"SQC" (space) message & send to 7575

بے حسی کا طویل موسم

یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں!
موسم کا کام ہی چونکہ بدلنا ہوتا ہے اس لیے بدلے ہوئے مزاج‘ اور بدلے ہوئے انسان کو دیکھ کر موسم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ موسم تادیر ایک جیسا رہے تو اس کے بدلنے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ گرمیاں شدید اور طویل ہوں تو اٹھتے بیٹھتے لوگ دُعا کرتے ہیں موسم بدل جائے‘ اور اگر گھٹا چھا جائے‘ بارش برسنے لگے تو لوگ موسم کا بدلا ہوا رنگ دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔ لیکن اگر انسان موسم کی طرح رنگ بدلنے لگیں تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ادھر ہمارا قومی منظر نامہ بھی ہر وقت موسمی حالات کی زد میں رہتا ہے۔ موسم کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے۔ سیاسی لیڈروں سے لے کر سیاسی منظر نامے تک۔ کچھ بھی موسم کی طرح مستقل مزاج‘ اور دیرپا نہیں۔ شدید موسمی حالات کی طرح سیاسی حالات میں بھی شدت کے موسم آتے رہتے ہیں۔ ابھی اگست سے دسمبر کے وسط تک‘ دھرنے کا موسم رہا۔ بیانات کے جھکڑ اور تقریروں کی آندھیاں عروج پر تھیں۔اسلام آباد کے سرکاری ماحول میں خلق خدا نے ہفتوں ڈیرے لگائے رکھے۔ پسماندہ شہروں کی ثقافت کے ساتھ ساتھ‘ کئی طرح کی کثافت کے رنگ بھی شامل ہو گئے تھے۔ اس موسم میں‘ ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملے کہ نگاہ کی حیرانی نہیں جاتی تھی۔ سپریم کورٹ کی شاندار عمارت کے بیرونی جنگلے پر دُھلے کپڑے سوکھتے رہے۔پریڈ ایونیو سے لے کر پارلیمنٹ کے احاطے تک ‘ ہر جگہ خلق خدا راج کرتی نظر آ رہی تھی۔ریڈ زون میں خیموں کا شہر آباد تھا۔پارلیمنٹ کے نمائندوں کا کروفر اور طمطراق اس عوامی انقلاب کے سامنے سہما سہما سا دکھائی دیتا تھا۔پارلیمنٹ کے اجلاس تک پہنچنے کے لیے انہیں خفیہ راستے استعمال کرنا پڑتے۔اس سارے منظر کو دیکھ کر فیض کی اقبال بانو والی انقلابی نظم بہت یاد آتی رہی۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ جو تم بھی ہو‘اور میں بھی ہوں۔‘‘
دھرنے کا موسم ہر لحاظ سے شدید تھا ۔ اور اس کی شدت سے متاثر ہونے والوں میں ظاہر ہے سرکار اور سرکار کے نمائندے بھی شامل تھے۔ جو اُن دنوں ٹی وی ٹاک شوز میں بھی سہمے سہمے سے دکھائی دیتے۔اس موسم نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔ سٹار پلس کے ڈراموں سے جڑی رہنے والی بیبیاں بھی صرف دھرنا ٹائم سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ انہی دنوں، میں ایک بیوٹی سیلون پر گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ طاہر القادری کی انقلابی تقریر کو موجود خواتین خضوع خشوع سے سن رہی ہیں۔ میری حیرت پر انہوں نے کہا جب سے دھرنا شروع ہوا اب یہاں صرف دھرنا ٹائم ہی دیکھا جا رہا ہے۔ ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ کوئی بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔اسی موسم کی شدت کا اثر ہمارے کچھ تبصرہ نگاروں اور سیاسی تجزیہ کاروں پر بھی زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ وہ اپنی تحریروں اور ٹی وی تقریروں میں بس یہی کہتے نظر آتے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے،صبح گیا یا شام گیا۔ اور کچھ تو دھرنا سیاستدانوں کو
ملک اور قوم کے لیے ہی نہیں ‘ بلکہ انسانیت کا مسیحا سمجھنے لگے تھے۔ اور پھر یہ دھرنا موسم بھی بیت گیا۔ 16دسمبر2014کو پشاور آرمی سکول پر طالبان کے وحشیانہ حملے‘ نے نئے موسم کو جنم دیا۔ اس موسم میں پوری قوم پہلی بار دہشت گردی اور طالبان کے ایشو پر متحد نظر آئی۔ دھرنے کے موسم میں ایک دوسرے کے دشمن سیاستدان اس موسم میں ایک میز پر اکٹھے ہوئے۔ رنج‘ دکھ اور تکلیف کی ایک لہر پورے خیبر سے کراچی تک نظر آئی۔ میڈیا سے مذہبی جماعتوں تک۔ ہر طبقہ ‘ فکر ‘ اس ایشو پر غم زدہ اور متحد تھا۔ سیاستدانوں کے بیانات‘ وزیر اعظم کے اعلانات‘ عمران خان کے بیانات‘ پشاور کے قومی المیہ پر ایک ہی طرح کے عزم کا اظہار کرتے! عسکری قیادت سے لے کر سیاسی قیادت تک سب ایک پیج پر تھے کہ ہمارے نو نہالوں کو وحشیانہ طریقے سے مارنے والوں کو جلدازجلد کیفر کردار
تک پہنچایا جائے۔ شاید اسی وقت خاں صاحب کو بھی خیبر پختونخوا کے اندر دہشت گردی کے اس ناسور کی شدت کا اندازہ ہوا اسی لیے انہوں نے دھرنے کے بعد یہ تاریخی بیان دیا کہ اب تمام توجہ خیبر پختونخوا کی بہتری پر لگائی جائے گی۔ چینلز پر ہمہ وقت اسی قومی المیے سے متعلق رپورٹس اور پیکیج دکھائے جاتے۔ ایک سوگ ایک ماتم کی سی کیفیت کا یہ موسم اس وقت اختتام کو پہنچا جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان شہدائے پشاور کے چالیسویں سے بھی دو ہفتے قبل ‘سنہری شیروانی پہن دوبارہ دولہا بنے۔ لیجیے‘ اب میڈیا میں بس اسی شادی کی گونج تھی۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خاں صاحب کی شادی تھی۔ ہر ہر زاویے سے اسے کور کیا جا رہا تھا۔ پرائم ٹائم کے پروگراموں میں بھی یہی قومی مسئلہ‘‘ زیر بحث تھا۔ رپورٹس اور خبروں کے بیک گرائونڈ میں شادی بیاہ کے گیت‘ ڈھول ڈھمکے‘ اورشوخ و چنچل گانوں کا تڑکا لگایا جا رہا تھا اور لوگ بھی اس تفریح سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ ادھر وزیراعظم میاں نواز شریف بھی خاں صاحب کی زندگی میں آنے والی اس خوشگوار تبدیلی پر بے حد خوش تھے کیونکہ دھرنا ماسٹر کو اب ایک نئی مصروفیت مل چکی تھی۔ دھرنے ‘ سیاسی احتجاج ‘ اور جلسے جلوسوں کا موسم بیت گیا تھا ۔ اور دھرنے کے موسم میں جس طوفان بادِ باراں کا خدشہ تھا وہ ٹل چکا تھا۔ اب راوی حکومت کے لیے چین ہی چین لکھنے کے موڈ میں تھا۔میاں صاحب کے چہرے کا اطمینان بھی اس نئے موسم میں واپس آ چکا تھا۔
لیکن میاں صاحب کو سرکاری محل میں اور عمران خان کو بنی گالا کے حسین ماحول میں موسم کا صحیح اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی۔ اپنی سیاسی زندگی کی معمول کی مصروفیات میں وہ بھول گئے کہ جن بدقسمت والدین کے سنہرے سجیلے ‘ جوان بیٹے ‘ 16دسمبر کی قاتل دوپہر وحشیانہ طریقے سے سکول میں موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے وہ ابھی اسی موسمِ رنج و ملال سے گزر رہے ہیں۔ عمران خان اپنی دلہن کو لے کر آرمی پبلک سکول کے دورے پر جاتے ہیں تو شہید بچوں کی کُرلاتی ہوئی بین کرتی مائیں ان پر پھٹ پڑتی ہیں۔ گو نواز گو کے نعرے لگانے والے کے کان گو عمران گو کے الفاظ سے آشنا نہیں تھے اسی لیے اُس روز انہوں نے پریس کانفرنس میں حیرت سے فرمایا کہ ''مجھے اس احتجاج کی سمجھ نہیں آئی‘‘۔
ابھی حال ہی میں پھر شہید بچوں کی غم سے نڈھال مائوں نے حکومتی رویّے کا ماتم کیا اور کہا کہ وزیر اعظم اپنے نمائندے ہمارے پاس نہ بھیجیں خود تشریف لائیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمارے بچوں کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی پر سیاست ہو رہی ہے۔ مجرموں کو ابھی تک ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
اگر مشرف حملہ کیس کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے تو اس سے ہمارے غم سے پھٹتے دلوں کو سکون نہیں ملتا۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کی اعلان کردہ رقم کے لیے زخمی طلباء کے والدین بنکوں میں خوار ہو رہے ہیں۔ سرکاری مشینری کی طرف سے ہمدردی کے بیانات کی ترسیل جاری ہے‘ لیکن شہید بچوں کی کُرلاتی مائوں کے آنسو بتا رہے ہیں کہ شاید ان دنوں بے حسی کا موسم ہے۔ اور شاید یہی ایک موسم ہے جو ہمارے ہاں طویل تر ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں