یہ غریبوں کی ایک بستی ہے جو پنجاب کے دل لاہور شہر ہی کے پہلو میں آباد ہے۔ غریبوں کی ایسی کئی بستیاں خوشحال آبادیوں کے ساتھ ساتھ سانس لیتی ہیں جہاں انسان زندگی کو ایک جبر کی طرح کاٹتے ہیں۔
یہ بھی غریبوں کی ایک بستی ہے جو گزشتہ چار گھنٹوں سے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کے مکین اپنے حبس آلود تنگ گھروں سے باہر نکل کر گلیوں کے کنارے بیٹھے بجلی کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ بجلی ایک گھنٹہ آ جائے گی مگر پھر چار گھنٹوں کے لیے غائب ہو جائے گی۔ یہاں کی یہی روٹین ہے۔ شہر کی عام بستیوں کی نسبت یہاں لوڈشیڈنگ کے اوقات مختلف ہیں۔ اگر وہاں بجلی ایک گھنٹہ جائے اور دو گھنٹہ آئے تو یہاں ایک گھنٹے کے بعد چار گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور کبھی کبھی شٹ ڈائون کے نام پر سارا سارا دن بجلی ان غریبوں کے گھروں کا رُخ نہیں کرتی۔ دیہاڑی کرنے والوں کے گھروں میں یو پی ایس اور جنریٹر کہاں۔جہاں دو وقت روٹی کھا لینا ہی ایک لگژری ہو وہاں زندگی کی دوسری سہولیات کے صرف خواب ہی دیکھے جاتے ہیں۔ بجلی یہاں آتی نہیں مگر بل سرکار ٹھوک بجا کر لیتی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ دوسروں کے استعمال شدہ یونٹس بھی ان غریبوں پر ڈال دیئے جاتے ہیں۔ ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے والوں کو ہزاروں روپے بل پڑتا ہے۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ یہ لوڈشیڈنگ کیا ہے؟ کتنے میگاواٹ کا شارٹ فال ہے؟ ان کو یہ سب سمجھنے کی ضرورت بھی کیا۔ انہیں اگر کچھ سمجھنا ہے تو جمہوریت کو سمجھیں اور اس میں خوش رہیں کہ ایک جمہوری حکومت ان کے ساتھ یہ سب کر رہی ہے۔ روٹی‘ بجلی‘ روزگار سب سے زیادہ ضروری چیز جمہوریت ہے۔ بھوکے پیٹ رہو یا اندھیروں میں ٹکریں مارو لیکن جمہوریت زندہ باد کے نعرے ضرور لگاتے رہو۔ ہاں سفر کے لیے بہترین سہولتوں سے آراستہ میٹرو بس موجود ہے۔ عالمی معیار کی سفری سہولتیں تو حکومت نے دے دی ہیں اب ا ور کیا دے؟ ابھی تو میٹرو ٹرین بھی چلے گی اور پھر اس شہر کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ ایک مفلوک الحال‘ بھوکا‘ بیمار‘ دوا دارو سے محروم‘ بیروزگار بھی پیرس جیسے لاہور کو دیکھ کر کھِل اٹھے گا اور یہی تو جمہوریت کا حُسن ہے!
میرے جیسے نیم خواندہ سے نام نہاد دانشور جو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت تو ان شاندار الفاظ کی عملی تفسیر ہے کہ لوگوں کی‘ لوگوں پر حکومت‘ جو لوگوں کے لیے کام کرے... تو ایسے دانشور احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کم از کم یہاں تو ایسا نہیں ہوتا‘ دنیا میں کہیں ہوتا ہو تو ہمیں اس سے کیا۔ ہر بار انتخابات کے دوران جمہوریت کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی ہے اور جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ جمہوریت کا جادو ایسے سر چڑھ کر بولتا ہے کہ سیاست کے ناخدا بھی غریبوں کی بستیوں میں ووٹ لینے پہنچ جاتے ہیں۔ جلسوں میں تقریریں ہوتی ہیں تو غریب شہر کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کا وجود بے معنی نہیں ہے‘ اس کی رائے کی بھی اہمیت ہے اور اب اس کی رائے سے ہی حکومتیں بنیں گی۔ عوام کے مسائل پر درد سے بھری تقریریں کی جاتی ہیں۔ جوش خطابت میں ہی سہی‘ وعدے کر لیے جاتے ہیں کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔ غریب کو روزگار اور انصاف دلانے کے وعدے کیے جاتے ہیں اور ان کو باور کرایا جاتا ہے کہ اب راج کرے گی خلق خدا! زیادہ دور نہ جائیں صرف
ایک سال پہلے ہونے والے انتخابات کی مثال سامنے رکھیں۔ اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے عوام کے بنیادی مسائل بے روزگاری اور بجلی کے بحران کے حل کے نام پر ووٹ لیے۔ اس وقت تقریروں میں فلائی اوورز اور میٹرو ٹرین جیسے فینسی منصوبوں کا تذکرہ نہیں کیا، نہ ہی یہ کہا کہ حکومت میں آئیں گے تو نجکاری کر کے ہزاروں افراد کو بے روزگار کردیں گے اور نہ یہ فرمایا کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے مزید کشکول بنائیں گے بلکہ دعوے کیے کشکول توڑنے کے یا لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے۔ پھر حکومت بنی تو اپنی ترجیحی فہرست سے عوامی مسائل کو نکال باہر کیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ عوامی رائے کو حکمرانوں نے اپنے مفاد کے قبرستان میں زندہ دفن کر ڈالا ہے۔ سو اس جمہوری حکومت میں عوامی رائے کا کوئی وجود نہیں۔ اگر کوئی وجود ہوتا تو رمضان المبارک کے مہینے میں غریبوں کا کچھ احساس کر لیا
جاتا۔ یہاں الٹی گنگا یوں بہی کہ بلامبالغہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی لوڈشیڈنگ میں تیزی آ گئی۔ بجلی جانے کے وقفے زیادہ ہو گئے۔ اگلے روز لیسکو کے دفتر پر بجلی کے ستائے ہوئے لوگوں نے حملہ کردیا۔ توڑ پھوڑ کی۔ اس جلوس میں دیہاڑی دار مزدور‘ چھوٹے دکاندار اور دوسرا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے شامل تھے۔ حکمرانوں کو اندازہ ہے کہ لوڈشیڈنگ سے دیہاڑی دار مزدور کتنا متاثر ہوتا ہے۔ بجلی سے چلنے والا ہر یونٹ‘ خواہ وہ فوٹو سٹیٹ مشین ہو یا پھر کارخانے کا پہیہ سب جام ہو جاتا ہے۔ مزدور کو کام نہیں ملتا تو اس کا چولہا کیسے جلے گا۔ غریب کے اندر جو تنائو اور فرسٹریشن حکمرانوں کے خلاف پیدا ہو رہی ہے اس سے حکمرانوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ لوگ جن کے پاس کھونے کو کچھ نہ رہے اور حالات کے جبر میں ان کی سانس بھی ان پر بھاری ہو‘ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کسی کے بھی ہاتھوں استعمال ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حکومتوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور یہ انقلاب اور تبدیلی کے نام پر کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
صرف ایک سال گزرنے کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ یہی ہے کہ عوامی مسائل کو حکومت نے بُری طرح نظر انداز کیا اور نظرانداز کر رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ عوام الناس سے اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنی غریب بستیوں سے خوشحالی دور ہوتی ہے۔ یہ تو ان سڑکوں پر بھی سفر نہیں کرتے جن پر عوام سفر کرتے ہیں۔ سکیورٹی اور پروٹوکول کے نام پر ان کی آمد پر سڑکیں خالی کرا لی جاتی ہیں۔ بیمار ہوں تو علاج معالجہ کے لیے بیرون ملک جانا ایک معمول ہے۔ کاروبار باہر‘ بینک بیلنس باہر‘ رابطے باہر... یہاں تو وہ صرف جمہوریت کے حُسن سے لطف اندوز ہونے کو موجود ہوتے ہیں۔ وہ جمہوریت نہیں جس کی تعریف ابراہام لنکن نے کی تھی‘ جس میں عوامی رائے اور عوامی مسائل‘ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ جمہوریت ہے جس کے بارے میں ایک غیر ملکی مفکر نے کہا:
"Giving the money and power to government is like giving whisky and car keys to teen age boys".
غریب عوام اپنے خواب سیاسی اشرافیہ کے خوبصورت نعروں کو بیچ دیتے ہیں۔ قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈالتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ انہوں نے جمہوری عمل میں اپنا حصہ ڈالا‘ اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اب ان کی رائے کی حکمرانی ہوگی۔ اب جمہوریت کی آنچ پر مسائل کا پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔ روٹی اور روزگار سب کو ملے گا۔ پھر کچھ وقت گزرتا ہے اور انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ عوامی رائے حکمرانوں کے مفاد اور ان کی اپنی ترجیحات کے قبرستان میں دفن ہو گئی ہے۔
حکمران ٹولہ‘ اپنے خوشامدیوں کے جلو میں اپنی ترجیحات کی فہرست پر کام کرنے میں مصروف ہے۔ وسکی اور کار کی چابی‘ نو عمر‘ نادان نوجوانوں کے ہاتھ لگ چکی ہے! اس موسم میں یہی جمہوریت ہے۔