"SQC" (space) message & send to 7575

ننھی شامعہ کا نوحہ!

یہ تحریر نہیں ہے۔ کوئی کالم نہیں ہے بلکہ آنسو ہیں۔ وہ آنسو جو کبھی آنکھ سے گرتے ہیں اور کبھی خشک آنکھوں سے سرزمینِ دل کو گیلا کرتے ہیں۔ عید کے دنوں میں ہم اپنی ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے‘ ریموٹ سے چینل بدلتے ہوئے‘ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے فلسطینی بچوں کے مرنے کی خبریں سنتے رہے۔ مسلم دنیا میں عید منائی گئی۔ دعوتیں‘ کھانے‘ میل ملاقاتیں‘ عید کی مبارکبادیں۔ سب کچھ ''بخیرو خوبی‘‘ ہو گیا۔ انہی دنوں ہم نے ننھی شامعہ کی دلگداز کہانی سنی۔ جی ہاں وہی ننھی پری جس نے ابھی ماں کی کوکھ سے گود تک کا سفر طے نہیں کیا تھا کہ اس کی ماں شہید ہو گئی اور شامعہ نے شہید ماں کی کوکھ سے جنم لیا۔ یہ تحریر ننھی شامعہ کا نوحہ ہے۔ شامعہ جو ان سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینی بچوں کی نمائندہ ہے جن کے ننھے معصوم بدن جنگ کی آگ میں جھلس گئے! 
وہ فلسطینی بچے‘ جو اپنے آنگنوں میں یا ساحل کی ریت پر کھیلتے کھیلتے اپنی قبروں میں جا پہنچے۔ وہ بچے جو مرنے سے پہلے جنگ کے ماحول میں بھی کھلکھلا کر ہنس رہے تھے کیونکہ وہ تو بچے ہیں اور بچوں کو کیا خبر کہ جنگ کتنی بری چیز ہوتی ہے! موت کا خوف کیا ہوتا ہے۔ لیکن اب یوں لگتا ہے کہ اتنے دنوں کی مسلسل بمباری اور بربادی سے زندہ بچنے والے فلسطینی بچے جان گئے ہیں کہ جنگ‘ بربادی اور موت کیا ہے۔ 
ہزاروں بچے زخمی حالت میں غزہ کے ہسپتالوں میں پڑے ہیں جہاں جنگ اور تباہی کے ماحول میں پوری طرح طبی سہولیات بھی میسر نہیں۔ ان کے پھولوں جیسے چہرے زخمی ہیں۔ کسی کا ننھا سا ہاتھ کٹا ہے‘ کہیں کوئی چھوٹی سی ٹانگ پلستر میں جکڑی ہے۔ تکلیف سے کراہتے ہوئے بچوں کو مائوں کے لمس بھی میسر نہیں۔ باپ کی شفقت سے بھی محروم ہیں۔ ان کو کون بتائے کہ بیٹا جنگ ہو رہی ہے اور جنگ میں ماما اور بابا تو پہلے ہی شہید ہوگئے تھے۔ کوئی ان بچوں کے ننھے ننھے معصوم دلوں کی اذیت کا اندازہ لگا سکتا ہے؟ کوئی لکھاری ان کی تکلیف کو لفظوں کا پیرایہ نہیں دے سکتا! ہاں ننھی شامعہ ان سارے بچوں کی نمائندہ بن گئی ہے۔ 
جب پوری دنیا کے لوگوں نے ننھی شامعہ کی موت پر لکھا‘ اس پر ٹویٹ کیے تو اس میں ان سینکڑوں بچوں کی موت کا پُرسہ شامل تھا جو اسرائیل کی بہیمانہ بمباری میں زندگی کی بازی ہار گئے! 
شامعہ کو تو معجزانہ بچی (Miracle baby) کہا گیا تھا کیونکہ وہ شہید ماں کے بطن سے پیدا ہوئی۔ اس کے زندہ رہنے کے چانسز بہت کم تھے۔ شامعہ کی کہانی کچھ یوں ہے۔ غزہ کے ایک گھر میں‘ ایک خوبصورت فلسطینی جوڑا رہتا تھا، جو ایک ماہ کے بعد اپنے پہلے بچے کی پیدائش کا منتظرتھا۔ میڈیکل الٹرا سائونڈ کا جائزہ لے کر ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹی کے والدین ہونے کے لیے چنا ہے۔ وہ دونوں بے حد خوش تھے۔ اپنی ننھی گڑیا کے لیے انہوں نے ڈھیر سارے گلابی فراک خریدے ہوئے تھے اور سوفٹ ٹوائز میں بھی زیادہ پیاری پیاری گڑیاں تھیں۔ دونوں کی آنکھوں میں اپنی پیاری سی بیٹی کے لیے بہت سارے خوابوں کا بسیرا تھا۔ پھر اسرائیل کی بمباری نے ان سارے خوابوں کو ملیا میٹ کردیا۔ ان کا چھوٹا سا خوبصورت گھر‘ اس بمباری میں ڈھیر ہو گیا۔ اس ملبے تلے دب کر دونوں شہید ہو گئے۔ ریسکیو کی ٹیم نے ملبے کے ڈھیر سے ایک 23 سالہ خاتون کو نکالا جو آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ اسے فوری طور پر غزہ کے خان یونس ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹرز نے ابتدائی چیک اپ کے بعد بتایا کہ اس کی شہادت کو دس منٹ گزر چکے ہیں اور اگر بچے کو ماں سے ملنے والی آکسیجن پانچ منٹ تک نہ ملے تو بچے کا زندہ رہنا محال ہوتا ہے۔ اسی وقت ڈاکٹرز نے ایک عجیب چیز نوٹ کی کہ شہید ماں کے بطن میں ننھی بچی زندہ تھی۔ آپریشن کیا گیا اور شامعہ نے اس جنگ زدہ بے حس دنیا میں جنم لیا۔ بچی کا نام اس کی ماں کے نام پر شامعہ رکھا گیا تھا! 
پیاری شامعہ‘ تمہیں اسی لیے تو میریکل بے بی کہا گیا تھا کہ تم نے جنگ اور بارود کے ڈھیر پر آنکھیں کھولیں...! 
تمہیں محبت اور لاڈ سے گود میں اٹھانے کو ماں بھی نہیں اور باپ بھی! وہ جو ہر وقت تمہارے ہی سپنے دیکھتے۔ اپنی ننھی گڑیا سے دور‘ کسی دوسرے جہاں میں جا چکے تھے اور وہ سارے گلابی فراک اور پیاری پیاری گڑیاں سب کی سب کھو چکی تھیں! جنگ میں تو ایسا ہی ہوتا ہے نا! کہ کوئی بھی کسی بھی وقت جنگ کی نذر ہو سکتا ہے۔ بسا بسایا گھر ملبے کا ڈھیر بن سکتا ہے اور ماں اپنی گڑیا کو جنم دینے سے پہلے ہی شہید ہو جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں سوچتی کہ ننھی گڑیا جب اس دنیا میں آئے گی تو کس کے سینے سے لگے گی۔ کس کی بانہوں کے جھولے میں سوئے گی! شاید اسی لیے شامعہ کو فوراً ہی انکوبیٹر میں سلا دیا گیا۔ اس کے ننھے سے وجود کے ساتھ بہت ساری نالیاں لگا دی گئیں۔ ڈاکٹرز کہتے تھے کہ ابھی چند ہفتے شامعہ اسی انکوبیٹر میں رہے گی کیونکہ ابھی تو اسے ایک اور ماہ تک اپنی ماں کے وجود کا حصہ رہنا تھا۔ خان یونس ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس بچی کو دن رات دیکھ رہی تھی۔ انہیں انکوبیٹر میں لیٹی ننھی بچی سے انس ہو گیا تھا۔ انہوں نے اسے جنگ کے شعلوں میں جلتے ہوئے فلسطین کے لیے ایک امید قرار دیا تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ اس ننھی پری کی وِل پاور بھی کمال ہے جو شہید ماں کے بطن میں زندہ رہی اور اب انکوبیٹر سے آکسیجن لیتے ہوئے بہتری کی طرف گامزن ہے۔
پوری دنیا کے اہلِ دل شامعہ کے لیے دعا گو تھے کہ ایک روز اسرائیلی طیارے کی بمباری نے فلسطین کے واحدپاور سٹیشن کے ایک حصے کو تباہ کردیا۔ بجلی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ انکوبیٹر بند ہوا۔ آکسیجن کی فراہمی منقطع ہوئی اور ننھی شامعہ نے دم توڑ دیا!! 
جنگ اور بربریت کے ماحول میں پیدا ہونے والی ننھی پری زندہ بھی کیسے رہتی‘ اُسے مرنا ہی تھا کیونکہ اس وقت اسرائیلی بمباری کا نشانہ معصوم فلسطینی بچے ہیں۔ یہاں تک کہ اب یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فلسطین میں اپنی زندگی چاہتے ہیں تو بچوں سے دور رہیں۔ یہاں چُن چُن کر بچوں کو مارا جا رہا ہے! ایسے ماحول میں اگر شامعہ زندہ بھی رہتی تو کل کسی بمباری میں اس کی ننھی سی جان چلی جاتی! 
اچھا ہی ہوا جو وہ اس ظالم دنیا میں مزید نہ رُکی اور واپس جنت کو سدھار گئی۔ اب وہ یقینا اپنی شہید ماں کی گود میں ہوگی اور ان دنوں کی کہانی سناتی ہوگی جو اس نے ماں کے بغیر گزارے!! جب انکوبیٹر میں بھی وہ بموں کی خوفناک آوازیں سن کر ڈرتی ہوگی۔ اس کا ننھا سا دل سہم جاتا ہوگا۔ ایسے دیس میں جہاں بارود کی آگ سے پھول مرجھا گئے ہوں۔ تتلیوں کے پر جل گئے ہوں۔ جگنوئوں کی روشنیاں بجھ چکی ہوں۔ وہاں شامعہ زندہ رہ کر کیا کرتی! ہاں مگر ہم جو اہلِ درد بھی کہلاتے ہیں‘ زندہ ہیں! اور اپنی بے حسی اور بے بسی پر شرمندہ بھی ہیں کہ شامعہ اور اس جیسے ہزاروں بچے جنگ کی آگ میں جلتے رہے‘ مرتے رہے اور ہم اپنے گھروں کے پُرسکون کمروں میں بیٹھ کر کھوکھلے اور بے جان لفظوں سے ان کا نوحہ لکھتے رہے!! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں