"SQC" (space) message & send to 7575

عمرکوٹ کی اپاہج لڑکی

کرپشن زدہ سندھ کے پسماندہ ضلع عمرکوٹ کا غریب اور پسماندہ مضافاتی گائوں میناجی ڈھانے ہے۔ یہ گائوں عمرکوٹ سے 27 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں اقلیتی آبادی کے کم و بیش چار سو خاندان آباد ہیں۔ یہ خاندان دہائیوں سے، بلکہ نسل درنسل غربت اور پسماندگی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بچوں کیلئے یہاں کوئی سکول نہیں۔ ان لوگوں نے اپنی قسمت سے سمجھوتہ کرکے غربت اور بے علمی کے اندھیروں میں رہنا سیکھ لیا ہے۔ مگر اسی بد قسمت بستی میں ''آسوکوہلی‘‘ بھی پیدا ہوتی ہے۔
آسوکو آج کل قومی اور بین الاقوامی میڈیا ''عمر کوٹ کی ملالہ‘‘کے نام سے پکاررہا ہے۔ آسو کی تصویر دیکھیں تو اس کے چہرے پر برسوں کی غربت اور بدحالی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ مگر اس کی آنکھوں میں کچھ خوابوں کی چمک ہے۔ یہ وہ خواب ہیں جو اسے ہروقت متحرک رکھتے ہیں!
22سال کی یہ معذور لڑکی آسو‘ کرپشن زدہ سندھ کے خزاں رسیدہ منظر میں تازہ کلی کی طرح ہے۔ جو اپنے حالات سے مقابلہ کرنے کا عزم لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اوراس کی قوت عمل نے مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ آسو کی کہانی مسلسل جدوجہد ‘مستقل مزاجی اور اپنے خوابوں پر یقین رکھنے کی ایک حیران کن داستان ہے۔ بائیس برس پہلے وہ اس پسماندہ گائوں کے ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ ابھی چند برس کی تھی کہ سخت بیمار پڑ گئی۔ اب اس گائوں میں نہ کوئی ڈھنگ کی ڈسپنسری ، نہ 
ڈاکٹر، غریب ماں ایک نیم حکیم عطائی کے پاس لے گئی جس نے بچی کو غلط ٹیکہ لگا دیا جس کے بداثرات نے اس کی ایک ٹانگ کو مفلوج کر دیا۔ سولکڑی کی ایک بیساکھی جس سے آسو گھسٹ گھسٹ کر چلتی ہے ‘برسوں سے اس کی ساتھی ہے۔ اسی بیساکھی کے سہارے اس نے اپنی تمام تعلیم حاصل کی۔ ایف اے اور پھر گریجوایشن کرنے کیلئے آسو کو ایک طرف اپنے ان پڑھ اور غریب باپ کی منتیں کرنا پڑیں تو دوسری طرف اپنے بھائی کی بھی کہ وہ اسے عمر کوٹ کے کالج لے جایا کرے‘ تاکہ وہ علم کی روشنی سے مستفید ہوسکے۔ گریجوایشن کرنے کے بعد آسو کا خواب تھا کہ وہ استاد بنے... اور بچوں کو علم کی روشنی سے آراستہ کرے۔ اس کے باپ نے جب اپنی بیٹی کے عزم اور اس کے خوابوں کو دیکھا تو اس علاقے کے سیاسی نمائندے کے پاس درخواست لے کر گیا مگر آسو کو نوکری نہ ملی۔ اور یہاں سے ہی اس کے اصل خوابوں کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ جب آسو نے اپنے گائوں میں خود سکول کھولنے کا فیصلہ کیا۔ گائوں کے لوگ بچوں کو سکول بھیجنے کیلئے آسانی سے تیار نہ ہوئے۔ وہ اپنی بیساکھی کے سہارے چلتی ہوئی ہر گھر گئی۔ اور انہیں کہا کہ اپنے بچوں کو سکول بھیجو۔ گھروں میں غربت اور بدحالی کے ڈیرے تھے۔ بھوک ننگ اور جہالت کی حکمرانی تھی۔ آسو نے
ان سے کہا کہ میں آپ کے بچوں کو مفت تعلیم دوں گی۔ بس اپنے بچوں کو میرے سکول میں پہنچانا آپ کا کام ہے۔ غریب لوگ جن کیلئے دو وقت کی روٹی بچوں کو کھلانا مشکل تھا، وہ سوال کرتے کہ اس لڑکی کا تو دماغ چل گیا ہے۔ اس کو پڑھ لکھ کر کیا ملا ہے جو یہ ہمارے بچوں کو پڑھنے کا کہتی ہے۔ مگر آسو نے کسی بھی مرحلے پر ہار نہیں مانی۔ یوں چند بچوں کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے، ایک بلیک بورڈ اور کرسی رکھ کر اس نے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے سفر کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ بچوںکی تعداد بڑھنے لگی۔ اب آسو کے سکول میں کم و بیش تین سو کے قریب بچے پڑھنے آتے ہیں۔ سکول کا منظر بھی بڑا دلچسپ ہے، ہر عمر کے بچے ایک ہی جگہ اپنے
قاعدے اور سلیٹیں لیئے بیٹھے ہیں۔ کلاس میں صرف ایک کرسی ہے جو سکول کی واحد ٹیچر آسو کوہلی کے لئے ہے۔ مگر اس کرسی پر آسو کوہلی، خال ہی بیٹھتی ہوگی۔ وہ اپنی بیساکھی، کندھے کے ساتھ لٹکائے، سارا دن بچوں کو سبق دینے میں گزار دیتی ہے۔ ایک ایک بچے کے پاس جا کراسے لکھنا سکھاتی ہے۔ سکول کے بچے میلے کچیلے کپڑوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے چہروں پر صدیوں کی بھوک اور غربت کے نقش ہیں مگر آسو کوہلی کا عزم ہے کہ وہ ان بچوں کو علم کی روشنی سے ضرور آراستہ کرے گی۔ آسو کی عزم و ہمت کی داستان سوشل میڈیا پر آنے سے سندھ حکومت کو بھی خبر ہوئی۔ یوں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سندھ کے سیکرٹری اور چند دیگر افسران عمر کوٹ کے اس مضافاتی گائوں میں پہنچے۔ اس روز گائوں میں سٹیج بنایا گیا اور اس تقریب کی مہمان خصوصی آسو کوہلی تھی۔ اسے شیلڈ دینے کیلئے سٹیج پر بلایا گیا تو سفید کپڑوں میں، لکڑی کی بیساکھی کندھے سے لگائے، پائوں میں کالے رنگ کی سستی سی چپل پہنے یہ غریب مگر حیران کن عزم رکھنے والی لڑکی پہلی بار میڈیا کے سامنے آئی۔ اسے'' عمر کوٹ کی ملالہ‘‘ کا نام دیا گیا تو ملالہ یوسف زئی نے بھی آسو کوہلی کو خصوصی مہمانوں کی اس فہرست میں شامل کرلیا جو اس کی زندگی پر بننے والی مختصر ڈاکومنٹری فلم کے پریمیئر میں خاص طور پر شرکت کریں گے۔
اب عمر کوٹ کے گائوں میناجی ڈھانے کی آسوکوہلی، امریکہ جانے کیلئے بے حد پرجوش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آسو کوہلی کو تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت حاصل ہوگی۔ وہ وہاں امریکی صدربارک اوباما سے بھی ملاقات کریں گی۔
سوال یہ ہے کہ جو قدر اور عزت افزائی آسوکوہلی کو امریکہ سے ملنے والی وہ اسے اپنے ملک پاکستان میں کیوں نہ ملی۔ امریکی صدر بارک اوباما سندھ کے گوٹھ کی ایک غریب سکول ٹیچر سے ملنے کا وقت نکال سکتے ہیں تو پاکستان کے وزیراعظم کے پاس اتنا وقت کیوں نہیں ہے؟۔ سندھ حکومت نے آسو کوہلی کے سکول کیلئے فنڈ کی جس رقم کا اعلان کیا تھا، وہ وعدہ بھی ابھی تک وفا نہیں ہوا۔ یقینا سائیں قائم علی شاہ کی حکومت کو اس وعدے کو پورا کرنے سے زیادہ اہم کام کرنا ہوں گے۔ وہ اہم کام کیا ہیں اس کی جھلکیاں تو خبروں میں آتی رہتی ہیں۔ اس وقت بس سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اندر ہونے والی غضب کی کرپشن کی عجب کہانی کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں: سندھ محکمہ تعلیم میں 11 ہزاراسامیوں پر 23 ہزار بھرتیاں کرلی گئی ہیں۔ یعنی ایک شناختی کارڈ پر 190 بھرتیاںکی گئیں۔ ایک نوکری کی قیمت 3لاکھ سے 18 لاکھ تک وصول کی گئی۔ محکمہ تعلیم سندھ کے 34اہم افسران کرپشن چارجز کی بنیاد پر نیب کی تحویل میں ہیں‘جہاں محکمہ تعلیم کی بدترین کرپشن کی وجہ سے صوبے میں چار ہزار گھوسٹ سرکاری سکول بند کرنا پڑے ہوں‘ وہاں سندھ کے صحرا کی غریب اپاہج لڑکی آسو کوہلی کا علم کی روشنی بانٹنے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت سکول کھولنا، ایک حیران کن واقعہ ہے اسے جتنا سراہا جائے کم ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں