"SQC" (space) message & send to 7575

سعودی عرب کی مثال دینا کافی ہے!

آج کے اخبارات کھولے تو ایک سرکاری اشتہار پر نظر پڑی۔ رگوں میں اندھیرا میرا مقدر کیوں؟ اس اشتہار کے مطابق پنجاب حکومت نے تھیلیسیمیا پری وینشن پروگرام کے تحت، پنجاب کے 22 اضلاع میں خون کے ٹیسٹ کی لیبارٹریاں قائم کی ہیں۔ شادی کے خواہش مند مرد و زن اپنے اپنے خون کا ٹیسٹ ان لیبارٹریوں سے کروا کر اپنی آئندہ زندگی کیلئے بیماری سے پاک محفوظ مستقبل کا چنائو کر سکتے ہیں۔ایسے اشتہار اورحکومت کے ایسے اقدامات یقینا سراہے جانے کے لائق ہیں جن کے معاشرے پر مثبت اثرات پڑیں۔
خون کی بیماریاں موروثی ہوتی ہیں اور والدین سے بچوں میں منتقل ہوئی‘ بلکہ نسل در نسل چلتی ہیں۔ ان کا کوئی حتمی علاج بھی نہیں ہوتا۔ ایسی بیماری میں مبتلا شخص پوری زندگی اس بیماری کے ساتھ جیتا ہے۔ اگرکسی کو خون کی موروثی بیماری تھیلیسیمیا ہو جائے تو پھر، سانس کی ڈوری بچائے رکھنے کیلئے، مریض کو مختلف اوقات میں خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ تازہ اور صحت مند خون کا حصول ایک کارِ دشوار ہے۔
خون کی موروثی بیماریوں پر قابو پانے کیلئے شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ از حد ضروری ہے۔ بلاشبہ یہ حکومت پنجاب کا ایک انقلابی قدم ہے۔ شادی کے خواہش مند مرد اور عورت کے خون کا ٹیسٹ کروانے سے یہ پتہ چل سکے گا کہ ان میں خون کی موروثی بیماری تھیلیسیمیا کا کیریئر تونہیں۔ اگر مرد اور عورت میں ایک، بیماری کا کیریئر
(Carrier) ہے تو پھر ان سے پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیا مائنر (Thalassemia Minor) ہوں گے اور اگر دونوں مرد اور عورت کیریئر ہیں تو پھر ان کے بچے تھیلیسیمیا کی بیماری کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ جسے تھیلیسیمیا میجر کہاجاتا ہے۔ ایسے بدقسمت بچے، جتنی دیر زندہ رہتے ہیں، ایک جان لیوا بیماری جھیلتے ہوئے‘ ایک ناقابل بیان اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے‘ جہاں بیماری کی روک تھام کے مناسب اقدامات نہ ہونے کے باعث، تھیلیسیمیا کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں لوگ اس بات کو آسانی سے قبول کریں گے کہ شادی سے پہلے جا کر متعلقہ لیبارٹری میں اپنے خون کا ٹیسٹ کروائیں اور پھر اس بنیاد پر کسی رشتے کو ریجیکٹ کریں۔ ایسی نئی حقیقتیں رفتہ رفتہ قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ کچھ لوگ شاید اسے اسلامی اصولوں سے متصادم خیال کریں‘ مگر ایسا سوچنے والوں کیلئے یہاں سعودی عرب کی مثال دینا ضروری ہے جہاں اب شادی سے پہلے خون کی موروثی بیماریوں کا ٹیسٹ کروانا قانون بن چکا ہے اوراس پر سختی سے عملدرآمد کر کے سعودی حکومت بڑی کامیابی سے خون کی بیماریوں کی شرح میں کمی کر رہی ہے۔
2002ء میں سعودی کونسل آف منسٹرز کے سامنے ایک ہوش ربا تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب ان بدقسمت ملکوں میں سرفہرست ہے‘ جہاں تھیلیسیمیا اور خون کی دیگر موروثی بیماریوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 1.5 ملین سعودی شہری خون کی موروثی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ہر سو میں سے 8 واں سعودی تھیلیسیمیا کی بیماری کا شکار ہے۔ سعودی عرب کی کل آبادی کے 19 فیصد افراد خون کی موروثی بیماریوں کے کیریئر ہیں۔ کیریئر کی وضاحت یہ ہے کہ ایک شخص کے خون میں بیماری کے جینز موجود ہیں اور اگراس کی شادی بیماری کی کیریئر خاتون سے ہو جائے تو پھر ان سے پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیا یا خون کی دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوں گے۔ اس سلسلے کو روکنے کیلئے ملک میں انقلابی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ کی بنیادی پر سودی کونسل آف منسٹرز نے پرنس طلال بن عبدالعزیز کی خدمت میں اس حوالے سے قانون سازی کی سفارشات پیش کیں۔ 2003ء میں جید علماء پر مشتمل ایک کونسل نے قرآن پاک اور احادیث کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی کہ شادی سے پہلے خون کی سکریننگ اسلام سے متصادم نہیںہے۔ یوں اس پر اجتہاد ہوا کہ بیماری کی روک تھام کیلئے متعلقہ ٹیسٹ کروانے اور اس بنیاد پر شادی کا فیصلہ کرنا عین شرعی ہے۔ قانون بنا اور پھر 2004ء میں اس قانون پر عملدرآمد شروع ہوا۔
2004ء سے 2009ء تک 6سال کا عرصہ سعودی حکومت نے کیس سٹڈی کے طور پر لیا اور اس بات کو بڑی تفصیل کے ساتھ پرکھا اور جانچا کہ آیا، بلڈ سکریننگ کے نئے نظام کے بعد ہونے والی شادیاں‘ واقعی تھیلیسیمیا کی شرح میں کمی کرتی ہیں یا نہیں۔ اس 6 سال کی سٹڈی میں جو نتائج سامنے آئے وہ بہت دلچسپ ہیں۔ سعودی پری میری ٹل سکریننگ اینڈ جنیٹک پروگرام 2004-2009ء کے تحت ملک کے 13 انتظامی علاقوں میں 150 ہیلتھ کیئر کلینک‘ 70 لیبارٹریز اور 78 جنیٹک کونسلنگ کلینکس قائم کئے گئے۔ خطرے سے دوچار مردوں اور خواتین کو AL-Risk کا لیبل لگا کر پری میریٹل جنیٹک کونسل کی میٹنگ میں شرکت کرنے کا کہا جاتا‘ جہاں انہیں اس بیماری اور آئندہ آنے والے مسائل سے آگاہ کیا جاتا تاکہ وہ خود تمام حقائق جان کر بیماری سے پاک محفوظ مستقبل کا راستہ چن سکیں۔
6 سال کے عرصے میں 70 ہزار 9 سو 62 جوڑوں کی بلڈ سکریننگ کی گئی۔ ان میں سے 29 ہزار جوڑے تھیلیسیمیا کے کیریئر نکلے۔ 8 ہزار 9 سو 25 جوڑوں کو بلڈ سکریننگ کے بعد غیر مناسب شادی یعنی Incompatiable Marriage کے سرٹیفکیٹ دیئے گئے۔ سعودی عرب میں تھیلیسیمیا پر قابو پانے کیلئے بلڈ سکریننگ کا پروگرام بہت حوصلہ افزا رہا۔ خطرے سے دوچار افراد کی شادیوں کی شرح میں 60 فیصد کمی ہوئی جس سے آنے والی دہائیوں میں سعودی عرب پر خون کی موروثی جان لیوا بیماریوں کا بوجھ یقینی طور پر کم ہوا‘ کیونکہ یہ بیماریاں کسی اور ذریعے سے نہیں پھیلیں۔ صرف بیماری کے کیریئر مرد اور عورت کی شادی اس کی وجہ ہے۔ اس پروگرام سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ ایک ہزار افراد کی بلڈ سکریننگ کے نتیجے میں 32 افراد میں اس بیماری میں مبتلا یا کیریئر نکلتے۔ اس پروگرام کے بعد 32 کی شرح گھٹ کر 9 پر آ گئی۔ سعودی عرب کی کامیاب مثال کو سامنے رکھ کر مڈل ایسٹ کی دوسری عرب ریاستوں نے بھی اس سے ملتے جلتے بلڈ سکریننگ کے پروگرام شروع کئے اور کامیابی سے خون کی بیماریوں پر قابو پانے کا سفر آغاز کیا۔
شادی سے پہلے بلڈ سکریننگ کا پروگرام پورے ملک میں شروع ہونا چاہئے۔ پاکستان میں ہر سال 5 ہزار تھیلیسیمیا کے مریض بچے پیدا ہوتے ہیں جن کی واحد وجہ بیماری کے کیریئر مردوں اور عورتوں کی آپس میں شادی ہے۔ اس خوفناک شرح پر صرف اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے کہ پری میرٹل بلڈ سکریننگ لازمی قرار دی جائے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کی طرز پر ایسے کونسلنگ سنٹرز ضرور بنائے جائیں جہاں جید علما، لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا اسلام کی روشنی میں جواب دے کر انہیں مطمئن کر سکیں‘ تبھی یہ پروگرام کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ ایسے اسلامی اصولوں سے متصادم خیال کریں‘ انہیں سعودی عرب کی مثال دینا کافی ہے جس کے ساتھ ہمارے عقیدتوں بھرے اسلامی، مذہبی رشتے موجود ہیں !!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں