"SQC" (space) message & send to 7575

انتخابی عمل اور نادیدہ قوتیں

انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے بنائے جانے والے جوڈیشل کمیشن میں‘ مبینہ دھاندلیوں کے ثبوت پیش ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے سابق الیکشن کمشنر پنجاب محبوب انور کا کمیشن کے روبرو یہ بیان بہت اہم ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ بعض حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ بیلٹ پیپر چھاپے گئے ہیں‘ یہ بیان جہاں ایک طرف پورے انتخابی نظام میں ایک بڑی خامی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے ان الزامات کو بھی تقویت دیتا ہے جن کے مطابق وہ 35 حلقے جہاں سے ن لیگ کے وی آئی پی رہنمائوں نے انتخاب لڑا وہاں پر لاکھوں اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے اور یہی بیلٹ پیپر جعلی ووٹوں کی صورت میں استعمال ہوئے۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں بھارت کی طرز پر الیکٹرانک ووٹنگ ہو تو پھر اس طرح کی انتخابی دھاندلیوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ 2013ء کا الیکشن ہوتے ہی نہ صرف پی ٹی آئی کی طرف سے دھاندلی کا شور مچا بلکہ اے این پی اور پی پی پی نے بھی الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں پر آواز اٹھائی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے شفاف الیکشن کروانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں بھی اگلے الیکشن میں‘ جو شیڈول کے مطابق 2018ء میں ہوں گے‘ الیکٹرانک ووٹنگ متعارف کروانے کا سوچا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت کے سابق الیکشن کمشنر پاکستان بھی آئے اور انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ کے حق میں ہر جگہ بات کی۔ شہاب الدین یعقوب قریشی‘ جو ایس وائے قریشی
کے نام سے جانے جاتے ہیں‘ بھارت کے پہلے مسلمان ہیں جو الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ 2010ء سے 2012ء تک بھارت کے چیف الیکشن کمشنر رہے۔ بھارت میں شفاف اور منصفانہ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے "An undocumented wonder" جس میں ایک طرف اگر وہ الیکشن کو فول پروف بنانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھارت میں الیکشن کمیشن حکومت کے ہر قسم کے دبائو سے آزاد ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں کہ ایک بار الیکشن کمیشن جو ضابطۂ کار طے کردے‘ جو قوانین بنا دے‘ جو حدود مقرر کردے‘ پھر سرکاری مشینری کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتا‘ ماسوائے اس کے کہ وہ Behave کرے۔
ایس وائی قریشی‘ لکھتے ہیں کہ بھارت میں الیکشن کمیشن کی کامیاب کارکردگی کا راز یہ ہے کہ سرکار کے دبائو سے آزاد ہو کر الیکشن کمیشن منصفانہ الیکشن کے راستے میں موجود ہر رکاوٹ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو قانون بنا دیئے جائیں ان پر سختی سے عملدرآمد ہوتا ہے‘ اور ہر بار اپنی کارکردگی کی خامیوں کا خود جائزہ لے کر‘ اگلی بار انہیں دور کر کے پہلے سے بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔ شفاف الیکشن کے انعقاد کے لیے نت نئے تجربے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ کو پہلی بار 1984ء میں
تجرباتی طور پر صرف ایک ریاست میں متعارف کروایا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے الیکشن میں کچھ اور ریاستوں تک اس کا دائرہ بڑھایا گیا۔
1999ء تک بھارت میں جزوی طور پر اس نظام کے تحت الیکشن ہوئے‘ جبکہ 2004ء میں پورا انتخابی نظام‘ ووٹنگ مشینوں کے ذریعے بھی انجام پایا اور 2014ء میں پورے بھارت میں شفاف اور منصفانہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں جنہیں EVM کہا جاتا ہے‘ استعمال ہوئیں اور پوری دنیا سے بھارت میں الیکشن کے مشاہدے کے لیے آنے والی ٹیموں نے اس کامیاب انتخاب کے انعقاد پر بھارت کے الیکشن کمیشن کو سراہا۔
ہمسایہ ملک کے بعد پاکستان میں بھی اگلے الیکشن میں EVMs کے استعمال کا سوچا جا رہا ہے لیکن یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ منصفانہ الیکشن منعقد کروانے کے حوالے سے دنیا میں اس وقت دو متضاد رجحان چل رہے ہیں۔ دنیا کے کئی ملک ایسے ہیں جہاں الیکٹرانک ووٹنگ کے ناکام تجربے کے بعد واپس بیلٹ پیپر کے حق میں ووٹ دیا جا رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں EVMs کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابی نتائج کو سسٹم کے باہر سے بھی اور اندر سے بھی آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب افریقہ اور ایشیا کے ملکوں میں رجحان زور پکڑ رہا ہے کہ انتخاب کے عمل کو EVMs کے ذریعے شفاف بنایا جائے۔ اس حوالے سے اگر بھارت ہمیں کامیاب ملک دکھائی دیتا تو دوسری جانب افریقی ملک کینیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں 2011ء کے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تجربہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا۔ یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ کینیا میں 2007ء کے انتخابات کے بعد ہونے والے خونی ہنگاموں کے بعد فیصلہ ہوا کہ 2011ء کے الیکشن میں EVMs کا نظام لایا جائے گا۔ 2011ء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے تمام انتظامات کر لیے گئے۔ اس کو افریقہ کا ماڈرن الیکشن کا نام دیا گیا۔ انتخابات کروانے والے عملے کی مکمل ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کے روز انگوٹھے کے نشان کی بائیو میٹرک تصدیق کرنے والی کِٹس (Kits) بوجوہ خراب ہوگئیں۔ کہیں سافٹ ویئر میں مسائل پیدا ہو گئے‘ کہیں انتخابی عملہ سافٹ ویئر کے پاس ورڈ بھول گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتخابی نظام واپس بیلٹ پیپر کے ذریعے کرنا پڑا۔ یوں کئی دنوں کی تاخیر بھی ہوئی اور اس پورے سسٹم پر ہونے والے سرمایے کے ضیاع پر کینیا کی حکومت کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ممالک جہاں یہ نظام وضع ہوا جنہوں نے اسے دنیا کو متعارف کروایا وہاں پر اب اس کے خلاف اور بیلٹ پیپر کے حق میں بات ہو رہی ہے۔ اب بیلٹ پیپر کی گنتی کو فول پروف بنانے کے لیے سکینر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یہ ایک تصویر کے مختلف رُخ ہیں کہ کس طرح سے دنیا کے مختلف ملکوں میں انتخابی عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے مسلسل کام ہو رہا ہے‘ مختلف الیکشن سسٹم کے تجربات ہو رہے ہیں‘ کہیں ایک طریقہ ناکامی سے دوچار ہوا تو دوسرے ملک میں وہی طریقۂ انتخاب بڑا کامیاب ٹھہرا۔ ہر ملک میں اس نظام کی ناکامی اور کامیابی کی وجوہ بھی مختلف ہیں۔ مگر ایک حقیقت ہر جگہ مشترک ہے کہ ہر ملک میں انتخابی عمل کے درپردہ ایسی نادیدہ قوتیں بھی موجود ہوتی ہیں‘ جو الیکشن کے نتائج کو اپنی منشاء اپنی مرضی کے مطابق دیکھنے کے لیے کارفرما رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قوتیں انتخابی عمل کے پورے سسٹم سے زیادہ طاقتور کیسے ہو جاتی ہیں۔ اور کیسے انتخابی عمل کے نتائج کو بدل کے رکھ دیتی ہیں اور عوام بے چارے اسی گمان میں ہر بار پولنگ سٹیشنوں پر قطاریں بنا کر ووٹ ڈالنے چلے جاتے ہیں کہ ان کا ووٹ ان کی طاقت ہے جبکہ ان نادیدہ قوتوں کی مداخلت سے عوامی رائے اور ووٹ کی طاقت کا حال بعض اوقات تاجدار عادل کے اس شعر سے ملتا جلتا نظر آتا ہے ؎
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں