"SQC" (space) message & send to 7575

بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت

ادھر وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے قوم سے تکلیف دہ طویل لوڈشیڈنگ پر معافی مانگی اور عوام سے درخواست کی کہ وہ اللہ سے بارش اور ٹھنڈی ہوائوں کی دعا کریں اور ادھر لاہور میں موسم خوشگوار ہو گیا۔ کل (بدھ) صبح ہی سے کالی گھٹائیں اٹکھیلیاں کرتی نظر آ رہی ہیں۔ سورج بادشاہ اپنے کڑے تیوروں سمیت بدلیوں کے پیچھے گم ہیں اور جولائی کے حبس آلود مہینے میں فی الوقت تو موسم انتہائی خوشگوار لگ رہا ہے۔ یوں بھی مون سون کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب ذرا خواجہ صاحب یہ دعا بھی فرما دیں کہ بارشیں بارانِ رحمت ثابت ہوں وگرنہ لاہور جیسے شہر میں موسلادھار بارش کا ایک چھٹا شہر کے نظام کو مفلوک کر دیتا ہے۔ ادھر چھاجوں مینہ برسا،ادھر سڑکیں دریا میں بدل گئیں اور پھر بارش کے پانی میں پھنسی گاڑیاں گھنٹوں کے ٹریفک بلاک کا باعث بن کر شہریوں کے لیے اذیت کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ 
روزہ داروں کے لیے بھی تپتے موسم میں کالی گھٹائوں اور ٹھنڈی ہوائوں کا چلنا کسی رحمت سے کم نہیں۔ موسم قدرے ٹھنڈا تو ہوا لیکن سیاست کا موسم ہنوز گرم ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اس کی تپش میں مزید اضافہ ہو۔ تحریک انصاف نے اگست میں ''مارچ‘‘ کا اعلان کر رکھا ہے اور اب عمران خان نے حکومت سے اپنے مطالبات کی فہرست بھی کچھ اور بڑھا دی ہے۔ پہلے تو صرف وزیراعلیٰ شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ تھا مگر سانحہ ماڈل ٹائون پر اب ایک کی بجائے چار چار استعفوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مطالبات کی نئی فہرست کے مطابق خان صاحب کی خواہش ہے کہ وزیراعظم‘ اسحق ڈار اور عابد شیر علی اپنے اپنے میدان میں کوتاہیاں برتنے پر فی الفور استعفے پیش کردیں۔ دوسری جانب خان صاحب جہاں پہلے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر رہے تھے اب ان کا فرمانا ہے کہ پورے الیکشن کا آڈٹ کروایا جائے۔ دھاندلی ثابت ہونے پر مڈٹرم الیکشن ہوں۔ جہاں تک چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ تھا اسے دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ ایک سال سے فرینڈلی اپوزیشن بلکہ مفاہمتی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پیپلز پارٹی بھی اب عمران خان کے اس مطالبے کی حمایت میں حکومت کو آنکھیں دکھاتی نظر آتی ہے۔ مفاہمتی سیاست کے چیمپیئن... سابق صدر آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کے مطالبے کے حق میں بیان دے کر عمران خان کو نہال کردیا ہے اور خان صاحب اس حمایت پر اتنے خوش ہوئے کہ فوراً یہ بیان داغ دیا کہ پیپلز پارٹی کے پانچ سال‘ اس حکومت سے بہتر تھے۔ اس کا فیصلہ تو عوام پر چھوڑناچاہیے جو کئی برسوں سے بغیر کسی بریک اور ریلیف کے مہنگائی‘ بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ کا عذاب سہتے آ رہے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کے بیانات تو ان کا ایک سیاسی شغل ہے۔ ورنہ عوام جو سہتے ہیں ان کی خبر مراعات یافتہ طبقے کو کیسے ہو سکتی ہے۔ عوام اور سیاسی اشرافیہ کے مسائل میں اتنا ہی فرق ہے جتنا اس شعر میں بیان کیا گیا ؎ 
مری کہانی تیری کہانی سے مختلف ہے 
کہ جیسے آنکھوں کا پانی... پانی سے مختلف ہے! 
سو اس تازہ سیاسی دنگل میں بھی عوام کا تذکرہ بے معنی ہے۔ مڈٹرم الیکشن کے انعقاد کے مطالبہ پر خان صاحب کو مخالفت کا سامنا اپنی جماعت کے اندر سے ہی کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے ایک جذباتی قسم کی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کے اس خیال کو پارٹی کے اندر بھی سپورٹ نہیں ملی بلکہ وزیراعلیٰ کے پی کے نے تو ایک انٹرویو میں بڑی خوبصورتی سے خان صاحب کی اس بات کی تردید بھی کردی اور کہا کہ ان کی اس بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا ہے کہ حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر ہی مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ قوم بھی اتنی جلدی ایک اور الیکشن کے خرچ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ خود تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی بھی نہیں چاہیں گے کہ کروڑوں روپے لگا کر وہ الیکشن جیتے اور اسمبلیوں میں پہنچے اور اب یہ ساری بساط لپیٹ کر دوبارہ الیکشن کا میدان سجایا جائے۔ اور یوں بھی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن جاری ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ لاکھوں متاثرین آپریشن‘ آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اتنے بڑے مسائل کی موجودگی میں ایسے
مطالبات سے گریز کرنا چاہیے جن سے حالات بگڑنے کا اندیشہ ہو۔ 14 اگست کو تحریک انصاف نے آزادی مارچ المعروف سونامی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور اس وقت پارٹی کی ساری تیاریاں اس مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے ہو رہی ہیں۔ جبکہ حکومت نے بھی ممکنہ مارچ کی اہمیت کم کرنے کے لیے حفاظتی اقدامات کی تیاری کر لی ہے اور 14 اگست ہی کو ڈی چوک پر ایک آزادی میلے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے ایک ٹکرائو والی کیفیت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ ذرا صبر اور تدبر سے کام لیں اور پاکستان سے جڑے اندرونی اور بیرونی مسائل پر نظر رکھیں۔ ایسے بیانات نہ دیں اور نہ ہی اپنی جلدبازیوں اور ناعاقبت اندیش فیصلوں سے ایسے حالات پیدا کریں جس سے دنیا بھر میں پاکستان ایک تماشا بن جائے۔ 
امید کرنی چاہیے کہ تحریک انصاف اور حکومت‘ دونوں ہی اپنے لہجوں‘ رویوں اور فیصلوں میں لچک کا مظاہرہ کریں گے۔ وزیراعظم کو یہ معاملہ اپنے چند ''ہونہار وزراء‘‘ کے تندوتیز بیانات پر چھوڑنے کی بجائے خود دانش مندی سے طے کرنا چاہیے۔ مولانا طارق جمیل بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک معتبر مذہبی سکالر ہیں‘ چند روز پہلے بھی انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی تھی اور شنید ہے کہ ان کے کہنے پر ہی خان صاحب نے اپنے ٹریڈ مارک نام سونامی مارچ سے دستبردار ہو کر اسے آزادی مارچ کا نام دیا۔ اس سارے سیاسی منظر میں پیپلز پارٹی کا کردار اہم ہوگا جو اس وقت اپنے سروائیول کی جنگ لڑ رہی ہے۔ خاموشی کے طویل وقفے کے بعد سابق صدر زرداری کا بیان بھی اہم ہے اور سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی مشترکہ پریس کانفرنس بھی۔ مشرف سے ڈیل کا تذکرہ کر کے گیلانی پہلے ہی ٹھہری ہوئی جھیل میں ارتعاش پیدا کر چکے ہیں اور اس ارتعاش سے پیدا ہونے والی لہروں کو گننے کا سلسلہ جاری ہے۔ ن لیگ کو تنہا کر کے پیپلز پارٹی کا عمران خان کے مطالبے کی حمایت ایک سیاسی نوراکشتی بھی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک پیپلز پارٹی کا موقف یہی تھا کہ وہ جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے ن لیگ کی حکومت کا ہر طرح ساتھ دیں لیکن اب اچانک احتجاجی سیاست کرنے والوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ دراصل اپنے سروائیول کے لیے ہے۔ پانچ سال تک حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی گزشتہ ایک برس سے پس منظر میں چلی گئی تھی‘ اسے تو منظر پر لانا ضروری تھا۔ ورنہ انہیں تحریک انصاف کے مطالبات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی کیفیت تو اس شعر جیسی ہے ؎ 
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں 
ورنہ تجھ سے مجھ کو پیار نہیں 
جب سیاسی درجہ حرارت اور زیادہ بڑھے گا پھر حکومت اور تحریک انصاف میں ڈائیلاگ کی بات ہوگی تو اس میں آصف علی زرداری اہم کردار ادا کریں گے اور فریقین کو کسی مشترکہ نکتے پر راضی کر لیں گے۔ یوں عمران خان مڈٹرم الیکشن کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں گے اور آصف علی زرداری ایک بار پھر مفاہمتی سیاست کے چیمپئن کی حیثیت سے ناقدین کی داد سمیٹیں گے۔ پھر راوی نیا سیاسی بحران پیدا ہونے تک چین ہی چین لکھے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں