"SQC" (space) message & send to 7575

پرانے پاکستان کی بھی خبر لیں

گھر میں مرگ ہو تو جشن منانے کا خیال کیسے آ سکتا ہے؟میرے وطن کے لاکھوں لوگ سیلاب کی صورت میں آنے والی قدرتی آفت سے نبرد آزما ہیں۔تباہی‘ بربادی ‘بے گھری‘ بے بسی‘اور بے کسی کے المناک مناظر کا ایک سلسلہ جاری ہے۔قیامت کی اس گھڑی میں عمران خان آج شام (ہفتہ13ستمبر) کو جشن منانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وہ بدقسمت جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بسے بسائے گھر‘سیلابی ریلوں میں ڈھے گئے‘ جن کے اپنے پانی کی زور آور لہروں نے نگل لیے اور وہ انہیں بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکے‘چاولوں کی ایک پلیٹ کے منتظر ہیں۔مائیں‘ بیمار بچوں کو گود میں لیے کسی مسیحائی کی منتظر ہیں‘کوئی دوا‘ دارو کرے کہ ان بیمار بچوں کو آرام آئے۔متاثرین سیلاب نہ جانے اذیت اور تکلیف کی کس کس گھڑی سے گزرتے ہیں۔ جن کی عمر بھر کی کمائی ‘لمحوں میں اجڑ جائے‘ان کے لیے قیامت صغریٰ اور کیا ہو گی۔ ایسے کڑے اور مشکل وقت میں ایک قومی رہنما کا کردار کیا ہونا چاہیے،اس پر تحریک انصاف کی قیادت کو غور کرنا چاہیے اور اگر احتساب کا کوئی نظام پارٹی میں موجود ہے تو اس کو بروے کار لا کر پارٹی قیادت کو ان کی کوتاہی اور بے حسی کا احساس دلانا چاہیے۔
حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان کس وقت جشن منانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ویسے تو جشن ہر رات وہاں ہوتا ہے۔پرجوش کارکنوں کا ہجوم‘اور انقلابی گیتوں کی دھن یقینا ایک جشن کا ساسماں پیدا کر دیتی ہے۔ تاہم ملک پر بیتنے والی قیامت سے ایک قومی رہنما کا اس طرح لاتعلق رہنا‘ انتہائی افسوس ناک ہے۔اس سے پہلے پشاور میں آنے
والی طوفانی بارشوں میں بھی وہاں ہلاکتیں ہوئیں‘مکانات تباہ ہوئے‘ مگر پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ دھرنے میں رقص فرماتے رہے۔ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے ہوں اور عملی طور پر کارکردگی اتنی مایوس کن ہو تو پھر وہ آوازیں جو آپ کے حق میں اٹھ رہی ہیں وہ بھی آنا بند ہو جائیں گی۔ہر حالات کا تقاضا مختلف ہوتا ہے۔آپ نے پورا مہینہ احتجاج کیا‘دھرنا دیا۔ سوائے ایک استعفیٰ والے مطالبے کے‘باقی تمام مطالبات منوا لیے جو یقینا ایک بڑی کامیابی ہے۔ اور اگر پی ٹی آئی کے انتخابی نظام کی اصلاح کے مطالبات واقعی عملی صورت میں ڈھل کر اداروں کی تشکیل نو کرتے ہیں تو‘ عمران خان کا نام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔سو یہ مطالبات منوانے کے بعد اب دھرنے کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔مگر ایسا نہیں ہو سکا۔پھر سیلاب کی صورت ملک کا ایک حصہ تباہی کی زد میں آیا تو اس وقت عمران خان کو اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی خاطردھرنے کو موقوف کرنا چاہیے تھا۔ اگر اس وقت عمران خان یہ فیصلہ کرتے تو مخالفین کی بھی پذیرائی حاصل کرتے۔اب بھی وقت ہے کہ وہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیں اور اپنے وہ سپورٹرز جنہیں وہ بڑے فخر سے پی ٹی آئی کے ٹائیگرز کہتے ہیں انہیں متاثرہ علاقوں میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بھیجیں تاکہ انہیں بھی پتہ چلیں کہ نیا پاکستان صرف نعرے لگانے اور جوشیلے نغموں پر رقص کرنے سے نہیں بنتا۔ دھرنے پر اٹھنے والی رقم کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے خرچ کریں۔لاکھوں لوگ
بے گھر ہیں‘سینکڑوں دیہات ملیا میٹ ہو گئے ہیں‘ ایسے میں متاثرین کی بحالی ایک بڑا ٹاسک ہے۔جہانگیر ترین بھی اپنے ہیلی کاپٹر کو سیلاب متاثرین کے لیے استعمال کرنے کا اعلان کر دیں۔
نئے پاکستان کو بنانے سے پہلے عمران خان کو اپنی ضد‘ہٹ دھرمی اور انا کے حصار کو توڑ کر نئے عمران خان کو دریافت کرنا ہو گا تاکہ رویے اور سوچ کی لچک سے حالات کے مطالق خود کو عمل پر آمادہ کیا جا سکے۔خدا کے لیے عمران خان اس قومی ذمہ داری کو سمجھیں اور دنیا بھر میں پاکستان کو تماشا نہ بنائیں وہ ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت اور وہاں کے نظام کی مثالیں دیتے ہیں تو وہاں کے قومی رہنمائوں کے رویوں اوران کی سیاست کا مطالعہ بھی کریں۔اگست 2005ء میں امریکہ کے ساحلی شہر نیو اورلینز (New Orleans)میںکترینہ ہری کین نے تباہی مچا دی۔ اس سمندری طوفان کو امریکی تاریخ کا تیسرا بدترین سمندری طوفان کہا گیا ۔اس وقت جارج ڈبلیو بش امریکی صدر تھے جنہیں امریکی تاریخ کا متنازعہ ترین صدر مانا جاتا ہے ۔غلط سیاسی فیصلوں کا اعتراف بش اپنی سوانح عمری میں بھی کر چکے ہیں۔نیو اورلینز میں سمندری طوفان ساحلی شہر سے ٹکرایا تو ‘ امریکہ کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے فوری طور پر ریلیف کا کام شروع کر دیا۔بدترین طوفان میں بھی‘ کم سے کم جانی نقصان ہوا۔لوگوں کو ریسکیو کر کے محفوظ مقام پر پہنچایا گیا ۔جارج بش نے متاثرہ شہر میں تاخیر سے دورہ کیا ۔ا س پر انہیں سخت تنقید سہنی پڑی۔ ایک امریکی تجزیہ نگار نے کہا کہ قومی رہنما کو مصیبت کی گھڑی میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ اس کا پہلا فرض ہے۔اگرچہ امریکہ جیسے ملک میں بے کسی اور تباہی کے ایسے المناک مناظر جنم نہیں لیتے کیونکہ وہاں آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط نظام موجود ہے۔ پھر بھی لوگوں کا اپنے رہنما کو اپنے درمیان دیکھنا ان کے لیے تسلی کا باعث ہوتا ہے۔
عمران خان ذرا سوچیں کہ متاثرین سیلاب میں سے کتنے ہی ایسے ہوں گے جو پی ٹی آئی کے ووٹرز ہوں گے‘جو عمران خان کو مسیحا سمجھتے ہوں گے۔ایسے میں ان کا یہ رویہ عوام کے دلوں میں سے ان کی چاہت اور ہمدردی کو ختم کر دے گا۔
اگر ایسا ہی سیلاب خدانخواستہ خیبر پختونخوا میں آتا‘تو کیا پھر بھی وہ دھرنے اور احتجاج کو جاری رکھتے یا پھر اس وقت عوام کی مدد اور خدمت ہی کو اصل سیاست سمجھتے؟بہترین فوجی حکمت عملی میں صرف سپہ سالار صرف آگے بڑھنے کا فیصلہ ہی نہیں کرتا بلکہ‘ بروقت پیچھے ہٹنے کا فیصلہ بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔
پنجاب کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی نذر ہے‘ اور عمران خاں ایک ضدی بچے کی طرح سیاست کر کے ‘بطور قومی رہنما‘ اپنے امیج کو خراب کر رہے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں یہی لوگ جب ووٹ دینے کی قطار میں کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے یہ اہم نہیں ہو گا کہ عمران خان انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے پر کس طرح ڈٹے رہے۔ بلکہ انہیں یہ یاد ہو گا کہ مصیبت کی گھڑی میں ان لوگوں نے ہمارا کتنا ساتھ دیا اور کچھ نہیں تو عمران خان اپنے چارسدہ میں احتجاج کرنے والی‘باپردہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مسائل کا نوٹس لے لیں جو تنخواہیں نہ ملنے پر ڈی سی او چارسدہ کے دفتر کے باہر سراپا احتجاج ہیں۔اعتزاز احسن نے خواب کہا ہے کہ ''عمران خان کم از کم خیبر پی کے وزیر اعلیٰ کو تو رہا کر دیں‘‘تاکہ وہ اپنے صوبے میں جا کر دیکھیں کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہیں نہیں ملیں جنہوں نے اینٹی پولیو مہم میں کام کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔یاد رہے کہ پولیو کے پچیس کیسز اس صوبے میں سامنے آئے جہاں اس پارٹی کی حکومت ہے جس کے کرتا دھرتا نیا پاکستان بنانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ کوئی انہیں بتائے کہ پرانے پاکستان کی بھی خبر لیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں