اگست کے مہینے میں شروع ہونے والا دھرنا ہنوز جاری ہے۔ معروف اصطلاح میں ہم اسے دھرنے کا سیزن ٹو بھی کہہ سکتے ہیں۔ دھرنا موسم گرما سے اب موسم سرما میں داخل ہو چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں موسم کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا اور شاید دھرنے کی مدت میں بھی۔ ابھی حتمی کچھ بھی کہنا مشکل ہے مگر جس طرح کے گرما گرم بیانات پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان جاری ہیں،ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان سخت میچ پڑنے والا ہے۔
اگرچہ طاہرالقادری بھی بیرون ملک یاترا سے واپس آ چکے ہیں اور غریبان وطن کی قسمت کو بدل دینے والی تبدیلی کی نوید اپنے مخصوص جذباتی انداز میں سنا رہے ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ جب سے انہوں نے پچھلا دھرنا ختم کرتے وقت اپنی الوداعی تقریر میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ دھرنے حکومت کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں، تب سے ان کے احتجاجی جلسوں کا تاثر ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا۔ حکومت کے لیے مسئلہ تو عمران خان ہیں جو کسی طور تھک نہیں رہے اور اپنے مؤقف پر ڈٹے ہیں۔ اس وقت حکومت عمران خان کی 30 نومبر کی کال سے خوف زدہ دکھائی دیتی ہے۔
30 نومبر کے بعد ملک کے حالات کیا رُخ اختیار کریں گے‘ اس پر فی الوقت حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ دھرنے اور احتجاجی سیاست کا ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دھرنے کی کئی ڈائی مینشنزہیں‘ اس کے کئی رُخ ہیں۔ اس کو بیک
جنبش قلم سیاہ یا سفید نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جیسا کہ عموماً ہمارے ہاں تجزیوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ ہمیں بیشتر تجزیہ نگار خواہ وہ ٹی وی چینلز پر بیٹھے‘ سیاسی فلسفہ بگھار رہے ہوں یا پھر اخبارات کے صفحات پر تحریری طور پر اپنے نادر خیالات پیش کر رہے ہوں‘ وہ دھرنے پر دو گروپوں میں تقسیم ہیں۔ یا تو وہ مکمل طور پر دھرنے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں یا پھر ایسے تجزیہ کار جو دھرنے کے مخالف مگر حکومت کے حق میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ اخبارات کی بات کریں تو ایسا رجحان ہمیں اردو اخبارات میں زیادہ نظر آتا ہے۔ جہاں متوازن تجزیے پر جذبات حاوی ہوتے ہیں۔انگریزی اخبارات میں عموماً جذباتی پیرائے سے ہٹ کر متوازن تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے۔
کسی ایک پارٹی کے سیاہ و سفید کی حمایت کرنے والے ہمارے اکثر تجزیہ کار یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چونکہ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی ہوتی ہے تو ایک سیاسی تجزیہ نگار کس طرح اس سے دور رہ سکتا ہے۔ بالکل صحیح کیونکہ وہ بھی انسان ہیں اور اسی معاشرے کے باسی ہیں... لیکن اگر یہ وابستگی ان کو متعلقہ سیاسی جماعت کی کوتاہیاں دیکھنے سے عاری کر دیتی ہے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے کام سے انصاف نہیں کر سکتے۔
کہتے ہیں کہ تصویر کو صحیح انداز میں پرکھنے کے لیے اس کے فریم سے باہر نکال کر اسے دیکھنا پڑتا ہے۔ جبکہ ایسے تجزیہ نگار تصویر کے فریم سے باہر نکال کر تصویر کو دیکھنے کی بجائے خود تصویر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ علم سیاسیات کو انگریزی میں پولیٹیکل سائنس کہتے ہیں اور سائنس میں مفروضے بھی جذبات اور ذاتی پسندناپسند کی بجائے Given Realities کی بنیاد پر ہی قائم ہوتے ہیں اور یہی اصول سیاست کی سائنس پر بھی بدرجہ اتم لاگو ہوتا ہے۔ حالات و واقعات کو چند پیرامیٹرز پر پرکھ اور جانچ کر ہی کسی بھی سیاسی اور سماجی ارتقاء کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ دھرنے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہو رہاہے کہ اگر تجزیہ نگار ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے تو پھر وہ بہت آرام سے‘ بے دھڑک اپنے تجزیے میں تحریک انصاف کے بڑے اور بھرپور جلسے کو ایک ناکام جلسہ قرار دے سکتا ہے۔ اسی طرح عمران خان کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھنے والے عمران خان کو 18 کروڑ لوگوں کا نجات دہندہ قرار دے کر‘ دھرنوں کو ایک عظیم الشان انقلاب کا پیش خیمہ ثابت کرتے ہیں۔ میری رائے میں یہ دونوں ہی مناسب نہیں‘ اس لیے کہ دونوں ہی ایک سیاسی صورت حال کا تجزیہ اپنے جذبات اور ذاتی پسند ناپسند کے آئینے سے دیکھ کر کر رہے ہیں۔
سیاسی صورتحال‘ جامد اور ساکت نہیں رہتی بلکہ ہر لمحہ بدلتی ہے۔ ایک ارتقاء کا عمل یوں بھی معاشرے میں ہمہ وقت جاری رہتا ہے اس چیز کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ہم عمران خان اور طاہرالقادری سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کر لیں مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ ان دھرنوں اور جلسوں میں شریک ہونے والے لوگ اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ لیڈران کے بیرونی ایجنڈے ہو سکتے ہیں مگر خلق خدا کا ایجنڈا سوائے انصاف پر مبنی معاشرے کے اور کیا ہوگا؟ حکومت کے اندر کوتاہیاں موجود ہیں تبھی تو عوام حکومتی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اگر حکومتیں عوامی مسائل سے اتنی مجرمانہ غفلت کی مرتکب نہ ہوتیں تو کیا سرگودھا جیسے شہر میں ایک بڑے ہسپتال میں ننھے بچے اس طرح مرتے چلے جاتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دھرنوں کو رونق بخشنے کے لیے لوگ کرائے پر بھی حاصل کیے جاتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ خلقِ خدا بھی اپنے مسائل‘ اپنے دکھوں سے عاجز آ کر ایسے احتجاجی جلسوں میں خود جاتی ہے۔ انصاف‘ تبدیلی اور انقلاب کے نعرے ان کے کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ رشوت‘ کرپشن سے پاک معاشرے میں زندگی جینے کے خواب انہیں دکھائے جاتے ہیں تو کون اس پر آمین نہیں کہے گا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری جو کچھ کہتے ہیں وہ ایک عام پاکستانی کی آواز ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو سچ کہ محض نعرے لگانے‘ احتجاجی جلسے کرنے اور دھرنے دینے سے سماج میں حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ ایک بہتر معاشرے کی طرف تبدیلی کا عمل ایک مسلسل عمل ہے۔ جس میں ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ دھرنے کے پہلے وار سے حکومت صاف بچ گئی اور حکمران آج تک اسی کے شادیانے بجا رہے ہیں مگر اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ احتجاج اور دھرنوں کے عمل میں خلق خدا کی بے پناہ شرکت سے حکومت کی عوام میں مقبولیت پر زد پڑی ہے اور اب حکومت ایک Defensive End پر کھڑی ہے۔ فرض کریں اگر ملک میں مڈٹرم الیکشن ہوتے ہیں‘ تحریک انصاف حکومت بناتی ہے مگر عوام کو پھر بھی وہ تبدیلی اور وہ انقلاب نظر نہیں آتا جس کے وعدے اور دعوے اب کیے جا رہے ہیں تو اس کڑوے سچ کو وہ پاکستانی کیسے قبول کریں گے جو ان قائدین کو مسیحا سمجھتے ہیں؟ بہرحال ایک متوازن تجزیہ کار کو یہی چاہیے کہ وہ غیر جذباتی انداز میں سچ کو پرکھنے کی کوشش کرے اور ایک متوازن تجزیہ عوام تک پہنچائے۔ غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہے... سوال اٹھاتا رہے!!