"SQC" (space) message & send to 7575

ایک پتھریلی بے حسی!!

گرمی میں جھلسنے والے مرنے کے بعد سرد خانوں میں پڑے ہیں۔ یہ کراچی ہے جہاں تقریباً نو سو سے زیادہ لوگ لُو لگنے سے لقمۂ اجل بنے۔ کراچی میں گرمی نے ریکارڈ توڑ دیئے‘ درجہ حرارت 45 سے 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ ایسی قہر برساتی گرمی میں کراچی والوں کے لیے نلوں میں پانی نہیں‘ گھروں میں بجلی نہیں۔ بیمار ہو کر ہسپتال پہنچے تو ہسپتالوں میں ابتدائی طبی امداد ناکافی۔ لُو لگنے کے سینکڑوں مریضوں کے لیے سٹریچر نہیں‘ بستر نہیں‘ ڈاکٹر نہیں‘زندگی روٹھ رہی تھی تو موت کے علاوہ اور کیا راستہ تھا‘ جہاں ابتدائی طبی امداد بروقت نہ ملے‘ سرکاری طور پر ریسکیو کا مؤثر نظام نہ ہو وہاں لوگ مرتے نہ تو اور کیا کرتے! جس بے حس ماحول میں ذمہ داران‘ ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھ کر گرمی سے مرنے والوں پر بیان بازی کرتے ہوں‘ وہاں تو لوگ جیتے جی مر جاتے ہیں۔ موسم کی شدت کے بارے میں پیش گوئی کا نظام بہتر ہونے سے لے کر‘ ابتدائی طبی امداد کے مؤثر سسٹم تک اگر چیزیں بہتر ہوتیں تو اس طرح جیتے جاگتے انسان لاشوں کا ڈھیر نہ بنتے۔
کہتے ہیں ایک انسان کی موت المیہ ہے اور سینکڑوں انسانوں کی موت صرف اعدادو شمار۔ سو اہل اقتدار نے بھی نو سو سے زائد انسانوں کی موت کو اعدادو شمار سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھا۔ اس عظیم المیے پر ہمارے بے ضمیر اہلِ اقتدار کے رویے دیکھیے۔ پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ ہلاکتوں کی ذمہ دار وفاقی حکومت
ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت کے ایک وزیر مملکت بیان دیتے ہیں کہ مرنے والوں کی موت ایسے ہی لکھی تھی۔ جبکہ کراچی والے سندھ حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس نے ہمیشہ کی طرح انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ سائیں قائم علی شاہ نے اس میدان میں جو ریکارڈ قائم کیے ہیں ان کا کیا کہنا۔ ہاں! ہونہار چیئرمین پی پی پی کی خاموشی اس المیے پر بہت گھلتی ہے۔ ان بے ضمیر اہل اقتدار کو جنوبی کوریا کے سابق وزیراعظم چُنگ ہانگ کے کردار سے سیکھنا چاہیے جنہوں نے گزشتہ برس 16 اپریل 2014ء کو ہونے والے ایک سانحے میں 376 افراد کے جاں بحق ہونے پر استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ مستعفی ہو جائوں۔
یہ اندوہناک سانحہ ایک کشتی کو پیش آیا۔ اس میں ساڑھے چار سو کے قریب ہائی سکول کے طلبا سوار تھے جو مطالعاتی تفریحی دورے پر جیجو آئی لینڈ جا رہے تھے۔ کشتی کے عملے نے حفاظتی کشتیوں کے ذریعے اپنی جانیں بچا لیں۔ مسافروں میں سے 176 افراد کو بچایا جا سکا۔ 376 طلبا کے ڈوبنے پر ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ریسکیو سروسز کی بروقت اور مؤثر کارروائی نہ ہونے سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ اگر ریسکیو کا نظام سریع الحرکت ہوتا تو تمام لوگوں کو
بچایا جا سکتا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے سانحہ کی ذمہ داری قبول کی اور کوتاہی کو تسلیم کرتے ہوئے وزیراعظم چُنگ ہانگ نے استعفیٰ دے کر خود کو ٹرائل کے لیے پیش کردیا۔ یہ ہوتا ہے جمہوری حکومتوں کا احساسِ ذمہ داری۔ جہاں سوال اور احتساب کا شفاف نظام موجود ہو‘ وہاں اہلِ اقتدار اور اہلِ اختیار کے ایسے فیصلوں پر حیرت نہیں ہوتی۔
کراچی میں جو المیہ ہوا ہے وہ پورے نظام کے شکست و ریخت ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اور کراچی تو ہے ہی وہ شہرِ خرابی جہاں سیاست کا دوسرا نام بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ قبضہ مافیا ہے۔ لاشوں پر سیاست کی جا ر ہی ہے۔ یوم سوگ بھی سیاست کا ناٹک ہے۔ یہ کراچی ہے جہاں پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت پر بھی قبضہ مافیا کروڑوں کا کاروبار کر رہا ہے۔ خبریں بھی آتی ہیں‘ سکینڈلز کے انکشاف بھی ہوتے ہیں مگر پھر ہوتا وہی ہے جو کراچی کے ''مافیاز‘‘ چاہتے ہیں۔ پانی کا ایشو نیا نہیں ہے‘ 2012ء میں بھی پانی کی قلت نے سنگین صورتحال پیدا کردی تھی۔ یہ ایشو برسوں پرانا ہے‘ جس کا حل کراچی کے ذمہ داران نے نہ سوچنا تھا نہ سوچا! اور اب گزشتہ چند دنوں میں پانی کی کمیابی نے اس المیے کو اور بھی گمبھیر کر دیا۔ گرمی کے مارے لوگوں کو قیامت خیز گرمی میں پینے اور نہانے کو بھی پانی نہ ملا تو زندگی سے ہار گئے۔ لواحقین کو کربناک آزمائش سے دوچار کر گئے۔ زندہ لوگوں کے لیے تو پانی نایاب ہے اب لاشوں کو نہلانے کے لیے پانی کہاں سے لائیں؟ نہلانے اور کفنانے کے بعد دفنانے کا مرحلہ الگ کہ قبرستانوں میں ایک اور مافیا سرگرم ہے۔ یعنی مرنے کے بعد دو گز زمین کا حصول مشکل۔ قبروں کی زمین پچاس پچاس ہزار میں فروخت ہو رہی ہے۔ ع مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
گرمی کی یہ قاتل لہر سیلاب اور زلزلے ہی کی طرح ایک قدرتی آفت تھی لیکن اگر ہمارے موسمیات کے ادارے جاگ رہے ہوتے تو وہ متوقع قدرتی آفت سے متاثر ہونے والے علاقوں کو خبردار کرتے جو کہ ان کا کام ہے۔ ناسا نے مئی کے آغاز ہی میں رپورٹ دی تھی کہ اس بار خشک سالی اور شدید گرمی‘ قدرتی آفت کی صورت میں انسانی زندگیوں کو متاثر کریں گے‘ اس کی شدت گزشتہ برسوں سے زیادہ ہوگی۔ جبکہ ہمارے محکمہ موسمیات نے اس کے بالکل برعکس پیشین گوئی کی کہ اس برس زیادہ بارشیں ہوں گی۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ ادارے کارکردگی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔ یورپی ملک سب سے زیادہ ہیٹ ویوز سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہاں ایسے حالات میں پیشین گوئی سسٹم‘ لوگوں کو بروقت آگاہی‘ ابتدائی طبی امداد اور بچائو کا نظام زنجیر کی صورت آپس میں مربوط ہوتا ہے۔ حکومتیں اس پر پالیسی بناتی ہیں۔ محروم طبقہ جو دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے‘ ان کی حفاظت اور بچائو کے لیے سرکاری طور پر کولنگ سنٹرز بنائے جاتے ہیں۔ آفت کے آنے سے پہلے ہی آگاہی اور بچائو کے طریقوں کو ہر طرح سے عوام تک پہنچایا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر کے انسانی جانوں کو ہر ممکن طریقے سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ابتدائی طبی امداد کے سنٹرز گلی محلوں میں قائم کر دیئے جاتے ہیں تاکہ متاثرہ مریض کو کم سے کم وقت میں فرست ایڈ دی جا سکے۔
اب جو کچھ کراچی میں ہوا‘ وہ اس سارے نظام کے برعکس تھا۔ نہ بروقت پیشین گوئی‘ نہ آگاہی‘ نہ کولنگ سنٹرز‘ نہ ایمرجنسی‘ نہ ریسکیو... بس پتھر جیسی بے حسی تھی جو پورے شہر پر راج کرتی رہی‘ مرنے والوں کی بے بسی پر ہنستی رہی!
منیر نیازی سچ ہی کہتے تھے ؎
اس شہرِ سنگِ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں امان ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں