رمضان المبارک کا آخری عشرہ نجات شروع ہوچکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان اعتکاف بیٹھ چکے ہیں۔ اس عشرہ نجات کی طاق راتوں میں شب بیداری ہوگی۔ مسلمان رب سے رحمت اور مغفرت طلب کریں گے اور خوش نصیب رحمتوں سے اپنا دامن بھرلیں گے۔
اس رحمتوں کے مہینے میں فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے قیامت برپا کیے رکھی اور عالم اسلام خاموش رہا۔ بم گرتے رہے۔ معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن اسلامی دنیا سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ مسلم امہ کا اگر کہیں کوئی وجود ہے تو اس وجود میں اس ظلم اور بربریت سے ذرا سا ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ مسلم حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں اور الفاظ کہیں گم ہوگئے۔پوری دنیا اپنی ٹی وی سکرینوں پر دیکھتی رہی کہ اسرائیل ایک ظالم وحشی کی طرح فلسطینی بچوں پر بھی بم برساتا رہا لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بشمول عالمی امن اور سلامتی کا علمبردار اقوام متحدہ خاموش رہا۔ اسرائیل کی اس جنگی جارحیت میں اب تک 580فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور ان میں اسی فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ پچاس ہزار بے گھر ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کی دیدہ دلیری اور بے حسی دیکھیے، بمباری میں شہری علاقوں کو خاص طور پر نشانہ بنایاگیا ، ساحل پر کھیلتے ہوئے چار معصوم فلسطینی بچوں کی وہ تصاویر کیسے بھول سکتی ہیں جس میں چند لمحے پہلے بچے اپنے کھیل میں گم ہیں اور دوسری تصویر میں اسرائیلی طیارے ان معصوم بچوں پر بمباری کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اسرائیل ایسی جارحیت بار بار دھرانے کا عادی ہوچکا ہے۔
جب اسرائیل کی جنگی جارحیت سے سینکڑوں معصوم فلسطینی شہید ہوگئے تو بان کی مون اور بارک اوباما نے اس جنگ کی ہلکی پھلکی مذمت کرنے کے لیے زبان کھولی۔ یہ عالمی طاقتیں جو امن کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرسکتی ہیں پہلے اس جنگی جارحیت کا تماشا دیکھتی ہیں۔ کھیلتے ہوئے معصوم بچوں پر اسرائیلی بمباری کا بہیمانہ کھیل دیکھتی ہیں اور جب خون آشام کھیل سے ان کا جی بھرنے لگتا ہے تو وہ امن کی علمبردار بن کر اس بربریت کی مذمت کردیتے ہیں۔ اس سارے کھیل کو ان کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ رہ گئی بات اسلامی دنیا کی۔ 57ملکوں پر مشتمل تنظیم او آئی سی کی اس بے حسی پر اقبال کا یہ مصرع پوری طرح صادق آتا ہے کہ '' حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘۔ اس کے وجود پر یقینا فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ فلسطینی بستیوں پر اسرائیل کی بربریت کا تماشا ساری دنیا دیکھتی رہی۔ مگر ابھی تک او آئی سی نے اپنا ہنگامی اجلاس طلب نہیں کیا اور اگر یہ اجلاس منعقد ہو بھی جائے تو اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے کہ ہر مسلم ملک کسی نہ کسی حوالے سے انہیں عالمی طاقتوں کا دہلیز نشین ہے جو دل لگی کے لیے ایسے خون آشام کھیل دیکھتی ہیں اور جب جی بھر جاتا ہے تو ان کا شوق کسی نئے شغل میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں مسلمان ملکوں کا وجود ان عالمی طاقتوں کے لیے کسی ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں جسے استعمال کیا اور پھرپھینک دیا۔
مسلم دنیا کی یہ ذلت آمیز بے قدری آخر کیوں۔ وجہ جاننے کی کوشش میں چند سال بیشتر ہونے والا یہ سروے پڑھا تو کچھ گتھیاں سلجھنے لگیں اور وجہ سمجھ میں آنے لگی کہ آخر کیوں ڈیڑھ ارب مسلمان ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودیوں کے سامنے بے بس ہیں۔ مسلمان دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہیں۔ پہلے نمبر پر عیسائی ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا 31فیصد ہیں جبکہ مسلمان دنیا کی کل آبادی کا 23.2فیصد ہیں۔ اس کے مقابلے پر یہودی آبادی کا تناسب صرف 0.2فیصد ہے ۔ دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ ایک ہندو کے مقابلے میں دو مسلمان ہیں جبکہ ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں اب ذرا اندازہ لگائیے کہ یہودی آبادی جس کا تناسب باقی مذاہب خصوصاً مسلمان کے مقابلے میں سب سے کم ہے‘ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر کس طرح پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ علم کے مختلف میدانوں میں نوبل انعام پانے والے بیشتر یہودی ہیں۔ یعنی اب تک 180 نوبل انعام پانے والے یہودیوں کے مقابلے میں صرف 3مسلمان موجود ہیں۔ جن سائنس دانوں کی تحقیق اور ریاضت نے انسانی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ان میں چند نام یہ ہیں: البرٹ آئن سٹائن، کارل مارکس، سگمند فرائڈ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے طبیعات سے لے کر معاشیات اور انسانی نفسیات کی گہرائیوں تک‘ اپنی تمام عمر علم کے حصول، تحقیق اور ریاضت میں پھونک دی۔ اپنی تحقیق سے انسانی زندگیوں کو تبدیل کیا۔ یہ سب نام یہودی النسل تھے۔ یہودی ہو یا عیسائی، سب نے اپنا رشتہ علم اور تحقیق سے مضبوط کیے رکھاہے۔جبکہ مسلمان ملکوں کا تو حال یہ ہے کہ 57مسلمان ملکوں کی کل پانچ سو یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی یونیورسٹی اس رینکنگ میں نہیں آتی جہاں علم اور تحقیق کا کام خالص بنیادوں پر ہورہا ہو۔ تیل کی صورت میں عرب ملکوں کے پاس بے پناہ دولت ہے لیکن وہ اس دولت سے شاندار محلات تعمیر کرتے ہیں اور اپنی اس دولت کو امریکی اور یورپی ، شاپنگ پلازوں میں جاکر اجاڑتے ہیں۔ پوری مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں کی تعداد 5سو ہے جبکہ صرف امریکہ میں 5 ہزار سے زائد یونیورسٹیاں ہیں۔بھارت میں آٹھ ہزار چار سو سات یونیورسٹیاں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کا کام کررہی ہیں۔ اسلامی ملکوں اور غیر اسلامی ملکوں میں خواندگی کی شرح میں بھی ایسا ہی شرمناک فرق پایا جاتا ہے۔ عیسائی اکثریت والے چند ممالک ایسے ہیں جہاں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے جبکہ پوری دنیا میں مسلم اکثریت والا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں سو فیصد خواندگی ہو۔ عیسائی ممالک میں تقریباً چالیس فیصد لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں جبکہ مسلم ملکوں میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح صرف دو فیصد ہے۔ مسلمان ملکوں میں ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم ملک اپنے جی ڈی پی کا 0.2فیصد ریسرچ پر خرچ کرتے ہیں تو اس کے مقابلے میں عیسائی دنیا، اپنے جی ٹی پی کا 5فیصد ریسرچ پر لگاتی ہیں۔ وہاں ہر سال ہزاروں سائنس دان اور محقق پیدا ہوتے ہیں اور یہاں ہر سال علم سے عاری تحقیق اور ریسرچ کی دنیا سے دور ہزاروں شدت پسند اور خودکش بمبار جنم لیتے ہیں۔ تحقیق اور جستجو کا سبق قرآن نے دیا۔ علم کا راستہ اسلام کا راستہ ہے لیکن ہم نے اسے فراموش کردیا۔ یورپ اور امریکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معرکے سر کررہے ہیں۔ان کی یونیورسٹیاں سائنس دان پیدا کرتی ہیں، وہ پروڈکٹس بناتے ہیں اور ہماری یونیورسٹیاں ان کی مصنوعات کو بیچنے کے لیے سیلز مین پیدا کررہی ہیں۔ عرب ملکوں کو تیل کے کنووں سے تیل نکالنے کے لیے امریکی انجینئرز کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے استفادہ کرنے کے لیے کبھی چینی اور کبھی جرمن ماہرین سے مدد طلب کرتے ہیں۔ معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے بیل آئوٹ پیکیج پیش کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی ادارے ہماری مدد کو آتے ہیں۔ ہماری سوچوں تک پر عالمی طاقتوں کی حکمرانی ہے۔ ہمارے ضمیر ان کی مٹھی میں بند ہیں۔ ایسے میں او آئی سی کا وجود کسی مذاق سے کم نہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ آپ بھی میری طرح او آئی سی پر فاتحہ پڑھ لیں اور زیر لب اقبال کا یہ مصرع دہرالیں۔ مسلمان نہیں‘ راکھ کا ڈھیر ہے!