑ پر ختم ہوتی کہ خواتین سامع اگلے دن کا بے چینی سے انتظار کرنے لگتیں۔آج بھی سوپ ڈراموں کو خواتین ہی شوق سے دیکھتی ہیں۔ٹیلی ویژن انڈسٹری میں سوپ ڈراموں کی آج بھی بہت اہمیت ہے۔گھریلو خواتین کے لیے بنائے جانے والے سوپ ڈراموں میں معیار اور گہرائی کی بجائے ایک جذباتی پن اور سطحیت پائی جاتی ہے۔1930ء میں پہلا ریڈیو سوپ شکاگو کے ریڈیو سٹیشن سے پیش کیا گیا تھا۔اس ڈرامے کا نام Painted Dreamsتھا۔ یہ سوپ 20اکتوبر 1930ء کو شروع ہوا اور جولائی 1943ء کو یعنی پورے 13سال بعد اختتام پذیر ہوا۔
سالہا سال تک جاری رہنے والے سوپ ڈرامے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ناظر کو تو یہ لگتا ہے کہ کہانی آگے بڑھ رہی ہے اوراس میں اتنی سنسنی خیزی آ چکی ہے کہ اب ضرور کوئی نیا موڑ آئے گا لیکن ہوتا یہ ہے کہ تمام تر مبالغہ آرائی اور سنسنی خیزی کے باوجود مہینوں اور برسوں تک کہانی وہیں رکی رہتی ہے۔ کردار بے شک بدلتے رہیں لیکن کہانی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔اس کے باوجود خواتین ایسے سطحی ڈراموں کو نشے کی حد تک دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔بے مقصد کی سنسنی خیزی انہیں اس طرح الجھائے رکھتی ہے کہ انہیں وقت ضائع ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔
وطن عزیز کی سیاست کو دیکھیں تو اس پر کسی سوپ ڈرامے کا گمان گزرتا ہے۔وہی مبالغہ آمیزی ۔سنسنی خیزی ۔جذباتی پن اور جھوٹ میں گندھے جذباتی ڈائیلاگ ۔کسی بھی سوپ ڈرامے کی طرح سیاست کے ڈرامے میں بھی یہ تمام عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔سوپ ڈرامے کے کرداروں کی طرح یہ سیاست کے حقیقی کردار بھی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں بُنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بظاہر دوست اور ہمدرد نظر آنے والے‘پیٹھ پیچھے ایک دوجے کی جڑیں کاٹتے ہیں۔اس ڈرامے میں بھی ''سچوایشن‘‘کی بھر مار ہے‘کردار بدلتے رہیں لیکن کہانی وہیں رکی رہتی ہے۔سیاست کا یہ سوپ ڈرامہ ہم ہفتے میں پانچ دن نہیں بلکہ سات دن،یعنی پورا ہفتہ دیکھتے ہیںاور پھر بھی جی نہیں بھرتا۔اس ڈرامے نے ناظر کو یوں الجھایا ہوا ہے کہ اسے اپنے مسائل تک کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے تمام تر مسائل اور حالات کی خرابیوں سے پہلو تہی کر کے اس ڈرامے سے تفریح اور لطف حاصل کرتا ہے۔سیاست کا یہ ڈرامہ پاکستان کا یہ بھولا ناظر گزشتہ 66برس سے دیکھ رہا ہے۔اس کہانی میں نئے کردار شامل ہوتے رہتے ہیں ۔ہماری سیاست کے سوپ ڈرامے میں ان دنوں بڑے دلچسپ کردار موجود ہیں۔کچھ کردار بہت شاطر ہیں‘ کچھ بہت مہینے سے بھی بظاہر معصوم اور سیدھے سادھے مگر اندر ہی اندر سازشیں کرنے والے۔ کچھ کردار بہت پرانے ہیں۔مگر کہانی کی ڈیمانڈ کے مطابق ان کی اہمیت ہر نئے موڑ پر کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے ۔یہ گھاگ اور جہاندیدہ کردار غیر محسوس طریقے سے بہت سے کرداروں کی ڈوریاں اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں۔سیاست کے یہ پرانے کھلاڑی خوب جانتے ہیں کہ انہوں نے اس ڈرامے میں اپنے کردار کو کس طرح زندہ رکھنا ہے۔اگر کہیں ان کے کردار کی اہمیت کم ہونے لگے تو یہ کوئی نہ کوئی سیاسی تماشا کر کے پھر سے سیاست کی لائم لائٹ میں آ جاتے ہیں۔یہ سیاسی تماشا بظاہر تو جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ہوتا ہے مگر درحقیقت اس کا مقصد ڈرامے میں اپنے کردار کی اہمیت بڑھانا ہوتا ہے تاکہ ناظر کی توجہ اس کردار پر مبذول ہو سکے۔سو اس کے لیے کبھی یہ کردار لانگ مارچ کرتے نظر آئیں گے‘کبھی احتجاجی جلسے‘کبھی جذباتی پریس کانفرنسیں‘کبھی کوئی نیا اتحاد بنائیں گے ‘کبھی ایسے ہی سیاسی طور پر متروک کرداروں کو ساتھ ملا کر ایک تازہ الائنس کی بنیاد رکھیں گے‘ پھر ٹی وی کے کیمرے‘ٹاک شوز‘اخبارات کی خبریں اور کالم‘ان کے ہی گرد گھومیں گے تو ایسے کرداروں کو ایک روحانی سکون ملتا ہے۔
ہمارے ہاں سیاست کے اس سوپ اوپیرا میں کئی کردار سیاسی تجربے کے لحاظ سے نوآموز ہیں۔سیاست کے میدان میں ان کی اینٹری نئی نئی ہوئی ہے۔ان کی امنگیں جواں اور خواہشیں بے پناہ ہیں۔ان میں سے کچھ کردار بہت پر جوش ہیں، کچھ نو آموز اپنے سیاسی استادوں کو خوش کرنے کے لیے ہر وقت مخالفین کے بارے میں سیاسی بیان داغتے رہتے ہیںاورکوشش کرتے ہیں کہ زبان و بیان شائستگی کی حدود سے باہر ہی رہے تاکہ کل کوٹی وی ٹاک شوز میں بھی بلائے جا سکیں۔ویسے بھی سیاست تو اب جلسہ گاہوں اور کارنر میٹنگز میں نہیں ہوتی بلکہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں ہی ہوتی ہے۔اب پچھلے کچھ عرصے سے ٹاک شوز کی یکسانیت سے گھبراہٹوں نے احتجاجی سیاست کی نئی مصروفیت ڈھونڈ ی ہے۔سیاسی سوپ اوپیرا میں کچھ کردار ایسے ہیں جنہیں ہم بادشاہ گر کہہ سکتے ہیں۔یہ بہت گہرے اور گھمبیر کردار ہوتے ہیں خود تو منظر سے غائب رہتے ہیں لیکن پردہ سکرین پر چلنے والا سارا ڈرامہ ان ہی کی ہدایت کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے۔یہ کردار‘صرف قومی سطح پر ہی مضبوط تعلقات اور رابطے نہیں رکھتے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے رابطے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔یہ کرداراپنے چہروں پر بہت سے ماسک چڑھا لیتے ہیں۔ایسے ہی کرداروں کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی۔کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے۔
سیاسی ڈرامے کے یہ بادشاہ گر کردار بہت طاقتور ہوتے ہیں جسے چاہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیں اور جس کو چاہیں‘اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کریں۔سیاسی سوپ اوپیرا کے باقی تمام کردار،بادشاہ گر کرداروں سے ہمیشہ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی ناراضگی مول لے کر وہ کہانی میں اپنا کردار کم نہیں کرنا چاہتے۔یہ بادشاہ گر کردار ہر دور میں اہم رہے ہیں۔ خواہ وہ دور جمہوری ہو یا مارشل لا کا ۔پس دیوار رہ کر کہانی کے ہر کردار کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں اور دیکھنے والا اس سوال میں الجھ کر رہ جاتا ہے کہ 
یہ تم ہو یا کہ میں پس دیوار کون ہے؟
اس داستاں کا مرکزی کردار کون ہے؟
ہاں ایک اور بات کہ یہ بادشاہ گر کردار وردی میں بھی ہو سکتے ہیں اور وردی کے بغیر بھی۔ اس سے ویسے بھی کیا فرق پڑتا ہے اصل بات تو یہ ہے کہ سیاست کے سوپ اوپیرا کی کامیابی کے لیے بارہ مصالحوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔تاکہ میرے اور آپ جیسے ناظر‘دلچسپی اور دل جمعی کے ساتھ اس ڈرامے کو دیکھتے رہیں اور اس کی بے مقصد سنسنی خیزی میں اس طرح الجھے رہیں کہ انہیں اپنے مسائل کا ادراک تک نہ رہے۔سیاست کا میلو ڈرامہ (Melodrama)جاری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں