"SQC" (space) message & send to 7575

چین کا بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی کردار

احمد آباد میں سابرمتی دریا کے کنارے پر دھان منتری نریندر مودی نے چین کے صدر کے ساتھ روایتی ہندوستانی جھولے میں بیٹھ کر تصویر بنوائی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جنوب ایشیائی ملکوں میں اب بھارت‘ چین کی دوستی کا صحیح فائدہ اٹھانے والا ہے۔ بھارتی تجزیہ نگار‘ چینی صدر کے بھارتی دورے کو نریندر مودی کا کریڈٹ بھی قرار دے رہے ہیں اس لیے کہ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مودی نے چین کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کیا اور ریاست گجرات میں چین نے کئی بڑے پراجیکٹس پر کام کیا ۔ اگرچہ چین کے صدر چھ دہائیوں کے بعد بھارت کا دورہ کررہے ہیں لیکن گجرات ایک ایسی ریاست ہے جو کانگرس پارٹی کے دور حکومت میں بھی چین کی دوستی کا دم بھرتی رہی۔
ادھر پاکستان کی داخلی صورت حال کے پیش نظر ، چین کے صدر اپنا دورۂ پاکستان منسوخ کرچکے ہیں۔ دھرنوں کو پانچ ہفتے ہو گئے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ شاہراہ دستور پر دھرنوں کے ڈیرے ہیں۔ خیمہ بستی کا سا منظر ہے جہاں دھرنے کے لیے''بلوائے‘‘ گئے لوگ‘ دن میں کسی طور وقت گزار کر‘ شام ہوتے ہی جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔
حکومتی مشینری اور دھرنے والوں کے درمیان رسہ کشی نے سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ اسی وجہ سے چین کے صدر کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ، اپنا دورہ ترک کرنا پڑا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سارا نقصان، دھرنے والوں کی وجہ سے ہوا، چین کے صدر پاکستان
آکر، اربوں ڈالرز کے منصوبوں کے معاہدے کرنے والے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ فی الحال چینی صدر کا دورۂ پاکستان منسوخ ہونے سے پاک چین تعلقات پر کوئی فرق پڑے گا یا چین نے جن معاہدوں پر پاکستان کے ساتھ معاہدے کرنے تھے ان پر کوئی اثر ہوگا۔ اس لیے کہ چین مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان کے ساتھ رہا ہے ۔ چین میں مصنوعات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اسے پوری دنیا میں منڈیوں کی تلاش ہے۔ پاکستان موبائل فون سے لے کر بچوں کے کھلونے تک چین سے منگواتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس بار یوم آزادی پر میڈ ان چین پاکستانی جھنڈے اور آرائشی جھنڈیاں بکتی رہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بجلی اور گیس کی شدید قلت سے پاکستان کی صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ درآمد کنندگان چین سے سستی چیزیں منگا کر مہنگی فروخت کرکے بھاری نفع کما رہے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔
چینی صدر ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے جنوبی ایشیا کے دورے پر ہیں۔ وہ مالدیپ اور سری لنکا بھی گئے، لیکن بھارت میں کسی چینی سربراہ مملکت کا چھ دہائیوں کے بعد دورہ کرنا یقینا کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت بھی چینی مصنوعات کی بڑی منڈی ہے۔ سو بچوں کے کھلونوں سے لے کر میٹرو ٹرین جیسے میگا پراجیکٹ تک اب سب کچھ میڈان چین ہی ہوگا۔ چین بھارت کے 50شہروں میں میٹرو ٹرین سسٹم شروع کرے گا۔ بلٹ ٹرین کا ایک منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ جبکہ چین بھارت میں انڈسٹریل پارک بنانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ بھارت، چین سے ، پاور سٹیشن اور ٹیلی کام نیٹ ورک کی کیسٹیں بھی منگواتا ہے جبکہ بھارت خام مال کی صورت میں معدنیات اور کپاس چین بھیجتا ہے لیکن یہاں سے کوئی مصنوعات چین نہیں جاتیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ چینی مصنوعات کا سیلاب کمزور معیشت والے ملکوں کی صنعتوں کو بہالے جائے گا۔
چین اپنی مضبوط اکانومی کے بل پر امریکی منڈیوں میں بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کی امریکہ میں براہ راست سرمایہ کاری 14بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ امریکہ کی چین میں کی گئی سرمایہ کاری کا تناسب کہیں کم ہے۔ صرف ایک ریاست کیلی فورنیا نے 2013ء میں چین سے 61بلین ڈالر کی مالیت کا سامان درآمد کیا‘ جبکہ کیلی فورنیا سے چین جانے والی ایکسپورٹ صرف 8ملین ڈالر تھیں۔
اس وقت چین دنیا کا سب سے اہم اور بڑا تجارتی ملک ہے۔ اسی کی بدولت چین‘ امریکہ کی سپرپاور حیثیت میں اب نقب لگا چکا ہے۔ معاشی محاذ پر جھنڈے گاڑنے کے بعد چین اب سیاسی حوالوں سے بھی خطے میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے۔ یہاں تک کہ جنگ زدہ افغانستان میں جہاں امریکہ ہی اصل چودھری ہے اور احکامات پینٹاگون سے آتے ہیں، وہاں بھی چینی کمپنیوں نے کان کنی کے منصوبے کا ٹینڈر حاصل کرلیا ہے۔ اس پر پینٹاگون نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چین کو "Resource hungry china"کہا ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں چین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اس لیے بھی کھٹکتا ہے کہ رواں سال سے نیٹو فوجوں کا انخلا افغانستان سے شروع ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کسی نہ کسی طور افغانستان میں رہے گا‘ ایسے میں چین اور امریکہ کے درمیان مفادات کا ٹکرائو ہوسکتا ہے۔ جس کے اثرات خطے کے دیگر ملکوں پر بھی پڑیں گے۔
اس وقت چین کا کردار ایسے تگڑے شخص کا سا ہے جس سے ہر کمزور‘ دوستی کا خواہاں ہوتا ہے تاکہ وہ اس کی طاقت اور اثرو رسوخ سے فائدہ حاصل کرسکے۔ پاکستان اور بھارت میں اب مقابلے کی دوڑ رہے گی کہ کون چین سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی صورت میں بزنس دوست حکومت ہے تو ادھر پاکستان میں بھی میاں برادران نے تاجر دوست پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یعنی دونوں ملکوں کی حکومتیں معاشی مضبوطی اور کاروباری معاملات کو بڑھاوا دینے کی زیادہ خواہش مند ہیں۔ دونوں ملکوں میں عوام کی 35سے 40 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے رہ رہی ہے۔ 
نریندر مودی بھی میٹرو ٹرین سسٹم ، ماس ٹرانزٹ سسٹم اور انڈسٹریل پارکس جیسے میگا پروجیکٹ اپنے دور حکومت میں شروع کرنا چاہتے ہیں اور میاں برادران بھی عوام کے حقیقی مسائل ، صحت اور تعلیم کی بجائے میگا پروجیکٹس جیسے منصوبوں پر اربوں روپے لگانا چاہتے ہیں۔ ہرگلیمر کے پیچھے بدصورتی بھی چھپی ہوتی ہے۔ چین ایک طرف تجارت‘ معیشت اور صنعت کے میدان میں جھنڈے گاڑ رہا ہے تو دوسری طرف یہی چین‘ فضا کو آلودہ کرنے میں بھی سب ملکوں سے آگے ہے۔ چین کے ایک صوبے میں واقع انڈسٹریل پارک کے اردگرد کی آبادی کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہے۔ افغانستان اور بھارت دونوں ملکوں میں چین اپنے تعلقات کو مضبوط کرکے اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ بیرونی محاذ پر بھی‘ ہم اسی وقت بہتر انداز میں کامیابی سے اپنے کارڈ کھیل سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ملک کے اندر سیاسی استحکام موجود ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں