"SQC" (space) message & send to 7575

سیاست کا ہیملٹ (Hamlet)

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو دیکھ کر ایک طرف منیر نیازی کا یہ شعر شدت سے یاد آتا ہے ؎
مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیر
عذاب مجھ پہ نہیں حرفِ مدعا کے سوا!
تو دوسری جانب انگریزی ادب کے المیہ ہیرو (Tragic nero) کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ ٹریجک ہیرو اپنی ذات میں موجود Flaws کی وجہ سے زوال کا شکار ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنی کوتاہی کو، اپنی غلطیوں کو کبھی تسلیم نہیں کرتا۔ ٹریجک ہیرو کا تصور، یونانی مائتھالوجی نے پیش کیا۔ ارسطو نے سب سے پہلے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایک ٹریجک ہیرو کے اندر کئی ایسے Flaws ہوتے ہیں جو اسے ناکامی سے دوچار کرتے ہیں۔ ارسطو کے مطابق ٹریجک ہیرو اپنے قبیلے یا اپنے ملک کا ایک نوبل کردار ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ عوام الناس میں مقبول ہوتا ہے، چاہا جاتا ہے اس کے اردگرد کی یہ فضا اسے خود پسندی اور گھمنڈ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ارسطو نے اس کے لیے لفظ Hubris استعمال کیاہے جس کے معنی ہیں حد سے بڑھا ہوا گھمنڈ (Pride) اور خود پسندی۔ ٹریجک ہیرو میں وقت پر صحیح قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے۔ وہ Bad Judgement کی وجہ سے حالات کا اور معاملات کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ حد سے بڑھا ہوا احساس برتری اس کے اندر رعونت کے جذبات پیدا کر دیتا ہے اور وہ دوسروں کو بہت کم تر خیال کرتا ہے۔
انگریزی کے کلاسیکی ادب میں ناول اور ڈراموں میں ٹریجک ہیرو کا کردار بہت اہم رہا ہے اور کم و بیش تمام کلاسیکی ادیبوں نے 
ارسطو کے اسی المیہ ہیرو کے تصور کو بنیاد بنا کر شاہکار تخلیق کیے ہیں۔ پیراڈائز لاسٹ (گمشدہ جنت) جان ملٹن کے قلم کا شاہکار۔ اس میں Satan (شیطان) ٹریجک ہیرو ہے جو المناک شکست سے دوچار ہونے کے باوجود اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ انتہائی خود پسندی کا شکار یہ کردار کہتا ہے۔"Better to reign in hell, than serve in heaven". 
اسی طرح ای ایم فاسٹر کے ڈرامہ ڈاکٹر فاسٹس کا کردار بھی ایسا ہی المیہ ہیرو کا ہے جو اپنی حد سے بڑھی ہوئی طاقت کے گھمنڈ میں، اپنی روح بُرائی کی قوتوں کے ہاتھ گروی رکھ دیتا ہے اور بالآخر ایک المناک اختتام سے دوچار ہوتا ہے۔
المیہ ہیرو کو اپنے قلم سے تراش خراش کر جو شکل شیکسپئر نے دی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ماورائی کرداروں اور ماروائی خصوصیات کی بجائے انسانی کرداروں کو اپنی تخلیق میں پیش کیا اور ان کرداروں کو المیے اور زوال سے دوچار کرنے والے Flaws بھی ایسے تھے جن کے آئینے میں قاری اپنی ذات میں موجود کوتاہیوں اور کمیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ اس طرح یہ کردار بلاشبہ قارئین میں زیادہ مقبول ہوئے۔ ہیملٹ بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو ہمیشہ ادبی نقادوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے آج کل جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل، عمران خان کی موجودہ صورتحال، اسمبلی میں پی ٹی 
آئی کا آئینی کردار سیاسی ٹاک شوز کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کالم کے آغاز میں میں نے لکھا کہ عمران خان کو دیکھ کر ذہن میں المیہ ہیرو کا تصور ابھرتا ہے اور ہمیں کپتان کے Tragic Flaws کی سب سے زیادہ مماثلت ہیملٹ کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ سچ اور کرپشن سے پاک انصاف پر مبنی سیاسی نظام کے لیے عمران خان کی جدوجہد کی پذیرائی، مجھ سمیت ہر اُس تجزیہ نگار، ہر اُس باشعور پاکستانی نے کی جو ایک بہتر پاکستان کا خواب دیکھتا ہے۔ اسی لیے عمران خان کی تحریک کو مقبولیت ملی اور والہانہ سپورٹر بھی میسر آئے۔ 30 اکتوبر 2011ء کا لاہور کا جلسہ پی ٹی آئی کا نقطۂ عروج تھا۔ اس کے بعد تو ایسی ہوا چلی کہ دوسری پارٹیوں سے سیاست کے اہم نام پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے لگے، مگر اس مقبولیت کا ڈراپ سین سب سے پہلے تو 2013ء الیکشن کے نتائج کی صورت میں سامنے آیا۔ عمران خان اگراس وقت شکست کے اسباب کا جائزہ لیتے اور اپنی غلطیوں کا احتساب کرتے تو شاید بہتری کا سفر شروع ہو جاتا مگر ایک ٹریجک ہیرو کی طرح حد سے بڑھی ہوئی خوش گمانی اور خود پسندی کے اثر میں اگست 2014ء کو احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا۔ 126 دن دھرنے کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر الزام تراشی اور بہتان بازی پر مبنی زہریلی تقریریں ٹریجک ہیرو ہیملٹ کے اس ڈائیلاگ کی یاد دلاتی ہیں جس میں وہ کہتا ہے۔
I will speak daggers to her, but use none.
ہیملٹ اپنے کہے ہوئے الفاظ کو خنجر کی طرح تیز دھار قرار دیتا ہے۔ اس پلے میں ہیملٹ کی Soliloquies خاص اہمیت کی حامل ہے، اسے خود کلامی بھی کہہ سکتے ہیں۔ خود کلامی کے انداز میں کی گئی لمبی لمبی تقریروں میں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے عمران خان 126 دن کنٹینر پر کھڑے ہو کر بے سروپا تقریریں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ اپنے مخالفین پر اپنے الفاظ کے خنجر چلاتے رہے اور Will speak daggers کی ہو بہو مثال بنے اپنے سیاسی مخالفین کو لفظوں کے خنجر سے زخمی کرتے رہے۔ آج وہی مخالفین اسمبلی میں انہیں باعزت فیس سیونگ دینے کو تیار نہیں اور پی ٹی آئی کی ڈی سیٹ کرنے کا سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔
شیکسپیرئین ٹریجڈی ہیملٹ کے ادبی ناقدین، ہیرو کے ٹریجک Flaws کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے زہریلے، سخت اور تندوتیز الفاظ اور گفتگو کو بھی اس کی ذات کی ایک ایسی کوتاہی سے تعبیر کرتے ہیں جس نے اسے فائدہ نہیں نقصان ہی پہنچایا اور یہی بات چیئرمین پی ٹی آئی کے کیس میں درست معلوم ہوتی ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی اور خود کو عقل کل سمجھنے والی سوچ نے ان کے گرد ایک ایسی فضا بنا دی جس کی وجہ سے زمینی حقائق سے ان کا رابطہ ہی منقطع ہو گیا اور اس کا نتیجہ غلط وقت پر کیے گئے کمزور فیصلوں کی صورت میں نکلا۔ سیاسی فیصلوں کی تو بات ہی کیا، انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کا ایک اہم فیصلہ بھی انتہائی غلط وقت پر کیا۔ آرمی سکول پشاور کے قومی سانحے کو ابھی چالیس روز ہی گزرے کہ کپتان نے شادی کر لی۔ اس پر انہیں خود اپنے صوبے خیبر پختونخوا میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں 35 پنکچر والی بات کے بارے میں مسکرا کر یہ کہہ دیا کہ یہ تو سنی سنائی بات، محض ایک سیاسی بیان تھا۔ یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ اس ایک سنی سنائی بات پر انہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کتنی تقریریں کیں۔ کتنی پریس کانفرنسیں کیں۔ کتنی سیاست کی۔! ''یعنی تھوڑا تھوڑا جھوٹ ملا ہے اپنی سچی باتوں میں‘‘ کپتان بھی اسی نظریے پر یقین رکھتے تھے تو پھر ہر بار سینکڑوں سپورٹرز کے درمیان یہ دعویٰ کیوں کرتے تھے کہ میں سچ بولتا ہوں۔ میں آپ سے ہمیشہ سچ بولوں گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی صورت میں ایک تیسری سیاسی وقت نے پاکستانی لوگوں کو ایک امید دلائی تھی۔ آنکھوں میں خواب روشن کیے تھے اور مجھ سمیت لاکھوں لوگ عمران خان کو ایک بہتر سیاست دان سمجھتے تھے مگر افسوس کہ ان کے اس طرز سیاست نے اس قوم کو ایک بار پھر Disillusioned کیا ہے اور اس صورت حال میں بھی وہ اپنی غلطیوں اور غلط سیاسی فیصلوں کا ادراک نہیں کر رہے۔ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ماننے کے بعد انہیں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کرنا چاہیے جو انہیں سیاست کا ہیملٹ (Hamlet) بننے سے بچائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں