حال ہی میں خبر آئی ہے کہ بیسویں صدی کے ممتاز ریاضی دان جان فاربزنیش جو جان نیش(Jhon nash)کے نام سے مشہور ہیں‘ چھیاسی برس کی عمر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہو گئے۔
امریکی ریاضی دان جو 1994ء میں اپنے غیر معمولی کام پر نوبل پرائز حاصل کر چکا تھا، کئی اور حوالوں سے بھی مشہور ہوا، جس میں ایک اہم حوالہ‘ اس ذہین اورقابل ریاضی دان کی زندگی میں آنے والا ایک ڈرامائی مرحلہ تھا جو کم و بیش 20برس پر محیط رہا۔ اس عرصے میں جان نیش ذہنی مریض کے طور پر ملک کے مختلف ہسپتالوں سے اپنا علاج کرواتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی یادداشت بھی شدید متاثر ہوئی۔ نفسیات دانوں کا کہنا تھا کہ شیزو فرینیا کا مریض ہے۔
باعث حیرت بات ہے کہ کہاں ایک جانب جان نیش ذہانت کے قطب مینار پر بیٹھا‘ ریاضی اور اکنامکس کی گتھیاں سلجھا رہا ہے اور کہاں اس پر پاگل پن کے شدید دورے پڑتے۔ یہ تضاد انسانی نفسیات میں دلچسپی رکھنے والوں کو ایک بارپھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کیا واقعی غیر معمولی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کے ساتھ ایک طرح کا پاگل پن وابستہ ہوتا ہے۔ اردو کے ایک ممتاز لکھاری مستنصر حسین تارڑ کی ایک بات یاد آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر بڑا تخلیق کار‘ کسی حد تک پاگل ضرور ہوتا ہے۔یہ ایک کیفیت بھی ہو سکتی ہے جو اگر اس پر طاری نہ ہو تو شاید وہ تخلیق نہ کر سکے دنیا کے کئی بڑے نام‘بڑے تخلیق کار ایسے تھے جو اپنی زندگی کے کسی ایک مرحلے میں ذہنی بیماری کا شکار ہوئے اور کچھ نام تو ایسے ہیں جو تمام
عمر‘ ذہنی بیماری سے بھی لڑتے رہے اور ساتھ ہی اپنا کام بھی شاندار انداز میں کرتے رہے۔ ان میں ایک نام امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے کا بھی ہے۔Farewell to Armsجیسا خوب صورت ناول اور The old Man and the Seaجیسا خوبصورت ادب تخلیق کرنے والا یہ لکھاری جو اپنی تحریروں میں، مایوسی اور زندگی کے مسائل سے لڑنے اور شکست تسلیم نہ کرنے کا درس دیتا رہا، آخری عمر میں شدید ذہنی بیماری کا شکار ہو گیا۔ اس پر پاگل پن کے دورے پڑتے، اور ایسی ہی کسی کیفیت میں اپنی زندگی سے اس قدر اکتا گیا کہ اس نے خودکشی کر لی۔
ورجینیا وولف مشہور امریکی لکھاری ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ایک خوبصورت زندگی کو بیان کیا مگر شاید وہ خود اپنی زندگی کی اونچ نیچ سے اتنی دلبرداشتہ ہوئیں کہ ذہنی مریض بن گئیں۔ پھر ایک روز ورجینیا وولف نے نہر میں کود کر خودکشی کر لی۔ ابراہام لنکن کا درجہ صرف امریکہ کے 16ویں صدر ہی کا نہیں، بلکہ دنیا انہیں ایک ممتاز دانشور اور سیاستدان کے حوالے سے جانتی ہے اور امریکی قوم کے لیے وہ ایک رہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ تمام عمر شدید ذہنی بیماری کا شکار رہے۔ ان کے ایک دوست نے خط میں لکھا کہ اس نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ ذہنی دبائو میں کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ ویژن رکھنے والا‘ ایک مدبّر سیاستدان ‘ ذہنی
بیماری کا شکار ہو کر‘ اکثر بچوں کی طرح روتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آڈرجیسی ذہنی بیماریاں ابراہام لنکن کے خاندان میں موجود تھیں۔ شاید انہیں وراثت میں یہ ذہنی بیماری ملی ہو۔
مصوری کی دنیا کا ایک ممتاز نام و ین گاف (Van Gogh)ہے جو اگرچہ امیر گھرانے میں پیدا ہوا، خوشحال زندگی بسر کی مگر اپنی غیرمعمولی تخلیقی صلاحیتوں اور حد سے بڑھی ہوئی حساس طبیعت کی وجہ سے زندگی بھر شدید ذہنی بیماری کا شکار رہا‘ اور صرف 37برس کی عمر میں آرٹ کے ناقابل فراموش شاہکار تخلیق کر کے دنیا سے چلا گیا۔ اس کی موت کے بارے میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وین گاف نے اپنی ذہنی بیماری کی اذیت سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔ اس کی مصوری پر تحقیق کرنے والے آرٹ کے نقادوں کا آج بھی پسندیدہ موضوع یہی ہے کہ آیا بیسویں صدی کے اس متاثر کن مصور کی تخلیقات سے بھی اس ذہنی کرب کا اظہار ہوتا ہے یا نہیں۔
خود ہمارے ہاں اگر دیکھیں تو جون ایلیا ایک کمال کا شاعر گزرا ہے۔ لمبے بالوں اور عجیب و غریب سے حلیے والا جون ایلیا کبھی بھی ایک مکمل نارمل شخص نہیں لگا مگر یہی جون ایلیا ‘ادب‘ شاعری‘ تاریخ‘ فلسفے ‘ مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے والا ایک انتہائی عالم فاضل انسان تھا۔ اپنے والد کی طرح‘ عبرانی‘ عربی اور سنسکرت زبانیں بھی جانتا تھا۔ کمال شعر کہتا۔ اس جیسا مصرع آج تک کوئی دوسرا نہیں کہہ سکا۔ جون ایلیا تمام عمر ایک تخلیقی کرب میں مبتلا رہا جو ذہنی بیماری کی شکل میں بارہا ظاہر ہوا۔ اپنی کتاب 'شاید‘ کے دیباچے میں جون ایلیا نے خود لکھا کہ ''1986ء کا ذکر ہے میری حالت گزشتہ دس برس سے سخت ابتر تھی۔ میں نیم تاریک کمرے کے اندر ایک گوشے میں سہما بیٹھا رہتا‘ مجھے روشنی سے، آوازوں سے اور لوگوں سے ڈر لگتا تھا۔ میرا دماغ دماغ نہیں، بھوبل ہے۔ میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہریں اب بھی میری پلکوں کو چھوتی ہیں‘‘
کس خوبصورت انداز میں جون ایلیا اپنے ذہنی بیماری اور تخلیقی کرب کو بیان کیا۔ جون ایلیا اپنی عام زندگی میں بھی عجیب و غریب حرکتیں کر جاتے جو کسی نارمل انسان کا کام نہیں۔
ماضی کی ایک خوب صورت اداکارہ روحی بانو اپنے فن میں یکتا تھیں۔ اور آج بھی فن اداکاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ایک بار بھارت کے ایک مشہور فلمساز نے روحی بانو کو ڈرامہ اکیڈمی کا خطاب دیا۔ یہی اداکارہ گزشتہ کئی برسوں سے ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ روحی بانو کی ذہنی بیماری اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کئی سال ذہنی مریضوں کے ادارے فائونٹین ہائوس میں ان کا علاج ہوتا رہا۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے مجھے اخبار کے میگزین کے لیے ان کا تفصیلی انٹرویو کرنا تھا۔ ان دنوں فائونٹین ہائوس کے چیئرمین ڈاکٹر ہارون رشید حیات تھے۔ انہوں نے مجھے خبردار کیا کہ روحی بانو کسی سے نہیں ملتیں‘ بلکہ وہ بعض اوقات aggressive بھی ہو جاتی ہیں اور واقعی جب میں ان سے ملی تو وہ اپنے آپ سے بچھڑی ہوئی روح لگیں۔ انہیں انٹرویو پر آمادہ کرنے کے لیے مجھے کئی جتن کرنے پڑے‘ پھر ایک انٹرویو کو ‘ تین روز لگے۔ اس کے بعد مجھے کہنے لگیں کہ میں تمہیں فن اداکاری سکھائوں گی تم میری دوست ہو۔ یعنی اس وقت بھی انہیں اس حقیقت کا پورا ادراک تھا کہ وہ اداکاری کے میدان میں راج کرتی رہی ہیں۔
ان کی تھراپی کا ایک مرحلہ یہ بھی تھا کہ وہ فائونٹین ہائوس کے دوسرے مریضوں کو اداکاری سکھاتی۔ یہ دلچسپ منظرمیں نے خود دیکھا تھا۔ بات امریکی ریاضی دان جان نیش سے شروع ہوئی تھی۔ ان کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 22,20سال وہ ذہنی بیماری رہنے کے بعد ٹھیک ہوئے تو انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ‘‘ایک روز میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں یہ پاگل پن چھوڑ کر نارمل زندگی بسر کروں گا، اگلے لمحے میں ٹھیک تھا‘‘
جان نیش کی زندگی پر بننے والی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم 'بیوٹی فل مائنڈ‘ میں اس حقیقت کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا گیا کہ غیر معمولی تخلیقی ذہانت ... ایک جنون کی محتاج ہے۔ اور یہی جنون کبھی کبھی ذہنی کرب اور پاگل پن کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ شاید یہی غیر معمولی تخلیقی ذہانت کی قیمت ہے۔!!