"SQC" (space) message & send to 7575

عبداللہ حسین اور تخلیقی تنہائی

عبداللہ حسین کی زندگی اُس تخلیقی تنہائی کی ایک کلاسیک مثال تھی جو ہر خالص اور جینوئن لکھاری کی ضرورت ہے۔ بطور لکھاری عبداللہ حسین نے اپنی تخلیقی تنہائی کو آغاز ہی میں دریافت کر لیا تھا‘ پھر اسے پہچانا‘ اس کی قیمت کو جانا اور تمام عمر پھر اس میں کسی کی مداخلت برداشت نہ کی۔ اسی لیے وہ شہرت کے مروجہ طریقوں سے خائف ہی رہے‘ بس مکمل دیانت کے ساتھ لکھنے کا سفر جاری رکھا‘ اخبار کے ادبی مضمون پر‘ ٹی وی پروگراموں میں اور ستائش باہمی کے اصول پر قائم‘ ادبی تنظیموں کے پروگراموں میں وہ کبھی نظر نہیں آئے‘ بس اپنا کام کیا اور اسے پڑھنے والوں کے حوالے کر دیا۔ پلٹ کر یہ بھی نہیں دیکھا کہ قاری اور نقاد کی رائے کیا ہے۔ وہ سب باتوں سے تمام عمر خائف رہے۔ ایک طرح سے وہ ادب کی دنیا کا ایسا جانا پہچانا چہرہ نہیں تھے جو ہر تقریب میں کرسی صدارت پر موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری نے انہیں ان کی تحریر کے ذریعے ہی سے جانا۔ یا پھر ان کی شخصیت کے بیشتر پوشیدہ پہلوئوں پر عرفان جاوید نے ایک خوبصورت مضمون لکھا تو عبداللہ حسین کی تحریر کے عاشقوں نے اپنے پسندیدہ لکھاری کے بارے میں جانا کہ وہ اپنی تمام زندگی میں کیسا ہے۔ 
کارل سینڈرگ امریکی نثر نگار اور شاعر‘ جو تین دفعہ ادب کی دنیا کا اہم اعزاز Pulitzerپرائز حاصل کر چکے ہیں‘ کے پاس نوجوان لکھاریوں کا ایک گروپ آیا اور ان سے سوال کیا کہ مستقبل میں اچھا لکھاری بننے کے لیے کوئی ایک نصیحت کریں۔ سینڈبرگ نے چند لمحے توقف کیا اور پھر کہا ''Discover your creative solitude‘‘... (اپنی تخلیقی تنہائی کو دریافت کرو) 
اسی طرح ممتاز مصور پبلو پکاسو نے ایک بار کہا تھا کہ ایک گہری تنہائی کے تجربے کے بغیر کوئی تخلیق کار اعلیٰ فن پارہ تخلیق نہیں کر سکتا۔ فرانز کافکا‘ جادوگر کہانی کار نے اسی تخلیقی تنہائی کو کچھ اس طرح بیان کیا۔ ایک اچھی کہانی لکھنے کے لیے آپ کو دنیا کے ہنگام سے دور اپنے کمرے کی کرسی پر اکیلے بیٹھ کر‘ تنہائی کے تجربے سے گزرنا ہوگا۔ سوچ کی کھڑکی کو اندر کی جانب کھولیں۔ پھر دیکھیں خاموشی اور تنہائی میں دنیا آپ کے اوپر آشکار ہونے لگے گی۔ 
عبداللہ حسین بھی ہمیں اسی قبیلے کے فرد نظر آتے ہیں۔ جو اپنی زندگی میں پوری شعوری کوشش کے ساتھ شہرت کے ہنگام سے دور رہے۔ پی آر کی انہیں ضرورت نہ تھی اور اگر کبھی پی آر کی ضرورت ہوئی بھی ہوگی تو یقینا انہوں نے اس کے استعمال کو تخلیقی بددیانتی سے تعبیر کیا ہوگا۔ ایک سچا ادیب درویشانہ مزاج رکھتا ہے۔ ایک خاص طرح کی بے نیازی اس کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے۔ 
اس کے برعکس ہم آج کل اپنے ا ردگرد شاعروں اور ادیبوں کی جو قسم دیکھتے ہیں بیشتر ان میں سے پی آر کی بیماری میں مبتلا شہرت اور نام کے بھوکے دکھائی دیتے ہیں۔ جب تک وہ ادبی محفلوں میں کرسی صدارت پر نہ نظر آئیں‘ مشاعروں کے دعوت ناموں میں ان کا نام نہ ہو‘ انجمن ستائش باہمی کی ادبی تنظیمیں‘ ان کے ساتھ شامیں اور دوپہریں نہ منائیں انہیں اپنے ادیب اور دانش ور ہونے کا یقین ہی نہیں آتا۔ 
نوجوان ادیبوں اور شاعروں نے اگر کچھ سیکھنا ہے تو عبداللہ حسین کی زندگی سے سیکھیں جو اعلیٰ پائے کا کام کرنے کے باوجود تمام عمر شہرت سے گریزاں رہے۔ دوسرے پیشوں کی طرح اب لکھاریوں کو بھی شارٹ کٹ چاہئیں۔ اسی لیے نوجوان لکھاری بھی آج کل ان سینئر ادیبوں کے ساتھ جڑے رہنا پسند کرتے ہیں جن کی مشاعروں‘ ادبی محفلوں اور ٹی وی چینلوں تک رسائی ہو۔ جن کی تصویریں اخبار کے ادبی صفحوں پر آئے روز چھپتی ہوں تاکہ وہ جلد از جلد شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائیں‘ ان کے نزدیک ہر جگہ نظر آنا ہی شہرت کی انتہا ہے۔ 
ایسے لوگوں کو لوئس کارل کی مثال شاید عجیب لگے جسے اپنی شہرت سے الرجی تھی۔ انیسویں صدی کے اس کہانی کار نے بچوں کی کلاسیک ایلس ان ونڈر لینڈ لکھ کر ایک ہلچل مچا دی۔ اس کی مقبولیت کی انتہا یہ تھی کہ 1865ء میں کہانیوں کی یہ کتاب پہلی بار چھپی اور اس کی دو ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور تب سے لے کر آج تلک یہ چلڈرن کلاسیک کبھی آئوٹ آف پرنٹ نہیں ہوئی۔ دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو کر‘ کروڑوں بچوں تک پہنچی۔ یہ تھا اس کا نام اور اس کی شہرت کا بام عروج... مگر لوئس کارل کو اپنی شہرت سے نفرت تھی۔ وہ اپنے قارئین سے نہیں ملتا تھا۔ اس نے اسی گمنامی کی محبت میں اپنے اصل نام چارلس ڈاٹسن کو چھپائے رکھا اور قلمی نام کارل لوئس سے شہرت پائی۔ حال ہی میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں اس کا ایک خط نیلامی میں رکھا گیا جس میں وہ اپنی ایک ہم عصر ادیب خاتون کو لکھتا ہے کہ فلاں کتاب میں اس کے آٹوگراف کے ساتھ اس کی شخصیت کے بارے میں اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات کیوں دی گئیں۔ اس کے بعد وہ خاصی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح لوگ اس کی ذات کے بارے میں کھوج میں لگے رہتے ہیں‘ اسے اس شہرت سے نفرت ہونے لگی‘ کبھی کبھی تو یہ بھی خیال آتا ہے کہ کاش میں نے ایلس ان ونڈر لینڈ نہ لکھی ہوتی۔ کیا بات ہے‘ ایسے تخلیق کاروں کی جنہیں قدرت درویشانہ بے نیازی سے نوازتی ہے۔ ان کے نزدیک شہرت‘ نام‘ گلیمر بے قیمت چیزیں ہیں۔ عبداللہ حسین بھی خوش قسمت تھے۔ تمام عمر تخلیقی ریاضت سے گزرے۔ اداس نسلیں‘ باگھ‘ فریب‘ نشیب پر مشتمل اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کیا‘ صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر‘ بے نیازی کے غرور کے ساتھ جیئے۔ شاید وہ اسی لیے عبداللہ حسین بنے۔ ایک بڑے ادیب کا کام ہر عہد میں نئے سرے سے دریافت ہوتا رہتا ہے۔ عبداللہ حسین کو گلہ تھا کہ نقادوں نے اداس نسلیں کے بعد آنے والے ناول پڑھے ہی نہیں۔ اسی لیے ان پر کبھی بات نہیں ہوئی۔ آنے والے دور میں یقینا اداس نسلیں کے علاوہ بھی دوسرے ناولوں اور افسانوں کے مجموعوں پر ادب کے طالب علم اور نقاد غور کریں گے‘ انہیں پرکھیں اور کتابوں میں لکھے لفظوں میں پھر سے اس بے نیاز تخلیق کار کی شخصیت کو تلاش کریں گے۔ کیونکہ لکھاری تمام عمر اپنے لفظوں میں اپنی شخصیت کو پروتا رہتا ہے۔ وہ اپنی کتابوں‘ کہانیوں اور ناولوں میں موجود ہوتا ہے۔ ایک دانش ور نے کہا تھا کہ لکھاری مرتا نہیں بس وہ نظروں سے اوجھل ہو کر کتابوں میں چھپ جاتا ہے۔ اپنی کتابوں میں کھل کر بولنے والے عبداللہ حسین موت کے ذکر پر خاموش ہو جایا کرتے اور کبھی کبھی بلھے شاہ کا یہ مصرع زیر لب دہراتے۔ ''بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں... گور پیا کوئی ہور‘‘۔ عرفان جاوید نے عبداللہ حسین کے سوانحی خاکے میں لکھا کہ ایک بار انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی قبر کے لیے کتبہ سوچ لیا ہے۔ استفسار پر عبداللہ حسین نے ایک خوبصورت شعر پڑھا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق کار کو اندازہ تھا کہ اس کی شخصیت اور اس کا کام دونوں ہی ناقابل فراموش ہیں۔ اسی خوبصورت شعر پر اختتام کرتے ہیں۔ 
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر 
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں