کالم لکھنے سے پہلے ذہن پر موجودہ سیاسی حالات کی گرد تھی اور اس گرد کی تہہ اتنی دبیز تھی کہ سوچ کو اظہار کے لیے الفاظ سجھائی نہیں دے رہے تھے مگر پھر بارش ہونے لگی۔ ہوا میں گیلی مٹی کی مہک کھلی ہو تو کون چاہے گا کہ سیاست پر لکھا جائے۔ سو میرا دل بھی اور میرا قلم بھی‘ اس وقت بغاوت کے موڈ میں ہے کہ کچھ اور لکھا جائے... مگر پھر بار بار خیالات ادھر سے بھٹک کر اس یکسانیت بھرے افسوس ناک سیاسی منظر کی طرف چلے جاتے ہیں جہاں "Real politik" اپنی تمام تر بدصورتیوں کے ساتھ موجود ہے۔
ماڈل ٹائون اور فیصل ٹائون کل سے میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ تدبر اور عوامی فلاح کی سوچ سے عاری‘ طاقت‘ دھونس اور احتجاج کی بدصورت سیاست نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ میں نے اوپر ایک اصطلاح رئیل پولیٹک استعمال کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسی سیاست جس میں مقاصد کے حصول کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے کو جائز سمجھا جائے۔ خواہش اور مفاد کی جنگ میں عوام کی فلاح‘ ترجیحات میں سب سے نیچے ہو۔ اس وقت ملک کی سیاست اسی ڈگر پر گامزن ہے۔
جمہوری احتجاج کا حق سب تسلیم کرتے ہیں۔ ایسے احتجاج کو اگر حکومت طاقت سے روکے گی تو جمہوری قدروں (اگر کہیں موجود ہیں؟) کی نفی ہوگی۔ حکومت کے اب تک کے رویے سے تو یہی لگتا ہے کہ اس وقت صرف اور صرف حکومت کے لیے اہم یہ ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کو طاقت سے کچل دیا جائے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزرنا جائز ہے۔ دنیا جہاں کے کنٹینروں کو زبردستی لا کر ماڈل ٹائون اور فیصل ٹائون جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ ان دونوں رہائشی علاقوں کے مکین اس طرزِ سیاست سے بُری طرح عاجز ہیں۔
ہماری ایک رشتہ دار بزرگ خاتون کینیڈا سے آئی ہیں اور فیصل ٹائون میں تنہا رہتی ہیں۔ آج کل شدید بیمار ہیں‘ انہیں ہفتے میں دو تین بار چیک اپ اور ٹیسٹوں کے لیے ہسپتال جانا ہوتا ہے۔ ان سے بات ہوئی تو شدید پریشانی کا شکار تھیں کہ اگر ان کے ساتھ کوئی بھی ایمرجنسی ہو جاتی ہے تو ان حالات میں کس طرح جاپائیں گی۔ یوں بھی تمام عمر کینیڈا میں گزار کر پاکستان واپس اس لیے آئیں کہ اپنے وطن جیسا احساس اور کہیں ہو نہیں سکتا۔ محب وطن خاتون ہیں‘ اس بات پر بھی کڑھتی رہیں کہ اگست تو آزادی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں حکومت نے اپنے ہی لوگوں کو محصور کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تو ان کے لہجے میں کبھی کبھی پچھتاوے کی جھلک بھی نظر آتی ہے کہ آسان اور آسائش والی زندگی چھوڑ کر وہ وطن کی محبت میں واپس کیوں آئیں!
یہ تو ایک مثال ہے وگرنہ صورت حال یہ ہے کہ زندگی مفلوج ہو چکی ہے۔ شدید تنائو اور Panic کی کیفیت نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اگلے چند دنوں تک شہر میں پٹرول کی بوند نہیں ملے گی۔ کل پٹرول پمپوں پر لمبی لمبی قطاریں دیکھیں۔ لوگ گھروں میں کھانے پینے کا سامان اکٹھا کر رہے ہیں کہ نہ جانے 14 اگست کو اور اس کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ انقلابیوں اور تبدیلی لانے کے دعوے داروں کی احتجاجی سیاست کو کچلنے کے لیے حکومت بھی ہر حربہ استعمال کر رہی ہے اور دوسری جانب بھی انتہائی غیر لچکدار‘ غیر جمہوری رویہ ہے۔ علامہ صاحب نے تو باقاعدہ اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ اپنی تازہ ترین تقریروں میں انہوں نے جس طرح اپنے پیروکاروں کو حکومتی انتظامی مشینری کے سامنے انتہائی پُرتشدد رویہ اختیار کرنے پر اُکسایا‘ اس سے لگتا ہے جیسے یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ ان پیروکاروں کی برین واشنگ اس طرح کی گئی ہے کہ انہیں بھی اپنے اچھے بُرے کا شعور نہیں رہا۔ ورنہ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان لڑکیوں‘ مائوں کا ڈنڈے اٹھا کر سڑکوں پر آنا خود مسائل کو دعوت دینا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ پُرتشدد احتجاج کرنے کے موڈ میں ہوں‘ ڈنڈے اٹھا کر سڑکوں پر آ جائیں گے تو پولیس کے ساتھ تصادم ہونا ایک معمول کی بات ہوگی۔ ایسے حالات میں پکڑ دھکڑ‘
لاٹھی چارج‘ آنسو گیس کا استعمال عام سی بات ہے۔ اس سے پہلے بھی دونوں فریقین‘ انقلابیوں اور حکومت کے پُرتشدد اور سخت رویے نے سانحہ ماڈل ٹائون کو جنم دیا۔ عوامی تحریک کے تیرہ‘ چودہ ارکان بشمول دو خواتین کے‘ اس سانحے میں جاں سے گزر گئے۔ یہ سانحہ حکومت پنجاب کی بدترین اور سنگدلانہ انتظامی کارروائی کا نتیجہ تھا۔ خادم اعلیٰ پنجاب خواہ دن رات عوام کی خدمت میں جُتے رہیں پھر بھی یہ داغ دُھلنے کا نام نہیں لے رہا کہ ان کی حکومت میں اُن کے زیر کنٹرول پولیس نے ایک جماعت کے کارکنوں پر بلاجواز گولیاں برسائیں جبکہ معاملے کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا۔ ایک طرف علامہ صاحب انہی ''شہیدوں‘‘ کے لہو پر سیاست کر رہے ہیں اور آج یوم شہدا منانے کا اعلان کر رکھا ہے‘ دوسری جانب لگتا ہے حکومت نے سانحہ ماڈل ٹائون سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اگر عوامی تحریک کو ایک خاص حد کے اندر حکومت اجازت دیتی کہ وہ یوم شہدا منائیں اور ا ن کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ نہ کرتی تو شاید ان کی جانب سے اتنا شدید ردعمل نہ ہوتا۔ آج عوامی تحریک کے ڈنڈا بردار کارکنوں کا شہر شہر پولیس سے تصادم ہو رہا ہے اور تادم تحریر ایک کارکن کے شدید زخمی حالت میں جاں بحق ہونے کی اطلاع بھی آئی ہے۔ ہمیں تو یقینا کسی بھی قیمتی جان کے جانے کا افسوس ہوتا ہے لیکن اپنے پیروکاروں کو اذیت اور تکلیف
میں دیکھ کر علامہ صاحب کو اس طرح کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟ یخ بستہ جنوری میں‘ شیرخوار بچوں کی مائوں کا کھلے آسمان تلے دھرنا دینا کس کو بھولا ہوگا۔ خود وہ ایک فائیو سٹار کنٹینر میں بیٹھے انقلاب کی تقریریں کرتے رہے تھے۔ یگانہ کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے ؎
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
علامہ صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تدبر‘ تحمل اور مفاہمت کی کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ لیکن اگر وہ خود ایسا چاہیں تو یہ بپھرا ہوا سمندر پُرسکون ہو سکتا ہے۔ اس پر مگر ضرور حیرت ہوتی جب عوامی تحریک کے کچھ عہدیداروں نے علامہ صاحب کی وہ تقریر سن کر استعفیٰ دے دیا جس میں انہوں نے کارکنوں کو کہا کہ وہ طاقت سے ہر رکاوٹ کا مقابلہ کریں۔ استعفیٰ دینے والوں نے کہا کہ علامہ صاحب کی تقریر سے ہم متفق نہیں ہیں‘ یہ تشدد اور انتہاپسندی کی طرف جانے والا راستہ ہے‘ کاش سوچ کا ایسا در اُن تمام دلوں پر وا ہو جائے جو اس وقت ہر حد سے گزرنے کو بے تاب بیٹھے ہیں۔ وہ حکومت ہو یا پھر طاہرالقادری اور عمران خان کے حامی! کالم کے اختتام تک بارش بھی تھم چکی ہے۔ درختوں کے پتے دُھل چکے ہیں۔ ہوا میں شامل گرد بیٹھ چکی ہے۔ منظر پہلے سے زیادہ روشن اور خوب صورت ہے۔ کاش سیاست کے اس حبس آلود موسم میں بھی معاملات کو سلجھانے والی تدبر اور فہم کی ایک ایسی ہی بارش فریقین کے دلوں پر برس جائے‘ حبس ٹوٹے‘ گرد دُھل جائے اور منظر شفاف اور روشن ہو جائے!