ہم سب خوش گمانیوں کے مائونٹ ایورسٹ پر بیٹھے ہیں یا پھر ہمارا حال اس تاجر کا سا ہے جو دھوپ میں برف بیچ رہا ہے اور پھر بھی منافع کمانے کے چکر میں ہے۔ جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ''ترقی کی شاندار منازل‘‘ طے کرنے والی آئی ٹی کمپنی کی دھوم تو ہر جگہ مچی ہے‘ ہر شخص اسی پر بات کر رہا ہے۔ ہم سب خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک خوبصورت اور پُرامن جمہوری ملک میں تعلیم کے نام پر فراڈ کیا جا رہا ہے۔
خیر سے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے اور اس وقت اہل وطن ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ یاد رہے کہ زمبابوے کا دورہ پاکستان سانحہ صفورا گوٹھ کے بعد غیریقینی ہو چکا تھا۔ جس ملک میں آئے روز دہشت گردی کے ہولناک سانحے برپا ہوتے ہوں وہاں کون آنے کو تیار ہوتا ہے؟ لیکن کرکٹ بورڈ نے بڑی منتوں مرادوں کے بعد پانچ لاکھ ڈالر میں کرکٹ کی یہ سیریز خریدی‘ تو بدقسمتی سے یکے بعد دیگرے کئی سانحے ہوئے۔ نلتر ایئر کریش کا سانحہ ہوا‘ اس کے بعد کراچی میں صفورا گوٹھ میں مسافروں کی بس پر بہیمانہ فائرنگ سے قتل عام۔ یہ سب باتیں سیریز منسوخ کرنے کے لیے کافی تھیں۔ یاد رہے کہ 2009ء میں جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تھا‘ تب سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔
اب پاکستان میں زمبابوے کی ٹیم تو آ چکی ہے اور ان کی فول
پروف سکیورٹی کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں‘ وہ غیر معمولی ہیں ان ''حفاظتی انتظامات‘‘ نے لاہوریوں کو عذاب سے دوچار کر رکھا ہے۔ اتوار کو لاہور کی سڑکوں پر‘ ٹیم کی سکیورٹی کے حوالے سے فل ڈریس ریہرسل ہو رہی تھی اور مجھ سمیت ہزاروں لوگ شدید ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ ٹریفک کا رش ٹھوکر نیاز بیگ سے دھرم پورہ چوک تک بدترین تھا اور ایسے میں ٹریفک وارڈن بھی غائب۔ گاڑیوں کا بے ترتیب ہجوم‘ ایسے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کدھر جائے‘ کیا کرے۔ اس روز ریہرسل کے نام پر شہریوں کو شدید پریشانیوں اور کرب میں مبتلا رکھا گیا۔ کیا کوئی ایسی عدالت ہے جہاں اس کی شکایت ہو سکے۔ کیا اس طرح آزادانہ نقل و حرکت کے بارے میں عوام کا بنیادی حق‘ سلب نہیں ہوا۔
اب کرکٹ ٹیم جتنے دن یہاں رہے گی شہری اسی عذاب سے دوچار رہیں گے۔ اور تو اور زمبابوے کی ٹیم کے لیے پُرامن اور محفوظ ماحول بنانے کے لیے قذافی سٹیڈیم کے آس پاس تمام ہوٹل‘ دکانیں بند اور دیگر کاروباری سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں۔ زمبابوے کی ٹیم کی حفاظت کے لیے رینجرز کی تین کمپنیاں طلب کر لی گئی ہیں۔ رینجرز کا ہیلی کاپٹر‘ سٹیڈیم کی مسلسل فضائی نگرانی کرے گا‘ قذافی سٹیڈیم کی طرف جانے والے راستوں پر کڑی نگرانی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شہر کی سانس روک کر‘ امن اور محفوظ پاکستان کا جو فرضی تاثر مہمان ٹیم کے سامنے کروڑوں روپیہ لگا کر پیش کیا جا رہا ہے اس کا حاصل حصول کیا ہے؟
قذافی سٹیڈیم کے اندر تو چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ اس کے اردگرد بھی ٹھیلے والے‘ ریڑھی والے اور اس طرح کے چھوٹے موٹے دیہاڑی داروں کو اپنا روزگار کمانے سے منع کر دیا گیا۔ اب سرکار کی بلا سے کہ ان غریبوں کے گھروں میں فاقے پڑیں یا بھوک رقص کرے۔ ہاں عوام اس بات کا جشن ضرور منائیں کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی ہے! پاکستان کرکٹ بورڈ اس سیریز سے لاکھوں اور کروڑوں کمائے گا۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے پی سی بی کے اہلکاروں کو بھی اس میں سے حصہ ملے گا اور یہ وہی پی سی بی ہے جس کی کارکردگی پوری قوم کے سامنے ہے۔ غیر ملکی کرکٹ دوروں پر ایک طرف ان کے اہم ذمہ داران کسینو میں دل بہلاتے ہیں اور دوسری طرف کرکٹ ٹیم اپنی ناقص کارکردگی سے دنیا کی کمزور ٹیموں کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ کرکٹ کے بعض ستارے تو کھلاڑی سے زیادہ جواری کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں تو کرکٹ کے حوالے سے آئے روز نئے نئے سکینڈل ملک کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں اور قومی کرکٹ ٹیم ناقص کارکردگی کی وجہ سے قوم کی امیدوں پر پانی پھیرتی چلی آ رہی ہے۔ ورلڈ کپ کی مثال ابھی تازہ ہے۔ مگر اس کے باوجود کرکٹ اس قوم کو افیم کے نشے کی طرح لگ چکی ہے اور اب بھی حیرت ہوتی ہے کہ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں کہ زمبابوے کی ٹیم پاکستان آ گئی ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو چکی ہے۔ دوسری طرف یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک پُرامن اور محفوظ ملک ہے۔ اس طرح شاید ہم اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن دنیا کو نہیں۔ دنیا ہمارے مسائل کو ہم سے زیادہ جانتی ہے اور اس کی ایک تازہ ترین مثال پاکستان کی آئی ٹی کمپنی کے بارے میں چھپنے والی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ ہے۔ برسوں سے یہ کمپنی یہاں قائم ہے‘ سینکڑوں پڑھے لکھے افراد کو ملازم رکھے ہوئے ہے۔ مگر آج تک ہمارے اپنے میڈیا پر اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں آئی۔ جب نیویارک ٹائمز جعلی ڈگریوں کے کاروبار پر تحقیقاتی رپورٹ چھاپتا ہے تو ہر طرف ہاہاکار مچ جاتی ہے‘ یہاں تو قدم قدم پر جعل سازی کی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ ملاوٹ زدہ معاشرے کی ہر شے ناخالص ہے۔ دودھ سے لے کر ادویات اور دانش و فکر تک بہت کچھ ملاوٹ زدہ ہے۔ مذکورہ کمپنی کے خلاف اونچی سطح پر تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ تحقیقات ان اداروں کی بھی ہونی چاہیے جو جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر ملازمین ہائر کرتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کو قبولیت کی سند دے کر ترقیاں دیتے اور لیتے ہیں۔ سوال تو اس سماج پر بھی اٹھتا ہے جہاں ایک طرف جعلی ڈگریاں لینے کے لیے بھی لوگ اپنی جمع پونجی لٹا رہے ہیں؛ یعنی پورے کا پورا معاشرہ ہی خود کو دھوکا دے رہا ہے یا پھر دھوکا کھا رہا ہے!
ہمارا حال غلام عباس کے شہرۂ آفاق افسانے ''اوورکوٹ‘‘ کے مرکزی کردار سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔ یہ کردار بادامی رنگ کا اوورکوٹ پہنے‘ سلک کا مفلر گلے میں لٹکائے‘ ڈیوس روڈ‘ چیئرنگ کراس‘ میکلورڈ روڈ پر مٹر گشت کرتا نظر آتا ہے تو لوگ اسے خوش پوش اور خوش ذوق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ فیشن ایبل اور متمول دکھائی دیتا ہے۔ پھر ٹریفک حادثہ اسے ہسپتال لے جاتا ہے‘ جہاں سرجری کرنے کے لیے ڈاکٹر اور نرسیں اس کا اوورکوٹ اتارتے ہیں تو بدن پر پھٹا ہوا سویٹر اور میلی بنیان ملتی ہے۔ بوٹ اتارتے ہیں تو میلی کچیلی پھٹی جرابیں نظر آتی ہیں۔ غلام عباس کے افسانے کے ہیرو کا کم از کم اوورکوٹ تو اُجلا تھا مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا اوور کوٹ نہ صرف میل سے اٹ بلکہ تارتار بھی ہو چکا ہے۔