سچی دھی پنجاب دی۔ امرتا پریتم، افضل توصیف کو یہی کہا کرتیں۔ خود امرتا پنجاب کی وہ بیٹی ہے جو پنجاب کی لہولہان تقسیم پر کُرلاتی رہی۔ اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ کتوں قبراں وچوں بول۔ افضل توصیف اور امرتا‘ دونوں کا ضمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا تھا۔ ہجرت کا دکھ دونوں کے دلوں میں تیر کی طرح اُترا۔ افضل توصیف سمبلی گائوں ضلع لدھیانہ سے پہلے کوئٹہ اور پھر لاہور میں آن بسیں۔ امرتا اپنی جنم بھومی گوجرانوالہ کو دہلی میں رہتے ہوئے کبھی نہ بھلا سکیں۔ دونوں ایک ہی دکھ کی اسیر رہیں۔ ناسٹیلجیا کی آکاس بیل نے آخیر وقت تک دونوں کی روح کو جکڑے رکھا۔ دونوں کے دل دکھ کی ایک ہی آنچ پر پگھلتے تھے اور درد مشترک کے اسی انمول رشتے نے انہیں بہناپے کی چادر اوڑھا دی۔ اسی لیے حوض خاص دہلی کا وہ گھر جہاں امرتا اور امروز رہتے تھے‘ وہ افضل توصیف کے لیے سرحد پار دوسرا گھر بن گیا۔
وہ جب بھی جاتیں‘ صرف ایک فون کال پر شہر میں موجود نامور ادیب‘ اخبار نویس‘ دانشور‘ امرتا کے گھر موجود ہوتے۔ پاکستان سے کسی ادیب نے امرتا سے ملنا ہوتا تو افضل توصیف کی سفارشی چٹھی کی ضرورت ضرور پڑتی۔ امروز صاحب کے ہاتھ کے پھلکے اور بھاجی کھاتے ہوئے دنیا بھر کا ادب زیر بحث آتا۔ کم پر راضی نہ ہونے والی افضل توصیف کو جب اپنی نئی آنے والی کتاب کے لیے کسی آرٹسٹ کا بنا ہوا‘ ٹائٹل پسند نہ آتا تو امروز بڑی محبت اور عقیدت سے ان کی کتاب کا ٹائٹل بنا کر اس مشکل کو آسان کر دیتے۔ محبت اور عقیدت کا رشتہ اس وقت تک سلامت رہا جب تک کہ افضل توصیف خود بھی اپنی داستان کا ایک گمشدہ کردار نہیں بن گئیں۔ چند سال پیشتر انہوں نے لکھنا‘ بولنا اور لوگوں سے ملنا جلنا بند کردیا تھا۔ اردو اور پنجابی کی 32 بہترین کتابوں کی لکھاری اور اخباروں کے لیے ہزاروں کالم لکھنے والی افضل توصیف کہیں گم ہو چکی تھیں۔ ان کے گوشہ نشینی کے اس دور کو میں نے قریب سے دیکھا‘ پہلے افضل توصیف سے میرا تعلق ایک قاری اور لکھاری کا تھا۔ پہلی ملاقات غالباً 2004ء میں ہوئی تھی جب یہاں لاہور میں کرشن چندر کی صد سالہ تقریب کے سلسلے میں‘ بڑے بڑے لکھاری ایک ہی چھت تلے جمع تھے۔ انتظار حسین‘ منیر نیازی‘ ثمینہ راجہ‘ فہمیدہ ریاض اور افضل توصیف۔ اس وقت اُن کے چند افسانے پڑھ رکھے تھے جن کے جملوں کی کاٹ میرے ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی۔ ہاں اخبار کے کالم بھی پڑھا کرتی تھی۔ اس تقریب کی تصویریں میں نے کیمرے میں محفوظ کر لی تھیں۔ پھر اکثر ادبی تقریبات میں ملاقات ہو جاتی۔ مگر ان کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع تب ملا جب میرے اور ان کے درمیان ایک نیا رشتہ بنا۔ میں انہیں آنٹی توصیف کہنے لگی۔ میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ میں نے پنجابی کی ایک پردھان لکھاری اور اردو کی خوب صورت مصنفہ کے شب و روز کو قریب سے دیکھا۔ حرف و لفظ کے ساتھ ایک مشترک تعلق نے ہم دونوں کے درمیان ساس اور بہو کے روایتی رشتے کو بھی پنپنے نہیں دیا بلکہ اکثر تو کتابوں پر ایسے گفتگو ہوتی جیسے عمروں کے تفاوت کے ساتھ دو ایسے دوستوں میں ہو رہی ہو جن میں سے ایک تو تجربے کی بھٹی سے گزر کر کندن بن چکا ہو اور دوسرا اس تجربے کی آنچ سے کچھ سیکھنے کی کوشش کر رہا ہو، مگر بدقسمتی سے یہ دور بہت مختصر رہا اور رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے Phase میں چلی گئیں‘ جہاں زندگی انہیں اجنبی لگنے لگی، تب وہ اپنی ہی داستان کا ایک گمشدہ کردار بن گئیں۔ جہاں وہ تھیں اور نارسا خوابوں کی وہ گٹھڑی تھی جنہیں قرینۂ تعبیر دینے کے لیے وہ تمام عمر جدوجہد کرتی رہیں۔ قلمی بھی اور عملی بھی... اور اس سفر میں اپنے اصولوں‘ سچائی اور دیانت پر انہوں نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ یہ سارا سفر صحیح معنوں میں اس شعر کی تفسیر تھا ؎
زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں جس کے لیے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لوں
1970ء میں جب پیپلز پارٹی کی اٹھان کا دور تھا‘ وہ بھی اس قبیلے میں شامل ہو گئیں جو سماج میں انقلاب اور بہتری کی خواہش کے لیے بھٹو کے گرویدہ تھے۔ کالج کی سرکاری نوکری کے باوجود‘ انقلاب کے اس رومانس کی خاطر اپنی نوکری اور وجود کو خطرے میں ڈالا۔ بھٹو کی پھانسی کا دور ان جیسے بھٹو گرویدہ لوگوں کے لیے کٹھن ثابت ہوا۔ ''اندھیروں کا سفر‘‘ کتاب اسی دور کی یادگار ہے۔ مگر پھر بے نظیر کی پیپلز پارٹی نے ان کی توقعات کو ایسا دھچکا لگایا کہ 2002ء کے الیکشن میں خواتین کی ریزرو سیٹوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ان کا نام ایم پی اے شپ کی یقینی ضمانت تھا مگر اصولی اختلاف کرتے ہوئے
وہ اس وقت عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئیں جب وہ سنگل سیٹ پارٹی تھی۔ مگر ان کا مسئلہ اقتدار کی کشش نہیں تھا اسی لیے وہ ہر اس قافلے میں خود کو شامل کر لیتیں جس کے بارے میں انہیں گمان ہوتا کہ یہ وہ دیوانے ہیں جو سماج کو سدھاریں گے‘ جو امن‘ انصاف‘ برابری اور تعلیم سب کے لیے کا خواب پورا کریں گے۔ کیونکہ یہی وہ خواب تھا جس نے تمام عمر انہیں متحرک کیے رکھا۔ خود اپنی ذاتی حیثیت میں بھی انہوں نے خاندان کے کئی بچوں کو اپنے پاس رکھ کر انہیں اعلیٰ تعلیم دلائی ‘ ملازمین کے بچوں کے لیے بھی تعلیم کا خصوصی اہتمام کراتیں۔ سکولوں میں داخل کرانا‘ کتابیں لے کر دینا‘ ان کی فیسیں ادا کرنا‘ یہ سب ان کی روٹین کا حصہ تھا۔ وہ لکھاریوں کے اس قبیلے سے تھیںجو اگر قلم کے ذریعے خواب لکھتا ہے تو پھر اس کی تکمیل کے لیے عملی جدوجہد میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ آئرلینڈ کے ڈبلو بی ییٹس اور چلی کے پابلونرورا کی طرح انہوں نے بھی حرف اور لفظ کے شیشے کو سنبھال کربساط بھر سیاست بھی کی اور سماج کے سدھار میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ پنجابی انسٹیٹیوٹ جیسے ادارے کے قیام کے لیے ابتدائی کوششیں کرنے والوں میں شفقت تنویر مرزا اور افضل توصیف کے نام شامل ہیں۔ شادیوں کے لیے ون ڈش اور وقت کی پابندی سے لے کر پبلک لائبریریوں کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے تک‘ انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ آخری وقت میں بھی وہ ایک ایسی لائبریری کے قیام کے لیے کوشاں تھیں جہاں لاوارث کتابوں کو پناہ مل سکتی۔ ان کا کہنا تھا‘ ادیب مر جائے تو اس کی کتابیں گھر والے نہیں سنبھال پاتے۔ وہ فٹ پاتھ پر آ جاتی ہیں‘ جب صفدر میر کا انتقال ہوا تو ان کی بیش قیمت لائبریری کو بھی یہی خطرہ لاحق ہوا‘ بالآخر آنٹی افضل توصیف کی ذاتی کوششوں سے صفدر میر کی کتابوں کے لیے قائداعظم لائبریری میں ایک حصہ مختص کرایا گیا۔
وہ اول آخر‘ ایک لکھاری تھیں‘ ایک جینوئن اور خالص ادیب ۔ تمام عمر احساس کی بھٹی پر سلگتی رہیں۔ اس دھرتی پر بسنے والوں کا درد اپنا جان کر‘ اپنے اندر اتارتی رہیں اور تمام عمر درد کی اسی سولی پر گزار دی۔ ان کے احساس کے اس سفر کا اندازہ ان کی تحریر پر پڑھ کر تو ہوتا ہی ہے مگر کتابوں کے عنوان بھی بہت کچھ بتا دیتے ہیں۔ درد کی دہلیز‘ شہر کے آنسو‘ اندھیروں کا سفر‘ لاوارث‘ ویلے دے پچھے پچھے اور پنجیواں گھنٹہ۔ ان کی کتابوں کے ایسے ہی عنوان ہیں۔ تازہ ترین کتاب ''کیا زمانے تھے کیا لوگ تھے‘‘ اور اپنے وقت کے بہترین ادیبوں‘ دانشوروں کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ یہ خاکے ایک اور ہی گہرائی سے لکھے ہوئے ہیں وگرنہ ہمارے ہاں تو خاکہ لکھا نہیں خاکہ اڑایا جاتا ہے۔ ''کیا زمانے تھے کیا لوگ‘‘ کو اکیڈمی آف لیٹر نے 2010ء کی بہترین کتاب کا ایوارڈ دیا۔ پاکستان اور بھارت سے پنجابی ادب کے تمام قابلِ قدر ایوارڈ انہیں ملے۔ پرائڈ آف پرفارمنس‘ دو بار انکار کے بعد 2011ء میں قبول کیا۔ پڑھنے والوں کی محبتیں ملیں۔ نقادوں سے پزیرائی ملی۔ مگر ایک شے جس نے انہیں اندر سے مار دیا وہ امن کے خواب کی وہ بھیانک تعبیر تھی جو کبھی افغانستان میں ڈیزی کٹر بموں کی صورت میں نظر آتی اور کبھی دھرتی کے گلی کوچوں میں خودکش حملوں میں چیتھڑے بنتے انسانوں کی صورت میں۔ وہ ہر حادثے‘ ہر سانحے کے ساتھ اندر سے تھوڑا تھوڑا مرتی رہیں اور 30 دسمبر 2014ء کو یہ کہہ کر اس دنیا سے سدھاریں کہ ''امن ویلے ملاں گے‘‘ امن کی سدھرانی دنیا سے رخصت ہو گئی۔
(نوٹ: ''امن ویلے ملاں گے‘‘ پنجابی افسانوں کے مجموعے کا نام ہے)