"SQC" (space) message & send to 7575

سیلاب اور کرپشن کا سیلاب

دھرنے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اگرچہ ابھی جاری ہے‘ مگر عوام اور میڈیا کی دلچسپی، اس میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ میڈیا کا پیٹ بھرنے کو سیلاب کی تباہ کاریاں کافی ہیں۔ جس طرح ہر سال اگست اور ستمبر کے مہینے میں مون سون کی بارشوں اور ممکنہ طور پر سیلاب کا خدشہ ہوتا ہے‘ اس برس بھی یہ خدشہ موجود تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے ہاں اس آفت سے نمٹنے کے لیے چونکہ کوئی تیاری نہیں کی جاتی‘ سو اس بار بھی اس روایت پر پوری طرح عمل ہوا۔دھرنوں اور احتجاج سے دبائو میں آئے وزیراعظم نوازشریف کے لیے سیلاب '' سینس آف ریلیف‘‘ لے کر آیا۔ یہ بات آپ کو شاید عجیب لگے لیکن واقعتاً ایسا ہی ہے؛ کیونکہ سیلاب غربا کی تباہی اور بربادی لاتا ہے اور ہمارے ہاں غربت پر سیاست کی جاتی ہے۔ یاد رہے صرف سیاست کی جاتی ہے ان کے مسائل نہیں حل کئے جاتے۔ سو سیلاب نے وزیراعظم کو ایک موقع فراہم کردیا کہ وہ خصوصی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر‘ سیلاب کے پانیوں میں گھرے ‘ ڈوبے ‘ تباہ حال غریبوں کے پاس جائیں اور ایک عوامی مقبول رہنما کا تاثر پیش کریں۔ اس تاثر کی آڑ میں دھرنے والوں کو بھی سمجھائیں کہ احتجاج چھوڑ کر اس نیک کام میں شریک ہوں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ سیلاب کی آمد کا پتہ ہی نہیں چلا اچانک آ گیا۔ جبکہ محمد ریاض جو چیف میٹرولوجسٹ ہیں بیان دیتے ہیں‘ جولائی ہی میں بے تحاشا بارشوں اور ممکنہ سیلاب کے خدشے سے آگاہ کردیا تھا مگر متعلقہ اداروں نے اس پیش گوئی کو اہمیت نہیں دی۔ یہ بھی یہاں کی پرانی روایت ہے۔ بنوں جیل پر دہشت گردوں کا حملہ بھی‘ اداروں کی ایسی ہی لاپروائی کا نتیجہ تھا۔ انٹیلی جنس اداروں نے ممکنہ حملے کی نشاندہی کردی تھی۔ متعلقہ اداروں کے آپس میں رابطوں کے فقدان اور دیرینہ لاپرواہی کی بدولت حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ سیلاب اگرچہ قدرتی آفت ہے۔ انسان کے بس میں نہیں کہ اس پر قابو پایا جائے یا اسے روکا جائے لیکن حفاظتی اقدامات کر کے‘ جانی اور مالی نقصان کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ دریائوں کے کناروں پر آباد کچھ بستیاں ہر سال ہی سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں‘ وہاں ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں کہ حکومت کے خصوصی فنڈ سے کچے مکانوں کو مضبوط پکے مکانوں میں بدلا جائے اور اس بستی کی آبادکاری کو اس انداز میں ڈھالا جائے کہ سیلاب آنے پر پورے پورے مکانات مسمار نہ ہونے پائیں۔ دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں جہاں بارشیں اور سیلاب تواکثرآتے ہیں وہاں نقصان کو کم کرنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ملائیشیا میں واٹر ٹنل پروجیکٹ 2010ء میں شروع کیا گیا۔ یہ ایک حیرت انگیز منصوبہ ہے جس میں واٹر ٹنلز کی مدد سے بارشوں کے پانی کو مخصوص آبی ذخائر تک پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں اس پانی کو مختلف پراسس سے گزار کر آبپاشی اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ واٹر ٹنل پروجیکٹ سے پہلے بارشوں کا یہی سلسلہ سیلاب کا باعث بنتا تھا۔ اس پانی کو اسی لیے فلٹر واٹر کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔ یونیسف نے جرمنی کے ایک ادارے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی مدد سے بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے اور قابل استعمال بنانے کے پراجیکٹ پر کام کیا ہے۔ کمیونٹی کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو بھی اس کی تربیت دی گئی ہے۔ چین‘ برازیل‘ انڈیا‘ انڈونیشیا میں بھی بارش کو پانی کے متبادل ذرائع کے طور پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ زراعت‘ آبپاشی‘ کپڑے دھونے اور پینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب دنیا نے اپنے مسائل کا حل نکال لیا تو ہم کیوں ہر سال سیلاب کی وہی تباہ کاریاں کسی ڈرامے کی Repeatٹیلی کاسٹ کی طرح دیکھتے ہیں۔ ہر سال ایک ہی کہانی دہرائی جاتی ہے‘ ہر سال کسی ماں کا سینت سینت کر
جوڑا ہوا بیٹی کا جہیز‘ سیلاب کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہر سال غریبوں کے کچے گھر لہروں میں بہہ جاتے ہیں‘ کئی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ پھر امدادی کارروائیوں کے آغاز سے کرپشن کی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ امدادی سامان کے متاثرین تک کا راستہ کرپشن اور بددیانتی کے سپیڈ بریکروں سے اٹا ہے۔ متاثرین کے نام پر آنے والی امدادی رقوم کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ کتنی رقم جمع ہوئی، کہاں خرچ ہوئی، حکومت کی طرف سے بھی دھڑا دھڑ اعلانات ہوتے ہیں مگرکوئی مثبت نتیجہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ ابھی 2010ء کے سیلاب کے متاثرین مکمل بحال نہیں ہوئے۔ طریقہ کار اور نظام میں کئی کوتاہیاں موجود ہیں‘ جب تک ان کا سدباب نہیں ہوتا تعمیر نو اور بحالی کا کام انجام نہیں پا سکتا۔ یہاں ترجیحات ہی غلط ہیں۔ آثار قدیمہ کی عمارتیں جہاں انسان نہیں بھوت پریت بسیرا کرتے ہیں‘ ان کی بحالی پر سرکاری فنڈ سے کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے مگر شہر کی خستہ حال مسجدیں‘ گھر اور دیگر عمارتیں جہاں انسان بستے ہیں اُن کی مرمت کے لیے کوئی سرکاری فنڈ نہیں۔ لاہور میں داروغہ والا کی خستہ حال مسجد منہدم ہونے سے 24 نمازی شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ اس شہر میں سینکڑوں ایسے خستہ حال مکان ہیں جہاں بسنے والے غریب شہری‘ اپنی جیب سے اپنی چھتوں کو مضبوط بنانے کام نہیں کروا سکتے‘ بارشیں ہوتی ہیں تو ایسی ہی خستہ حال چھتیں گرتی ہیں لوگ مرتے ہیں۔ پھر وزیراعلیٰ مرنے والوں کے لیے امداد کا اعلان کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ سسٹم ایسا بنایا جائے جس کے تحت ایسے خستہ حال مکانوں کی نشاندہی ہو اور سرکاری فنڈ سے ان کی مرمت کے کچھ اقدامات کیے جا سکیں۔ 
کل وہاڑی میں بھی انتہائی افسوناک واقعہ ہوا۔ سرکاری ہسپتال سے آکسیجن ختم ہونے پر کتنے معصوم پھول کملا گئے۔ یہ ہے سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال جہاں شیرخوار بچوں کی نرسری جیسے حساس شعبے میں آکسیجن کا بروقت انتظام نہیں کیا جاتا۔ انصاف‘ احتساب اور قانون اگر موجود ہوتا تو ذمہ داروں کو بھی ڈر خوف ہوتا‘ جہاں پیسے اور سفارش سے مائونٹ ایورسٹ جیسے مسئلے حل ہوتے ہوں وہاں کسی قانون کا کیا ڈر؟ چند روز کی معطلیاں اور تبادلے مسائل کا حل نہیں ہوتے۔ سیلاب کے متاثرین کی بحالی کے لیے مسلسل جانفشانی اور دیانتداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ متاثرین کے نام پر آنے والی امداد اور پیسہ مستحقین تک پہنچنے سے پہلے نہ جانے کن کن جیبوں کو گرم کرے گا۔ 2010ء کے سیلاب میں ڈونر ملکوں برطانیہ‘ آسٹریلیا نے امدادی رقم کی دوسری قسط اس لیے روک لی تھی کہ امدادی رقم کی پہلی قسط کا شفاف آڈٹ متعلقہ محکمے نہیں پیش کر سکے۔ ایسے حالات میں جہاں حصہ وصول کرنا‘ حق سمجھا جائے وہاں متاثرین کی بحالی کے لیے انہیں کرپشن کے سیلاب سے بھی بچانا ہوگا! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں