سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر ہوتے ہوئے‘ اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کا فیصلہ سنا گئے۔ اس فیصلے نے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مختلف فکری حلقے ‘ مختلف زاویوں سے اس پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کچھ کو خدشہ ہے کہ اس طرح سے شاید انگریزی زبان ملک میں غیر متعلقہ ہو جائے گی جو اس وقت دنیا بھر میں رابطے کی اہم زبان ہے۔ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر کے ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ سائنس ٹیکنالوجی کی زبان انگریزی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ خطرہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ اردو میں شاید اتنا ذخیرہ الفاظ ہی نہیں کہ تمام اداروں کا سرکاری ریکارڈ اس زبان میں منتقل کیا جاسکے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ 1973ء کے آئین میں درج ہے کہ پندرہ سال کے اندر تمام سرکاری ریکارڈ اردو میں منتقل کیا جائے گا اور سرکاری دفاتر میں رابطے کی زبان اردو ہو گی۔ لیکن 42 سال ایسے ہی بیت گئے اور اس آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ اب سپریم کورٹ کا حکم آتے ہی سرکاری اہلکار اردو کی موٹی موٹی لغاتیں کھول کر ‘ انگریزی کی مروجہ اصطلاحوں کو اردو میں منتقل کرنے میں لگ گئے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں‘ اس کا دلچسپ نمونہ یہ دلچسپ خبر ہے : اب سیکرٹری کو معتمد لکھا جائے گا اور ایڈیشنل سیکرٹری کو اضافی معتمد لکھا اور پکارا جائے گا۔اگر ہم ایسے ہی مروجہ اصطلاحوں کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے
لگے تو پھر تھرما میٹر کو آلہ مقیاس الحرارت کہا جائے گا ‘ مائیکرو فون یا مائیک کو آلۂ مکبرالصوت لکھا جائے گا‘ علیٰ ہذا القیاس ۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز صورت حال ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے جن افراد کو یہ ذمہ داری سونپی ہے‘ وہ زبان کی بنیادی تعریف سے بھی واقف نہیں ہیں۔ انگریزی کے وہ الفاظ جو اردو زبان اپنے اندر جذب کر کے انہیں اپنا چکی ہے اُن کی جگہ مصنوعی‘ مشکل اور نامانوس الفاظ لانا یقینا مضحکہ خیز ہے اور یہ اردو پر احسان نہیں بلکہ اُس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اردو میں زندہ رہنے اور نئے الفاظ جذب کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ اردو کا نام ہی اس کی اس خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے جس کا مطلب ہے لشکری۔ یعنی دوسری کئی زبانوں سے الفاظ کے قافلے اس میں شامل ہو کر لشکر کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ فارسی‘عربی‘ انگریزی‘ سنسکرت ‘ اور علاقائی زبانوں کے ان گنت الفاظ اب اردو کا حصہ ہیں۔ Socio linguisticکے طالب علم کی حیثیت سے میں سمجھتی ہوں کہ زبان وہی زندہ رہتی ہے جس میں لچک ہو تاکہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے زیر اثرنئے رائج ہونے والے الفاظ کو اپنے دامن میں جگہ دے سکے۔ اردو کو ہی دیکھ لیجئے ‘ ٹیکنالوجی اور سائنس کی بے بہا ترقی نے کتنے ہی نئے الفاظ اور اصطلاحیں ہماری زندگیوں میں شامل کر دی ہیں۔ ہم اردو بولتے وقت ان کا استعمال نہایت سہولت سے کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں کام کرنے والی ان پڑھ ملازمہ بھی موبائل ‘ کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ سم اور ایزی لوڈ کے الفاظ فرفر بولتی ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ یہ کسی غیر زبان کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح سیکرٹری ‘ ایڈیشنل سیکرٹری‘ جج‘ چیف جسٹس‘ سیکرٹریٹ ‘ فائل‘ ڈائریکٹر‘ لائن مین‘ یونیورسٹی ‘ کالج ‘ سکول‘ ٹی وی ‘ فریج ‘ ایئر کنڈیشنر‘ کولر اور اس جیسے سینکڑوں الفاظ‘ صرف انگریزی زبان کا ہی نہیں بلکہ اردو کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ اب ہم چاہیں بھی تو اردو کو ان الفاظ سے محروم نہیں کر سکتے۔ اردو کو سرکاری زبان میں ڈھالنے کا فریضہ جن سرکاری بابوئوں کو سونپا گیا
ہے‘ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ ماہرین لسانیات کو بھی شامل کریں جو ان کی رہنمائی کر سکیں کہ زبان کیا ہے؟ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کی حدود آپ مقرر کر سکیں اور زبان کو سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے آپ کو بھی اپنی سوچ اور رویے کو لچکدار بنانا پڑے گا۔ ہر زندہ زبان اپنے اندر نئے الفاظ شامل کرتی رہتی ہے اور ذخیرہ الفاظ بڑھاتی ہے۔ انگریزی زبان اگر اس وقت پوری دنیا میں رابطے کی زبان ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ انگریزی زبان میں یونانی‘ فرنچ‘ سنسکرت‘ اطالوی‘ سپینی‘ عربی‘ ترکی‘ فارسی‘ ہندی حتیٰ کہ اردو زبان کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں لفظ دھرنا انگریزی ڈکشنری کا حصہ بنا۔ اسی طرح طالبان‘ مجاہدین کی اصطلاحیں بھی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں شامل ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ترجمے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ وہاں یہ کام ماہر لسانیات انجام دیتے ہیں جو یہ حقیقت جانتے ہیں کہ زبانیں اسی طرح پنپتی اور زندہ رہتی ہیں ۔جو معدوم ہونے والی زبانیں اس لیے ختم ہوئیں کہ ان میں ایسی لچک کی کمی تھی کہ وہ نئے الفاظ اپنے دامن میں سموتیں‘ دراوڑی وغیرہ اس کی ایک مثال ہیں۔پاکستان ملٹی لینگیوئل (Multi Lingual)ملک ہے۔ ہر چند میل کے بعد علاقائی زبان بدل جاتی ہے۔ زبان مکمل نہ بھی بدلے تو کہیں لہجے‘ تلفظ اور ذخیرہ الفاظ کی تبدیلی سے نئے نئے Dilect وجود میں آتے ہیں۔ یہ Socio linguisticکی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ایک ہی زبان میں مختلف طرح کی تبدیلیوں سے نئے لہجوں کا وجود میں آنا۔
ایسے حالات میں اردو حقیقتاً رابطے کا کام کرتی ہے‘ جسے ماہر لسانیات لنگوا فرانکا کہتے ہیں۔ ہمارا ننانوے فیصد میڈیا اردو میں ہے یہاں کوششوں کے باوجود انگریزی ٹی وی چینل کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ عوام کی اکثریت صرف اردو بولتی اور اردو سمجھتی ہے اب بھی اگر کچھ طبقہ ہائے فکر یہ سمجھتے ہیں کہ اردو قومی زبان کے درجے پر فائز نہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ اردو نہ صرف پاکستان میں رابطے کی زبان ہے بلکہ بھارت میں جہاں انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے وہاں بھی نوے فیصد میڈیا اردو (ہندی) زبان میں ہے فلمیں‘ اردو زبان میں بن رہی ہیں۔ یہ وہ اردو ہے جس میں انگریزی زبان کی آمیزش شامل ہے وقت کے ساتھ ساتھ کوئی بھی زبان صرف اپنے ذخیرۂ الفاظ کے بل پر نہیں چل سکتی۔ یہی حال اردو کا ہے جس نے انگریزی سے سینکڑوں الفاظ جذب کر کے خود کو ایک ایسی زبان ثابت کیا ہے جس میں زندہ رہنے اور ارتقائی مراحل طے کرنے کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ کھردرے اور نامانوس تراجم کر کے اس میں مصنوعی پن پیدا نہ کریں۔ اردو زندہ اور وقت کے ساتھ ترقی کرتی ہوئی زبان ہے۔ مضحکہ خیز اصطلاحیں‘ جو کبھی بھی رواج نہیں پا سکیں گی‘ اردو کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہوں گی۔