مرحوم تابش دہلوی کا ایک خوبصورت شعر ہے ؎
جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے کوئی مدمقابل نہیں رہا
اپنے آپ کو شکست دینا دراصل اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کا نام ہے۔یہ یقینا ایک بڑا نام ہے کیونکہ فطری طور پر ہر شخص نرگسیت پسند اور اپنی ذات کی محبت کا اسیرہوتا ہے مگر ایک قومی رہنما‘جسے ماننے والے لاکھوں لوگ ہوتے ہیں اگر وہ صرف اپنی ذات کا غلام ہو جائے ‘ اور اپنی انا کے آئینے سے معاملات کو پرکھنے لگے تو پھر زوال اس کا مقدر ہو کر رہتا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں اور وزیر اعظم نواز شریف ‘سیاسی رہنما ہیں۔دونوں کی ایک سیاسی جدوجہد ہے اور سیاسی معاملات میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہونا چاہیے۔انتہا پسندی اور ہٹ دھرمی کے تباہ کن رستے کی بجائے مفاہمت اور سمجھوتے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔لچکدار رویے سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔مسئلے کو سلجھانے کے لیے مکالمہ کرنا چاہیے۔لیکن یہاں حالات مختلف ہیں۔دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اڑے معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھا رہے ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ انا اور ہٹ دھرمی کی ڈھلان پر بیٹھنے سے اب زوال کی جانب گامزن ہیں۔سیاسی قائدین کی حیثیت سے دونوں رہنمائوں کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔عمران خان کو تو خود اپنی پارٹی کے اندر بے شمار اختلافات کا سامنا ہے۔ استعفوں کے معاملے پر بھی پی ٹی آئی کے تمام اراکین اسمبلی ان کے ساتھ نہیں۔ایک طرف رکن قومی اسمبلی گلزار خان‘ناصر خٹک اور مسرت
زیب کی استعفیٰ دینے پر مخالفت سامنے آئی ہے تو دوسری طرف خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان کے ارکان قیادت کے فیصلوں پر غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔پارٹی کے اندر اختلافات کی کئی کہانیاں جنم لے رہی ہیں جو یقینا وقت کے ساتھ کھل کر سامنے آ جائیں گی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر بھی عمران خان نے اپنے امیج کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔2012ء اور 2013ء میں تیزی سے عروج کی طرف گامزن پاکستان تحریک انصاف اپنے ہی چیئرمین کے طرز سیاست کی بدولت اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔خیبر پختونخوا کے عوام نے اے این پی کے طرز حکومت کو رد کر کے پاکستان تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا۔2013ء کے الیکشن میں صوبے کے عوام نے عمران کے حق میں ووٹ دے کر دہشت گردی کے عذاب سے دوچار صوبے کی قسمت سنوارنے کے لیے عمران خان پر اعتبار کیا۔اپنی تمام امیدیں تحریک انصاف پر لگائیں ۔ اور قدرت نے بھی عمران خان کو ایک آزمائش سے گزرتے ہوئے صوبے کی حکومت دے کر ایک موقع دیا کہ وہ یہاں پر نئے پاکستان کے خواب کو تعبیر دیں۔اس صوبے کو مسائل سے نکالنے اور اسے ایک ماڈل صوبہ بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیں۔لیکن ان تمام امیدوں کا جو حشر ہوا وہ اب سب کے سامنے ہے۔عمران خان کی ترجیحات کی فہرست میں خیبر پختونخوا کہیں نہیں ہے۔ان کے بیانات اور عمل کا تضاد کھل کر سامنے آ چکا ہے۔دھرنوں کی سیاست ‘انقلاب کے نعرے بلند بانگ‘ اور تبدیلی کے کھوکھلے دعوے اور حد تک عوام کا دل لبھا سکتے ہیں۔ کپتان خان کا جو بت ان کے چاہنے والوں نے تراشا تھا‘ وہ اپنے خدوخال اور
کشش تیزی سے کھو رہا ہے۔اور اب تو پی ٹی آئی کے پارٹ ٹائم دھرنے میں بھی اسلام آباد راولپنڈی اور مضافات کے دیہاڑی دار‘ اور شغل میلہ کرنے والے طالب علم اس لیے آ جاتے ہیں کہ مفت کے کھانے اور منرل واٹر کی بوتلوں کے ساتھ لطف اندوز ہوا جائے۔اگر کپتان اپنے انا کے خول سے باہر نکل کر دیکھیں تو اندازہ ہو کہ دھرنے میں ان کے نظریاتی حمایتی کتنے ہیں اور مفت کا شغل میلہ کرنے والے کتنے ؟
اس وقت جمہوریت اور سیاست کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے۔وہ کچھ اور قائدین کو بھی زوال آشنا کرنے والا ہے۔وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ان میں سرفہرست ہیں۔ 2008ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک قومی سانحہ تھا۔ان کے جانے سے سیاسی منظر نامے پر ایک خلا پیدا ہو گیا مگر میاں محمد نواز شریف کی اس وقت پاکستان کی سیاست میں موجودگی سے بلا شبہ سیاسی منظر
نامے کو وقار ملا ۔قیاس یہی تھا کہ سات سال کی جلاوطنی کے بعد دوبار وزیر اعظم پاکستان رہنے والے میاں نواز شریف کے سیاسی تدبر اور معاملہ فہمی میں اضافہ ہوا ہو گا۔کئی موقعوں پر میاں صاحب کے تدبرانہ فیصلوں اور مفاہمت پسند سیاسی رویوں نے اس حسن ظن کو مزید تقویت دی۔وقتاً فوقتاً ‘قومی مسائل پر ان کی فکر مند گفتگو بھی یہ پتہ دیتی تھی کہ اب کی بار اقتدار ملا تو وہ بہترین طرز سیاست سے اس قوم کے دل جیت لیں گے۔لیکن یہ سب گمان ہی رہے۔ دھرنوں کی سیاست سے پیدا ہونے والا موجودہ ڈیڈ لاک میاں صاحب کی روایتی انداز سیاست کی دین ہے۔جب عمران خان نے چار حلقوں میں انتخابی دھاندلی کی شفاف تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تو میاں صاحب کو فواً یہ آئینی اور جمہوری مطالبہ ماننا چاہیے تھا۔نہ جانے اپنی گفتگو میں قانون اور انصاف کی بات کرنے والے‘ اپنے طرز عمل میں کیوں مفاد پرستی کو اصولوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ اور پھر بات بڑھتی بڑھتی ریڈ زون میں دھرنا دینے تک پہنچ گئی 17جون کو پنجاب کے دارالحکومت میں‘ سرکاری پولیس کی گولیوں سے عوامی تحریک کے 14بے گناہ ہلاک ہوئے۔عوامی تحریک طرف سے مطالبہ تھا کہ شہباز شریف استعفیٰ دیں۔معاملے کی شفاف تحقیقات ہوں اور ذمہ داران کو سزا ملے۔مگر یہاں تو ایف آئی آر بھی درج ہونے میں ڈھائی مہینے لگ گئے اور معاملہ سدھرنے کی بجائے بگڑتا گیا۔
اگر میاں نواز شریف پارٹی مفاد اورذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر قانون اور انصاف کے مطابق چلتے تو خود وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو سانحے کی شفاف اور انصاف پر مبنی تحقیقات تک منصب چھوڑنے کا کہنے سے ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوتا۔لیکن بات یہ ہے کہ اگر قانون آئین‘انسانی حقوق کا یہ احترام ان کے دل میں موجود ہوتا تو پھر کبھی 17جون کا سانحہ ہونا ہی نہیں تھا۔
عوامی مسائل پر بات ہو تو خود انحصاری کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف دہلیز پر گھٹنے ٹیک دیے اور اب آئی ایم ایف کے شرائط پورا کرتے ہوئے مہنگائی سے بلبلاتی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی بڑھایا اور بجلی کے نرخوں میں بھی آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔عوامی مسائل سے یہ پہلو تہی حکمرانوں کی مقبولیت کو تیزی سے کم کر رہی ہے۔ اقتدار میں آ کر اپنے ہی خاندان اور برادری کے چوراسی افراد کو اہم ترین عہدے دے کر حکمران خاندان کو اپنی ہی پارٹی میں اختلافات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
موجودہ بحران پتہ دیتا ہے کہ خالص سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی بجائے فوج کی طرف دیکھنا میاں نواز شریف کی حکومت کی کمزوری ہے۔غلط فہمیاں اور الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔ انا پرستی‘مفاد اور ضد کی سیاست نے نہ صرف ملک کو ہیجان اور بحران سے دوچار کر رکھا ہے بلکہ اس طرز سیاست نے دونوں کے سیاسی عروج کو کم ہی عرصے میں گرہن زدہ کر دیا ہے۔منیر نیازی کس تاسف سے کہتا ہے ع
ہے اس کے بعد عہدِ زوال آشنا منیر...!
کاش دونوں رہنمائوں کو زوال کے اس سفر کا اندازہ ہو سکے۔