کبھی کبھی کوئی کتاب آپ کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔ اس کے صفحات پر تحریر خیالات کے بادل حواس پر چھائے رہتے ہیں۔ کبھی ان بادلوں میں سے رم جھم بارش برسنے لگتی ہے اور سوچ کو سیراب کرتی ہے۔ نیلے رنگ کی چھوٹے سائز کی یہ کتاب ٹیگور کی نظموں کا اردو ترجمہ ہے۔ کتاب کا نام ہے گیتانجلی۔ جس کا اردو ترجمہ ہے بہار کا نغمہ ۔ یہ وہ لافانی شاہکار ہے جس پر رابندر ناتھ ٹیگور کو مغربی دنیا سے بھی پذیرائی ملی اور انہیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ ٹیگور کی بڑائی کا پیمانہ نہیں ہے ۔ یا کسی بھی ادیب اور شاعر کی بڑائی کا پیمانہ یہ نہیں کہ اس کے کام کو مغربی دنیا نے کتنے بڑے ایوارڈ سے نوازا۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ کسی تخلیق کار کے شاہکار نے کتنے دلوں کو حرارت بخشی۔ اس کے فن کی خوب صورتی نے کتنے دلوں کے اندر سرایت کیا۔ ٹیگور بھی ایسا نابغۂ روزگار تھا ۔ وہ 7مئی 1861ء کو کلکتہ میں پیدا ہوا اور 7 اگست 1941ء کو یہ عظیم تخلیق کار عدم کے سفر پر روانہ ہوا۔ موت سے قبل اس نے اپنی آخری نظم میں لکھا۔''میں اپنے پیاروں کے لمس کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ آج میرا تھیلا خالی ہو چکا ہے۔ جو کچھ میرے پاس تھا میں اس دنیا کو دے چکا ہوں اور اس کے جواب میں‘ میں تھوڑی سی محبت اور تھوڑی سی معافی کا طلب گار ہوں۔ میں یہ تحفے لے کر اس کشتی میں سوار ہو جائوں گا جو مجھے اس دنیا کے میلے سے دور لے جائے گی‘‘
آج7اگست 2015ء ہے ۔ اس عظیم تخلیق کار کو رخصت ہوئے 76برس گزر گئے ہیں مگر آج بھی بھارت اور بنگلہ دیش میں اس دن ٹیگور کی رخصت کا غم منایا جاتا ہے۔
قدرت نے ٹیگور کو حس جمالیات کی سنہری مٹی سے گوندھ کر بنایا اور اس کے وجود میں فن کے کئی جہان آباد کئے۔ ٹیگور صرف ایک شاعر ہی نہ تھا۔ ایک ڈرامہ نگار‘ مصور ‘ فنکار، تھیٹر کا اداکار، ناول نگار اور موسیقار بھی تھا۔ سینکڑوں کہانیاں‘ ناول، ڈرامے اور سینکڑوں نظمیں لکھنے کے علاوہ ٹیگور نے دو ہزار سے زیادہ گیت کمپوز کئے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سائنسی مضامین میں غیر معمولی دلچسپی رکھتا تھا۔ طبیعیات‘ حیاتیات‘ کیمیا‘ آسٹرالوجی‘ اور فلسفے کے متعلق جاننا اور کتابیں پڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ذاتی لائبریری میں کاشتکاری، لسانیات‘ تاریخ‘ طب‘ ارضیات ‘ حشریات کے موضوع پر عمدہ اور بہترین کتابیں موجود تھیں۔ اور وہ ان کا مطالعہ صرف وقت گزاری کے لیے نہیں کرتا تھا بلکہ وہ ان علوم کو جاننا چاہتا تھا۔ گیتانجلی کے دیباچے میں ٹیگور کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں دلچسپ حقائق موجود ہیں اور انہیں پڑھ کر ہم جان سکتے ہیں کہ اپنے وقت کا یہ نابغۂ روزگار کس طرح زندگی سے جڑے چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی سے معمولی ہنر کے بارے میں جاننے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی لائبریری میں نقاشی‘ برتن سازی‘ ریشم کے کیڑوں کی پرورش‘ کے بارے میں بھی کتابیں موجود تھیں۔ وہ دنیا بھر میں سفر کرتا اور اس
طرح کے متنوع موضوعات پر کتابیں جمع کرتا۔ ٹیگور پر کام کرنے والے ایک نقاد نے لکھا کہ ''ٹیگور اگر ایک عظیم المرتبت شاعر کی حیثیت سے عالم میں روشناس نہ بھی ہوتا تو بھی وہ اپنے وسیع مطالعے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہوتا‘‘ شاید ٹیگور ملٹن کی اس فلاسفی پر یقین رکھتا تھا کہ ''ایک شاعر کو تمام علوم میں مہارت ہونی چاہیے‘‘
ٹیگور کی زندگی شاعری اور لکھاری کے اس تصور سے کس قدر مختلف تھی جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاعر خیالات کے گھوڑے دوڑانے کے ماہر ہوتے ہیں اور عملی طور پر وہ زندگی میں ناکام لوگ ہیں۔ بس زندگی کے مین دھارے سے الگ، ایک طرف بیٹھے اپنے خیالات کے سمندر میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ غالب کے اس مصرعے پر ہی ایمان لے آتے ہیں کہ ''آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔‘‘ مگر یہ بھول جاتے ہیں شاعر اور لکھاری کو وقت کے ساتھ بہنے کے لیے جدید علوم بھی جاننا چاہئیں۔ خیالات کی فطری رو کو نکھارنے اور پُراثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر زندگی کے بدلتے دھارے سے جڑا رہے۔
بیسویں صدی کا ممتاز شاعر اور لکھاری رابندر ناتھ ٹیگور اپنی زندگی میں انتہائی متحرک اور منظم تھا۔ وہ زندگی کو سائنسی انداز میں سوچنے اور پرکھنے کا قائل تھا۔ وقت کے ایک ایک لمحے کو استعمال میں لانے والا ٹیگور انتہائی منظم زندگی گزارتا۔ وہ صبح دم اٹھتا اور اپنی عبادت کے بعد ترتیب وار اپنے کاموں کو سرانجام دیتا۔ رات گئے تک متنوع قسم کے کاموں میں مصروف رہتا۔ ٹیگور نے اپنی 80سال کی زندگی میں دس برس انتہائی بیماری کے گزارے اور اس کے باوجود اس نے اپنی زندگی میں اتنا کام کیا کہ حیرت ہوتی ہے کہ ٹیگور محض ایک فرد تھا یا دس افراد کا مجموعہ۔! اس نے ایک مغربی ایگرانومسٹ کے ساتھ مل کر دیہی تعمیر نو کا ایک ادارہ بھی اپنے گائوں میں بنایا اور یوں‘ غریب دیہاتیوں کی زندگی بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کی۔ اس نے جاپان‘ امریکہ‘ جرمنی اور ایران سمیت کئی ملکوں کے سفر کئے۔ وہاں کی نامور یونیورسٹیوں میں فنون لطیفہ کی مختلف اصناف پر لیکچر دیئے۔ 1912ء میں ٹیگور کو نوبل انعام ملا اور 1915ء میں برطانیہ کی حکومت نے ٹیگورکو نائٹ ھڈ کا اعزازی لقب دیا جو شاعر نے جلیانوالہ باغ کے سانحے پر احتجاج کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو واپس کر دیا۔
ٹیگور چودھویں نمبر پر اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سکول کی روایتی تعلیم سے شاکی‘ ٹیگور کبھی سکول ڈھنگ سے نہیں گیا کیونکہ کلاس روم کے روایتی سرد ماحول میں اسے اپنے سوالوں کے جواب نہیں ملتے تھے۔ ٹیگور کی زندگی کا ہر پہلو حیران کن ہے، مگر سب سے زیادہ حیرت مجھے اس فن کار کی جدید سائنس میں غیر معمولی دلچسپی پر ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1930ء میں ٹیگور اپنی بیماری کے باوجود طویل سفر کر کے جرمنی پہنچتا ہے اور 14 جولائی 1930ء کو برلن کے مضافات میں واقع عظیم سائنس دان آئن سٹائن سے ملنے اس کے گھر جاتا ہے۔ اپنے وقت کے دوشہ دماغوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ ہر لحاظ سے یادگار اورتاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مکالمے کا موضوع سائنس‘ روحانیت اور فن ہے۔
آج 7 اگست کو ٹیگور کی 76ویں برسی پر اسے یاد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس عظیم تخلیق کار کی زندگی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تصور کہ ایک آرٹسٹ کی زندگی ترتیب سے عاری اور غیر منظم ہوتی ہے‘ سراسر جھوٹ اور لوگوں کو مس گائیڈ کرنے کے مترادف ہے۔ ٹیگور کا پیغام یہی ہے کہ جتنا بڑا فن کار ہو گا ‘ وہ اتنا ہی زیادہ منظم ہو گا۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے سے سچائی اور خوبصورتی کشید کرے گا فن کے متنوع میدانوں میں شاہکار تخلیق کرنے والا ٹیگور ‘ سائنس سے لے کر فن اور روحانیت تک ہر علم کی پیاس بجھانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہا۔ اس نے دس لکھاریوں کے برابر کام کیا اور اپنی ہر تخلیق میں معیار کو قائم رکھا۔ بلاشبہ وہ دنیائے ادب کا ایک حیرت انگیز کردار ہے!