"SQC" (space) message & send to 7575

بچے سانجھے نہیں ہوتے؟

ہمیں ہمارے بچے راج ہنس دکھائی دیتے ہیں۔ خوب صورت، پاکیزہ ، معصوم اور پوتر...! اس لیے کہ وہ قسمت سے ایک صاف ستھرے اور خوب صورت ماحول میں پل رہے ہیں۔ ان کے لیے مہنگی تعلیم ،کھلونے ، چاکلیٹس ، برگرز، جوائے لینڈ، سب کچھ میسر ہوتا ہے۔
بچے سانجھے ہوتے ہیں۔ یہ بات صرف کانوں کو لگتی ہے یا پھر تقریروں اور کالموں میں دہرائے جانے کے لیے ہے۔ کیونکہ حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ حقیقت کی دنیا میں ہم سب اپنے اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ان تھک تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ہمارے بچے ، جو راج ہنس جیسے پاکیزہ اور معصوم ہیں۔ جو تازہ گلاب کی طرح خوب صورت ہیں۔ ہم نے کبھی احساس کی آنکھ سے راج ہنسوں جیسے ان راج مزدوروں کو نہیں دیکھا، جو کونپل جیسے نرم ہاتھوں سے راج مزدوری کرتے ہیں، اینٹیں ڈھوتے ہیں۔ ہوٹلوں پر برتن صاف کرتے ہیں۔ اوئے چھوٹے کی آوازیں سن کر ننھے ننھے قدموں سے بھاگے چلے آتے ہیں۔ گرم گرم چائے پیش کرتے ہیں۔ کھانا سرو کرتے ہیں۔ خود ان کا پیٹ نہ جانے کتنے گھنٹوں کی بھوک سہہ رہا ہوتا ہے، مگر سخت گیر مالک کے سامنے وہ اس کا اظہار تک نہیں کرسکتے ۔ ہم نے احساس کی آنکھوں سے کوڑے کے ڈھیر پر بلی کی طرح چلنے والا بچہ نہیں دیکھا جو اس ڈھیر سے کھانے کو کچھ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ کل 20نومبر کا دن تھا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمیشہ کی طرح وہی روایتی تقریبات ،گھسی پٹی تقریریں ... اور درد بھرے لہجے میں یہی کہا گیا کہ بچے سانجھے ہوتے ہیں۔
اس دن کو مناتے ہوئے دنیا کو 25سال ہوگئے ہیں اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ بچوں کے لیے یہ دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ اور خوفناک ہوچکی ہے۔ آج زندگی ان بچوں کے لیے تو غیر محفوظ ہے ہی جو کم وسیلہ ، غربت زدہ ، جنگ زدہ ماحول میں جی رہے ہیں بلکہ محفوظ اور وسائل سے آراستہ ماحول میں پرورش پانے والے بچے بھی ایسے ماحول سے ضرور متاثر ہوتے ہیں، جہاں معاشرے میں انتہا پسندی، اور دہشت گردی کے عناصر موجود ہوں۔ جہاں سکولوں ، ہسپتالوں اور مسجدوں پر خودکش حملے ہوتے ہوں وہاں بچوں کی نفسیات ضرور متاثر ہوتی ہے۔ یہ تو ان بچوں کی بات ہے جو بظاہر محفوظ ہیں مگر اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں مگر ان بچوں کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے جو جسمانی طور پر ہر طرح کے ٹارچر سے گزرتے ہیں۔
چک 59، کوٹ رادھا کشن کا وہ 6سالہ بچہ کیا کبھی زندگی میں نارمل انسان کی طرح جی سکے گا جس نے اپنی آنکھوں سے، اپنے والدین ،سجاد مسیح اور شمع بی بی کے ساتھ وہ سفاکانہ سلوک دیکھا جسے سننے کا اہل درد کویارا نہیں کجا کہ وہ میڈیا کے سامنے اس بھیانک قتل کی کہانی بیان کرتا رہا کہ کیسے انتہا پسند لوگوں کے ہجوم نے گھر میں کام کرتی ہوئی اس کی حاملہ ماں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ بھٹے پر کام کرتے ہوئے اس کے باپ سجاد مسیح کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ پھر دونوں کو بدترین تشدد کے بعد جلتے ہوئے بھٹے میں ڈال دیا۔ اس سفاکانہ منظر کو پنجاب پولیس کے اہلکاروں سمیت سینکڑوں لوگوں نے دیکھا۔ شعلوں کی دیواروں کے پار شہزاد اور شمع کی آہیں اس وقت کسی کو سنائی نہ دیں... یہ 6سالہ بچہ تین بچوں میں سب سے بڑا تھا ،اسی لیے اس پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ظلم کی اس کہانی کو اپنے معصوم لفظوں میں بیان کرسکے ۔دوسرے دونوں بہن بھائیوں کی عمریں چار سال اور پونے دو سال ہیں جبکہ ایک بچہ وہ بھی تھا جسے ابھی اس دنیا میں آنا تھا ،وہ اپنی ماں کے ساتھ ہی شعلوں کی نذر ہوگیا۔
بھٹے پر جبری مزدوری (بانڈڈ لیبر) کرنے والے شہزاد اور شمع کے یہ بچے بدترین افلاس اور غربت کے ماحول میں پرورش پارہے تھے مگر پھر بھی بچپنے کی دہلیز پر ہی، انتہا پسندانہ معاشرے کا یہ کاری وار سہہ کر ان کے لیے نارمل انسانوں جیسی زندگی گزارنا مشکل ہوگا۔ یہ تینوں بچے اپنے نانا کی تحویل میں ہیں اور ڈی سی او قصور کو ان کا سرکاری گارڈین مقرر کیاگیا ہے۔
سرکاری سطح پر پیسوں کی صورت میں ملنے والی تلافی... اور سرکاری گارڈین بھی مل کر معصومیت ، بے فکری، ماں باپ کی انمول محبت کے خزانے کو واپس نہیں لاسکتے، جو لٹ چکا ہے۔ ان کے دلوں میں معاشرے کی اس بھیانک ناانصافی کے خلاف غم و غصہ ایک آتش فشاں کی طرح ہمیشہ موجود رہے گا آتش فشاں ...جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے!
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ناانصافی کی بہت ساری شکلیں رائج ہیں۔ مثلاً صحرائے تھرپار کر میں جنم لینے والے بچے ، جنہیں غذائی قلت کی پیچیدگیاں، غربت اور بیماری جینے کا حق نہیں دیتی۔ اس بدنصیب جگہ پر ہر روز بچے مرتے ہیں، جو زندہ ہیں وہ نحیف و نزار ، بدترین افلاس اور جہالت کے مارے ہوئے!! آج بھی جب صورتحال اس قدر سنگین ہے، سندھ حکومت ان بچوں اور مائوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے کوئی منصوبہ ،کوئی مستقل پالیسی بنانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ اشرافیہ کے احساس سے عاری دلوں میں کوئی ہل چل نہیں ہوتی۔ تھرپارکر اگر پاکستان کا حصہ ہے اور یہاں بسنے والے اگر انسان ہیں تو بچوں کے حقوق کے عالمی دن مناتے ہوئے اور روایتی بیانات داغتے ہوئے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے!
اور شرم تو عالمی امن کے دعویدار اداروں کو بھی آنی چاہیے جنہوں نے 25برس قبل اس دن کے منانے کا آغاز توکیا مگر پھر اسی چھتری کے نیچے جنگوں میں بچوں کے قتل عام کی اپنی مجرمانہ خاموشی سے اجازت دی۔ اسرائیلی فوجیوں 
کی غزہ پر حالیہ جنگی چڑھائی میں تو خصوصاً معصوم بچوں کو نشانہ بنایاگیا۔ یونیسف کے اعدادو شمار کے مطابق اس جنگ میں 469فلسطینی بچے شہید کیے گئے۔ تین ہزار بچے شدید زخمی ہوئے اور جسمانی خراش سے بچ جانے والوں پر ذہنی خراشیں اس قدر آئیں کہ 370ہزار بچے سائیکو سوشل فرسٹ ایڈ لینے پر مجبور ہوئے۔25برس پیشتر شاید دنیا بچوں کے لیے اتنی غیر محفوظ اور خوفناک نہ تھی جتنی آج ہے کیونکہ اس وقت آج کی طرح انتہا پسندی کی جنگ میں معصوم ذہنوں کی برین واشنگ کرکے انہیں خودکش بمبار نہیں بنایا جاتا تھا۔
انتہا پسندی کے شکار معاشرے میں پولیو زدہ بچوں کی تعداد کی طرح معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ سب ایک نارمل روٹین کی طرح خبروں کا حصہ بن کر اگلے روزذہنوں سے محو ہوجاتا ہے، اس لیے کہ جن ذہنوں نے اور جس طبقے نے سوشل ریفارمز کا بیڑا اٹھانا ہے ، ان کے اپنے بچے اس غیر محفوظ دنیا میں بھی محفوظ اور پُرآسائش پناہ گاہوں میں سانس لیتے ہیں۔ اسی لیے تو آپ اپنی قیمتی گاڑی کے چمکتے دمکتے شیشے پر اپنی ناک اور میلے ہاتھ رگڑنے والے بھکاری بچے کو نخوت سے دھتکار دیتے ہیں اور گاڑی میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے بچوں‘‘ کے قدموں میں دنیا کے ہر خوشی ڈھیر کرنا چاہتے ہیں... کیونکہ آپ جانتے ہیں بچے سانجھے ہوتے ہیں، کا تصور اب صرف افسانوں اور کتابی ہے حقیقی دنیا میں شاید یہی سچ ہے کہ بچے سانجھے نہیں ہوتے!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں