"SQC" (space) message & send to 7575

بدبودار نظام

اسلام آباد کی خوب صورت شاہراہِ دستور ہزاروں احتجاجیوں کے دھرنے کی وجہ سے تعفن زدہ ماحول میں بدل چکی ہے۔ سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر لگے جنگلوں پر تو اب انقلابیوں کے کپڑے سوکھ رہے ہیں۔ اس پر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے کیونکہ سپریم کورٹ‘ پارلیمنٹ عوام کی اپنی ہیں۔ اس پر اگر کپڑے سوکھنے ڈال دیئے تو یہ خوشی کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے تحریک انصاف نے جو نیا پاکستان بنانے کا خواب دیکھ رکھا ہے‘ اس میں کچھ اس قسم کے مناظر بھی شامل ہوں۔ بہرحال اس وقت ریڈ زون ایک بدبودار علاقے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک خبر کے مطابق حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان جوں جوں تنائو اور بداعتمادی کی فضا بڑھتی جا رہی ہے‘ دھرنے والے کسی سرکاری سینٹری ورکر کو وہاں کام کرنے کی اجازت دینے سے انکاری ہیں۔ یوں سی ڈی اے کو مجبوراً اپنے سینٹری ورکروں کو کام سے منع کرنا پڑا۔ یہ تعفن اور بدبو جو شاہراہ دستور سے اٹھ رہی ہے، دراصل ایک علامت ہے اس تعفن کی جو ہمارے پورے نظام میں موجود ہے۔ اس نظام میں جگہ جگہ کرپشن‘ بددیانتی‘ اقربا پروری‘ بے انصافی‘ جھوٹ‘ دھوکہ دہی کے Garbarge heap پڑے ہیں۔ اہل اقتدار‘ اہل اختیار اور ذمہ داران نے بروقت اس گند کی صفائی نہیں کی‘ یہی وجہ ہے کہ اب ڈھیر سے بدبو اٹھ رہی ہے۔ لوگ کب تک ناک منہ لپیٹے بدبودار نظام میں زندہ رہیں گے‘ آخر ایک دن تو ان کی برداشت بھی جواب دے گی۔ اس وقت عوامی تحریک کے دھرنے میں موجود لوگ انہی لوگوں کے نمائندہ ہیں جو اس گھٹن زدہ تعفن سے تنگ آ چکے ہیں۔ 
بدبو کی شدت کو کم کرنے کے لیے عرق گلاب کے چھڑکائو جیسے عارضی حل تو ہوتے رہے ہیں ،جس سے وقتی طور پر کوئی تبدیلی نظر آتی ہے لیکن حقیقت حال نہیں بدلتی۔ اس کے لیے اس گند کا صفایا کرنا ضروری ہے۔ عوامی تحریک کے دھرنے میں شریک احتجاجیوں کی مستقل مزاجی‘ نظم و ضبط اور برداشت قابل تحسین ہے جو گزشتہ پندرہ سولہ روز سے دھرنے میں موجود ہیں۔ ان میں عوامی تحریک کے چودہ بے گناہ مقتولوں کے لواحقین بھی ہیں جو حکومت سے اپنے پیاروں کے خون کا حساب مانگ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ٹھیک ہے مگر اپنے مقصد کے حصول کا طریقہ درست نہیں۔ آخر یہ اس بدبودار نظام ہی کا کیا دھرا ہے جہاں عوام کی جان و مال‘ حکومت کی طاقت اور رعونت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اہل اقتدار پر کسی آئین اور کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ ہر اصول اور ضابطے کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے حق میں موڑنا جانتے ہیں۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماڈل ٹائون میں‘ 17 جون کو عوامی تحریک کے چودہ کارکن پنجاب پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ پچاس سے زائد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبے کے انتظامی سربراہ وزیراعلیٰ شہبازشریف ہیں۔ افسوسناک حادثے پر وزیراعلیٰ لاعلمی اور لاپروائی کا اظہار کرتے ہیں تو اس پر کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں حکومتیں ایسے سانحوں کو دبانے کا ہنر بھی خوب جانتی ہیں لیکن بھلا ہو آزاد میڈیا کا جس کے کیمروں نے اندھوں کو بھی سچ اور جھوٹ دکھا دیا۔ شفاف ایف آئی آر کے اندراج میں بھی یقینا یہ تعفن زدہ نظام حائل تھا‘ جو طاقت اور اہل اقتدار کو سلام کرتا ہے۔ جو بے بس مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے طاقتور ظالم کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے اس سانحے کی ذمہ داری سے صوبے کے وزیراعلیٰ کو مبرا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی تحریک کے کارکنان احتجاجی دھرنے میں ڈٹے ہوئے ہیں ،دیکھیے کہ وہ کس حد تک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ فی الحال حکومت اور علامہ طاہرالقادری میں مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں اور آج یعنی 28 اگست کو قادری صاحب نے یوم انقلاب کا اعلان کر رکھا ہے۔ کل تک امید ہے صورت حال واضح ہو جائے گی۔ دوسری جانب عمران خان کنٹینر میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ عمران خان کے مطالبات میں سب سے اہم مطالبہ انتخابی اصلاحات کا ہے۔ دھونس‘ دھاندلی اور ناانصافی پر مشتعل نظام میں شفاف انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کوئی ایسی پریکٹس نہیں،جو چھپ کر کی جائے۔ ہر انتخاب سے پہلے عبوری حکومت کے دوران اپنی پسند کی بھرتیاں کروائی جاتی ہیں‘ بیوروکریسی کے ذمہ دار افسروں سے لے کر علاقے کے ایس ایچ اوز تک اپنی مرضی کے لگوائے جاتے ہیں۔ پری پول رگنگ اور کسے کہتے ہیں؟ ووٹ ڈلوانے اور ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کروانے تک اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے کئی حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد‘ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے۔ اس متعفن نظام کی جمہوریت بھی بدصورت اور بدبودار ہے۔ یہاں جمہوریت سیاسی اشرافیہ کی مفادپرستی کا دوسرا نام ہے۔ جمہوریت ایک ایسا انتقام ہے جو عوام سے لیا جاتا ہے اور عوام بے چارے اس مملکت خداداد میں سانس لینے کی سزا تمام عمر بھگتتے ہیں۔ یہاں جمہوریت کے ثمرات یہ ہیں کہ ایک کمرے پر مشتمل ایک بلب جلانے اور ایک پنکھا چلانے والے غربت زدہ گھروں کو ہزاروں روپے کے بجلی کے بل آئیں۔ غریب اس ظلم پر ماتم کرتے رہیں اور حکومت بجلی میں اضافے کے نئے نوٹیفکیشن جاری کرتی رہے۔ غربت بڑھے‘ خودکشیاں بڑھتی رہیں اور حکومت جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگاتی رہے۔ 
کرپشن‘ بددیانتی اور ناانصافی سے اٹا یہ نظام متعفن ہو چکا ہے ۔ انتخابی دھاندلی سے لے کر مقتولوں کی ایف آئی آر درج نہ ہونے تک‘ اس نظام پر اٹھنے والے بہت سے سوالات نے عوام کو یہ شعور دینا شروع کیا ہے کہ اس بدبودار نظام کو بدلنا ہوگا۔ دھرنے والوں کو اس کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے۔ 
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان نے ایشیا کے سب سے بڑے سوشل ویلفیئر پروجیکٹ پر کام کر کے ہزاروں خستہ حال لوگوں کی زندگیاں تبدیل کیں۔ ایک انٹرویو میں صحافی نے ان سے پوچھا آپ اپنی زندگی کے اس اہم پروجیکٹ کو کیسے ایک لائن میں بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر حمید خان نے چند لمحے توقف کیا پھر بولے ''میری کامیابی یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کی زندگی میں موجود گندگی کو بدبو دی‘‘۔ جی ہاں ،گندگی کو بدبو دے کر ہی ڈاکٹر اختر حمید خان نے اورنگی میں رہنے والوں کو ان کے ماحول کی بدصورتی کا احساس دلا کر اسے صاف ستھرا اور خوب صورت بنانے پر آمادہ کیا۔ 
عمران خان اور طاہرالقادری کی تقریروں نے نظام پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کاش ہم بھی یہ شعور پا کر اس گلے سڑے نظام کو انصاف پر مبنی‘ غریب دوست نظام میں بدلنے کے سفر کا آغاز کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں