"SQC" (space) message & send to 7575

قابلِ فخر پاکستانی خواتین

8 مارچ کی بازگشت کئی دن پہلے ہی سنائی دینے لگتی ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سوچا کہ اس بار ان قابلِ فخر پاکستانی خواتین کا تذکرہ کیا جائے جو اس بے حس اور عدم انصاف پر مبنی بیمار معاشرے میں امید اور احساس کے دیے جلا رہی ہیں اور جب بھی کوئی ایسی شاندار مثال سامنے آتی ہے بے اختیار اقبال کا یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے ؎
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
اس بار جب 8 مارچ کو پاکستانی خواتین کے مثبت کردار کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہوگا تو کون ہے جسے طاہرہ قاضی نہیں یاد آئے گی۔ آرمی پبلک سکول پشاور کی جانباز‘ نڈر اور فرض شناس پرنسپل۔ 16 دسمبر 2014ء کی خون آشام دوپہر‘ اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو دہشت گردوں سے بچاتی رہیں‘ والدین کے ساتھ رابطے کر کے انہیں حالات سے آگاہی دیتی رہیں۔ آرمی کمانڈوز کے جائے وقوعہ پر پہنچنے تک حیات تھیں‘ مگر انہوں نے اپنی جان بچانے کی پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ وہ اپنے بچوں کو موت کے کھیل میں تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتیں۔ یہ ہے وہ پاکستانی عورت جو پاکستان کا فخر ہے۔ جس پر پاکستان کو ناز ہے۔ ایسی کمٹمنٹ اور ایسی فرض شناسی کی مثال تو شاید دنیا بھر میں اور کہیں نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے اخبارات نے میڈم طاہرہ قاضی کی سرفروشی کی یہ داستاں نمایاں طور پر چھاپی۔ کرنل (ر) قاضی کی اہلیہ۔ ایک بیٹی اور دو بیٹوں کی والدہ اور ہزاروں طالب علموں کی
روحانی ماں۔ طاہرہ قاضی نے جب اپنے بیٹے احمد قاضی کو فون پر حملے کی اطلاع دی تو بیٹے نے انتہائی پریشانی کے عالم میں سوال کیا جس کے جواب میں ماں نے کہا بیٹا فون بند کرو‘ اب مجھے بچوں کے والدین کو بھی اطلاع کرنا ہے۔ دہشت گردوں نے سر میں گولی مار کر اس عظیم خاتون کو شہید کر دیا لیکن وہ آخری سانس تک فرض کے ساتھ مخلص رہیں۔ ہماری محبتوں اور عقیدتوں کے تمام نوبل پرائز شہید میڈم طاہرہ قاضی کے نام!
ایسے معاشرے میں جہاں حکمران طبقہ‘ تمام تر وسائل اور طاقت کے ہوتے ہوئے اپنے فرض سے غافل ہے‘ وہاں حمیرا بچل نام کی لڑکی‘ غربت زدہ بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا وہ کارنامہ سرانجام دیتی ہے کہ دنیا اس پر خراجِ تحسین کے ڈونگرے برساتی ہے۔ مگر سچی بات ہے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں‘ ابھی تک اس کا کام اور اس کا نام اس طرح سے سامنے نہیں آیا جس کی وہ مستحق ہے۔ میں خود اس کی کامیابی کی کہانی پڑھ کر حیران ہوئی۔ 28 ستمبر 2014ء کو ہالی ووڈ کی ممتاز گلوکارہ میڈونا‘ نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر ایک ٹویٹ کیا کہ وہ موچھ گوٹھ کراچی میں رہنے والی حمیرا بچل کی ہمت کی پرستار ہے اور کئی سالوں سے اس کی مالی امداد کر کے اس کے خوابوں کو تعبیر کا روپ دینے میں اس کی مدد کر رہی ہے۔ دوسری جانب‘ ہالی ووڈ کی ایک اور مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک‘ اسی حمیرا بچل پر
ایک دستاویزی فلم بنا کر دنیا کو چونکا دیتی ہے۔ اس فلم کا نام ہے "The Game Changer"... دنیا حیران ہوئی کہ بھئی یہ حمیرا بچل آخر ہے کون؟ کہ دنیا اس کی تحسین کر رہی ہے۔ حمیرا بچل موچھ گوٹھ کراچی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی ہے جہاں بچوں کو سکول بھیجنے کا تصور نہیں تھا کیونکہ معاشی مسائل‘ غربت اس کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی جس کے باپ نے پہلے پہل اسے سکول داخل کرانے سے انکار کردیا تھا‘ آج غربت کے گہوارے میں پلنے والے کم وسیلہ‘ کم قسمت بچوں کی زندگیوں کو علم کی روشنی سے منور کر رہی ہے۔ حمیرا جس بستی کی رہائشی ہے‘ وہاں آج بھی لاقانونیت کا راج ہے‘ منشیات فروشوں اور قبضہ مافیا کے زیر تسلط یہ علاقہ جرائم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے علاقے میں لڑکی کا گھر سے باہر نکل کر سکول جانا انقلابی قدم تھا۔ بارہ سال کی کم سن بچی کے اندر یہ احساس جاگا کہ علم کی روشنی سے ہر بچے کی زندگی کو جگمگانا چاہیے۔ یہ ہے وہ راستہ جو امن اور انصاف کی طرف لے کر جاتا ہے۔ یوں اس کم عمر لڑکی نے سکول سے آ کر ان بچوں کو پڑھانا شروع کردیا جو گلیوں میں آوارہ پھرتے تھے۔ اس کے اپنے چھوٹے سے خستہ حال گھر میں اتنی جگہ تو تھی نہیں‘ سو کلاس روم فٹ پاتھ کو بنا لیا گیا۔ حمیرا نے اپنے ساتھ چند اور سہیلیوں کو بھی شامل کیا یوں لوگوں نے دیکھا کہ غربت زدہ‘ میلے میلے کپڑوں میں ملبوس بچوں کو ان سے عمر میں چند برس بڑی ''باجیاں‘‘ کتابیں کھولے‘ پڑھا رہی ہیں۔ پہلے تو سب نے اسے بچوں کا کھیل جانا۔ مگر پھر اس کوشش کو کراچی کے روٹری کلب کے چند اہم ممبران نے اپنی آنکھوں سے دیکھا پرکھا اور حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے ذرائع سے فنڈز اکٹھے کیے۔ یوں فٹ پاتھ پر بنائے گئے سکول کو عمارت مل گئی۔ حمیرا بچل کا یہ سفر اس طرح سے شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے۔ ڈریم سکول غریب بچیوں کی تعلیم کا ادارہ ہے۔ اور ڈریم فائونڈیشن میں بڑی عمر کے مرد و خواتین کو علم کی روشنی دی جاتی ہے۔ حمیرا کے اس کارنامے کو اس لیے بھی دنیا نے سراہا کہ جس علاقے میں وہ کام کر رہی ہے اسے جرائم کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ گلیوں میں پھرنے والے آوارہ بچے‘ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی اندھیر نگری میں علم‘ تہذیب اور شعور کی روشنی پھیلانا کسی جہاد سے کم نہیں۔
اس بار‘ خواتین کے عالمی دن کا موضوع ہے :
"Empowering women, empowering humanity"
اس موضوع کی روشنی میں دیکھیں تو حمیرا اس سچائی پر پورا اترتی ہے۔ اس نے خود کو علم کی روشنی سے آراستہ کیا اور اب وہ معاشرے کو بدل رہی ہے۔
میں لاہور میں ایک ایسی قابل فخر پاکستانی خاتون روبینہ کو جانتی ہوں‘ جس نے ''آبرو‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بنایا جہاں وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کو علم اور تہذیب سکھاتی ہے‘ پھر ان کو ہنر سے آراستہ کر کے‘ ان کے لیے اسی ہنر سے باعزت روزگار کمانے کا سامان فراہم کرتی ہے۔ یوں انسان کو آبرو کے ساتھ جینے کا ہنر سکھا رہی ہے۔ غلیظ ماحول میں پلنے والے تہذیب سے عاری بھکاری بچوں کو‘ صاف لباس مہیا کرنا‘ ہاتھ منہ دھونے کا شعور دینا‘ کھانے پینے‘ بیٹھنے اٹھنے کے آداب سکھانا‘ اس روایتی تعلیم کے علاوہ ہیں‘ جو اس کے سکولوں میں بچوں کو دی جاتی ہے۔ روبینہ نے یہ فلاحی کام‘ اپنے گھر کے گیراج سے شروع کیا تھا مگر آج کئی سکولوں کی صورت میں پھیل چکا ہے۔ چند برس پیشتر میں نے آبرو کے ان سکولوں میں جا کر خود ان بچوں کو جو کبھی سڑکوں‘ گلیوں میں آوارہ پھرتے بھیک مانگتے تھے‘ اقبال کی دعا ''لب پہ آتی ہے‘‘ پڑھتے سنا۔
ان قابل فخر پاکستانی خواتین کی یہ شاندار خدمات ان حکمرانوں کے لیے آئینہ ہیں جو تعلیم کے لیے مختص فنڈ‘ پلوں اور سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کر کے خوشحال پاکستان بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہیں سڑک کی تعمیر اور انسان کی تعمیر میں فرق سمجھ نہیں آتا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں