"SQC" (space) message & send to 7575

معمول کا ماتم

بابا بلھے شاہ کی سرزمین‘ قصور کے نواحی گائوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی مکروہ واردات پر ہمارا معمول کا ماتم جاری ہے۔ چند روز اس بھیانک جرم کی خبریں ‘ کالم‘ ٹاک شوز‘ اور ہیڈلائنز چلیں گی ۔ اس کے بعد کسی کو اتنی فرصت نہیں ہو گی کہ وہ اس سانحے کے فالو اپ کے بارے میں جان سکے۔ جو کچھ قصور سانحے میں بچوں کے ساتھ ہوتا رہا‘ ایسے قبیح جرائم معاشرے میں آئے روز ہوتے ہیں۔ خبر کی سنسنی خیزی کے مطابق اخبار میں چند کالم کی خبر تو کبھی کبھار ہی لگتی ہے وگرنہ یک کالمی خبر ہی اخبار میں جگہ پاتی ہے ۔ اس کے بعد کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ مجرموں کو کیا سزائیں ملیں‘ملیں بھی یا چھوٹ گئے؟
قصور میں ہونے والا سانحہ اس لیے توجہ کا مرکز بنا کہ یہ قبیح جرم منظم انداز میں ایک گروہ کئی برسوں سے کر رہا تھا اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ خبر ہوئی بھی ہو گی تو کوئی آواز نہیں اٹھی اور اگر صدائے احتجاج بلند بھی ہوئی ہو گی تو اسے دبا دیا گیا ہو گا۔ انصاف سے عاری معاشرے میں ایسا ہوناکوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ عبرتناک سزائیں دینے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے اعلانات‘ اب صرف اعلانات تک محدود ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے بااثر ملزمان کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی خوش قسمت انصاف لینے میں کامیاب ہو ہی جائے تو اس انصاف میں بھی اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ انصاف کی حقیقی روح ختم ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ
انصاف میں تاخیر‘ انکار کے مترادف ہے۔ اس معاشرتی المیے کی کلاسک مثال شفقت حسین کیس ہے۔ اس نے 2004ء میں سات سالہ بچے کے ساتھ بدفعلی کی‘ پھر پکڑے جانے کے خوف سے اُسے قتل کر دیا۔ قاتل شفقت حسین ایک رہائشی عمارت کا سکیورٹی گارڈ تھا۔ اس کا جرم ثابت ہونے پر اسے 2004ء میں پھانسی کی سزاہوئی۔ مگر گیارہ برس کے طویل عرصے کے بعد سزا پر عملدرآمد ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس درندے کو فوری فیصلے کے بعد عبرتناک سزا ملتی‘ تاکہ معاشرے کے دوسرے لوگ اس کے انجام سے عبرت پکڑتے مگر ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہوتا رہا۔ اس عرصے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی چند نام نہاد این جی اوز اسے ''معصوم‘‘ ثابت کرنے پر تل گئیں‘ جس نے والدین کے جگر گوشے کو اغوا کیا‘ زیادتی کی اور بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش چھپا دی اور پھر انتہائی چالاکی اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدین کے ساتھ مل کر بچے کو تلاش کرتا رہا۔ چار دفعہ اس قاتل کی پھانسی پر عملدرآمد کو رکوا یا گیا۔ این جی اوز کی کٹھ پتلی خواتین ایوان صدر کے سامنے مظاہرے کرتی رہیں‘ قاتل کو کم عمر ثابت کرنے کے لیے۔ فنکاری کرنے کی کوشش کی گئی۔ اندازہ لگائیے‘ اس معاشرے کے انصاف کا کہ قاتل کو پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق عدالتیں سزا سناتی ہیں‘ جو پریشر گروپس کی وجہ سے چار دفعہ روک دی گئیں۔ پھانسی کا پہلا حکم 14جنوری ‘دوسرا 19مارچ‘ تیسرا 24اپریل اور چوتھا 9جون کو جاری ہوا ‘ پھانسی کا چوتھا حکم جاری ہوا تو اس بار نہ تو
منسوخی کے آرڈر ایوان صدر سے آئے‘ نہ سپریم کورٹ سے بلکہ انتہائی پراسرار انداز میں یورپی یونین کا ایک وفد ‘ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے ملا‘ جس کے بعد آئین اور قانون کے مطابق دی جانے والی پھانسی کی سزا ایک بار پھر روک دی گئی۔ یوں انصاف کا نظام اور انصاف کے تقاضے‘ بیرونی پریشر گروپس کے سامنے بار بار ڈھیر ہوتے رہے۔ قاتل تو بہرحال اب انجام کو پہنچ چکا ‘ مگر کیا یہ بات سچ نہیں لگتی کہ تاخیر سے انصاف ‘ انصاف سے انکار ہے۔
جس معاشرے میں انصاف کا یہ حشر ہو‘ وہاں قصور جیسے سانحے تو ہوں گے ہی کیونکہ مجرموں کو یقین ہوتا ہے کہ یہ نظام ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ ''عبرت ناک سزائوں‘‘ کا جملہ اپنے معنی کھو بیٹھا ہے۔ لیکن جب تک انصاف اور سزا کا نظام ہر طرح کے دبائو‘ اور اثر سے آزاد نہیں ہو گا محض بیانات سے کچھ ہونے والا نہیں۔ یہاں قانون‘ آئین اور انصاف کے تقاضے اور ضابطے غریب اور امیر کے لیے مختلف ہیں ؎ 
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں ہے
سانحہ ماڈل ٹائون بھی اسی معاشرے میں ہوتا ہے۔14پاکستانیوں کے قتل پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اگر انصاف کے تقاضے پورے کرتی تو کیا آج حالات اس نہج پر ہوتے۔ محبت اور جنگ میں سب جائز کا نعرہ تو تھا اب سیاست میں بھی سب جائز سمجھا جانے لگا ہے۔ جس معاشرے میں سیاسی جماعتیں پریشر گروپ کی طرح صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کریں وہاں انصاف کی خواہش چہ معنی دارد!
کراچی میں سپہ سالار کی خصوصی نگرانی میں رینجرز کا کراچی آپریشن جاری ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کسی آئن سٹائن ذہن کی ضرورت نہیں کہ اس آپریشن میں مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف آئین و قانون کے تحت کارروائی بعض لوگوں کو ناگوار کیوں ہے۔ الطاف حسین کا واویلا جاری ہے‘ احتجاجی ریلیوں اور ہڑتالوں کے بعد نوبت استعفوں تک آن پہنچی ہے۔ اب ایک طرف قانون اور آئین کی بالادستی اور انصاف کے تقاضے ہیں تو دوسری طرف پریشر گروپ نما سیاسی جماعت کا دبائو ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا سسٹم دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے یا پھر ہر اثر سے آزاد ہو کر انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کرتا ہے۔
آج 14اگست ہے پاکستان کو بنے ہوئے اڑسٹھ (68) سال ہونے کو ہیں اگرچہ ''کچھ نہیں‘‘ سے جو سفر شروع ہوا تھا اس میں ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ کارخانے فیکٹریاں‘ شاندار پل‘ سڑکیں‘ چندھیا دینے والے شاپنگ مال‘ ٹیکنالوجی کی ترقی ہر ہاتھ میں سمارٹ فون‘ ٹیبز اور اگر نہیں حاصل کرسکے تو انصاف پر مبنی معاشرہ نہیں بنا سکے۔ ہم نے قانون ‘ آئین اور انصاف کو دولت مندوں ‘ سیاسی اور سماجی اثرو رسوخ رکھنے والوں کے پاس گروی رکھ دیا اور پھر ڈھونڈنے نکلے ایک خوب صورت معاشرہ۔ یہ ہماری خام خیالی تھی‘ کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو‘ وہاں تہذیب نہیں پنپ سکتی وہاں اقدار کی شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے۔ سچائی دم توڑ دیتی ہے خیر کی حوصلہ افزائی نہ ہو تو شر کی طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ قصور سانحے جیسے قبیح جرم ہونے لگتے ہیں۔ اس پر احتجاج اور واویلا بھی معمول کا ماتم بن کے رہ جاتا ہے۔!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں