"SQC" (space) message & send to 7575

ان کی کمی محسوس ہوگی

فرزند اقبال جسٹس (ر) جاویداقبال اکیانوے برس کی بھرپورزندگی گزارنے کے بعد ایک ایسی منزل کی طرف چلے گئے ہیں جسے انہوں نے اپنی سوانح حیات 'اپنا گریباں چاک‘ میں ''نامعلوم منزل‘‘ قراردیا ہے۔ اور ایک کتاب کے پندہویں باب کا نام ''نامعلوم منزل کی طرف‘‘ رکھا ہے‘ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ''جب تک میں لکھنے کے قابل ہوں یا مجھے موت نہیں آ جاتی‘ میری میں خودنوشت سوانح حیات مکمل نہ ہوگی۔ میں غالب کی طرح نہیں سوچتا کہ میرے ہونے نے مجھے ڈبویا ہے، نہ بلھے شاہؒ کی طرح سوچتا ہوں کہ میں نے مرنا نئیں اور گڑھے میںکوئی اور پڑا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ماں باپ مجھے دنیا میں لانے کا وسیلہ بنے، مگر ایک دن اچانک میں نے یہاں سے چلے جانا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ میں دراصل کہاں سے آیا ہوں اور بالآخر مجھے کہاں جاناہے‘‘۔
اور 3 اکتوبر 2015ء... وہ دن تھا جب وہ ایک نامعلوم منزل کی طرف چلے گئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ صرف دودن کے بعد، یعنی 5اکتوبر کو، ان کی اکیانوے ویں سالگرہ منائی جانا تھی۔ وہ 5اکتوبر1924ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ جسٹس جاویداقبال نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ وہ لاہور کے علمی اور تہذیبی منظرنامے کا ایک خوبصورت حصہ تھے اورآخری وقت تک وہ اس حوالے سے بہت مصروف بھی رہے۔ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود، وہ دبستان اقبال کے علمی مباحثوں میں شریک ہوئے۔ نوجوانوں کے سوالوں کے جواب بڑے تحمل اور تفصیل سے دیئے۔ 
دبستان اقبال گلبرگ میں واقع، خاموش ندی کی طرح بہتا ہوا ایک ایسا ادارہ ہے جہاں اقبال کے عشاق جمع ہوتے ہیں اورکلام اقبال کی گہرائیوں کو سمجھنے کیلئے بصیرت افروز علمی بحثیں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال خاص طور پر وہاں جاوید نامہ پڑھانے کیلئے جاتے اور اقبال کے ارادت مند، فرزندِ اقبال کو دیکھنا اور ملنا بھی ایک کارثواب ہی سمجھتے۔ میرا بھائی ایڈووکیٹ سرفراز قریشی بھی اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے دبستان اقبال جایا کرتا‘ جہاں اس نے ڈاکٹر جاوید اقبال سے جاوید نامہ پڑھا۔جاوید نامہ فارسی میں ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اب خود اس کا اردو میں ترجمہ اور تشریح کی ہے۔ ڈاکٹر جاوید نامہ پڑھاتے ہوئے اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے کہ یہ لانگ ایپک (Long epic) میرے والد نے لکھی تو اسے میرے نام کردیا۔ پھر آخری وقت میں انہوں نے اپنے ایک قریبی ساتھی چودھری محمد حسین سے کہا کہ اسے جاوید نامہ ضرور پڑھا دینا۔ جب اقبالؒ دنیا سے رخصت ہوئے تو جاویداقبال ابھی 14 برس کے تھے۔ جاوید نامہ پڑھنے والوں سے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ میں آپ کو خود یہ پڑھا رہا ہوں۔
انہیں خود اس بات کااحساس تھا کہ وہ کس عظیم والد کے بیٹے ہیں اور اقبال کے ارادت مند انہیں اقبالؒ کی نسبت کی وجہ سے ہی محبت کرتے ہیں۔ مگر ان کے لئے پہچان کا حوالہ ایک رد عمل کا باعث بھی بنا جس کا اظہار ان کی عملی زندگی سے بھی ہوتا ہے اور انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے اس کا اظہار اپنی سوانح حیات کے پیش لفظ میں بھی کیا۔ ان کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں۔ ''ان کا (اقبالؒ کا) فرزند ہونے کی حیثیت سے زندگی کے مختلف ادوار میں میرا ردعمل مختلف رہا۔ بچپن میں باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو میں نے برا نہیں مانا۔ جوانی میں میرے لئے یہ فخر کا مقام تھا۔ زندگی میں پھر اچھا برا مقام پیدا کیا‘ تب باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو بہت برا لگا۔ یہ میری
انا کی نشوونما میں مداخلت تھی۔ میرے والدکے پرستاروں نے مجھے بڑا ہونے نہیں دیا۔میں نے کن حیلوں سے ایک بہت بڑے درخت کے سائے سے نکل کراپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ میں اس سائے سے نکل کر اپنا سایہ بنا سکا؟ کس حد تک کامیاب ہوا؟ کس حد تک ناکام؟ یہی میری داستان حیات ہے۔
ان کی سوانح حیات، اپنا گریباں چاک، دسمبر2002ء میں پہلی بار شائع ہو کر سامنے آئی تو کچھ حلقوں کی طرف سے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، حالانکہ یہ سوانح حیات انتہائی خوبصورت انداز میں لکھی گئی ہے جیسا کہ ایک خودنوشت کو لکھا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے انا، خودپسندی اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم والد کے صاحبزادے ہونے کے بھاری احساس سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کی کہانی، سفر حیات میں پیش آنے والے تجربات، اتار چڑھائو اورشعور کی ارتقائی منازل طے کرنے کے مرحلے، بغیر کسی لگی لپٹی کے اس طرح سے لکھ دیے ہیں کہ قاری ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اپنے عظیم والد کے ساتھ گزرے ہوئے، اپنی زندگی کے ابتدائی برس بھی انہوں نے نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیے ہیں کہ پڑھنے والا ایک عظیم فلسفی، دانشور اور شاعر کو ایک عام شوہر، بیٹے اور بیٹی کے محبت کرنے والے والد کی حیثیت سے دیکھ سکتا ہے۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے شاعری میں طبع آزمائی نہیں کی مگر افسانے اور ڈرامے لکھے۔ اکثر لوگ ان سے یہ سطحی سا سوال بھی کرتے کہ آخر انہوں نے شاعری کیوں نہ کی۔ یہ جانے بغیر کہ اقبالؒ بھی محض ایک شاعر نہ تھے بلکہ کائنات پر غورو فکر کرنے والے ایک عظیم فلسفی اور دانشور تھے، جنہوں نے اپنی سوچ کے ابلاغ کے لئے شاعری کے میڈیم کو اپنایا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے تخلیقی میدان میں بھی الگ راستہ اپنانے کی کوشش کی۔ انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد مغربی ڈرامے نے انہیں اس حد تک متاثر کیا کہ وہ کچھ عرصہ ریڈیو کے لئے ڈرامے بھی لکھتے رہے۔ وہ علمی اور تخلیقی کام تمام زندگی کرتے رہے۔ آخری سالوں میں انہوں نے اپنے عظیم والد اقبالؒ کے بائیوگرافی، زندہ رودکے نام سے تصنیف کی۔ اکیانوے برس تک فعال زندگی گزارنے میں یقینا ان کی باوقار اہلیہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کا کردار بہت اہم ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب میں بھی کیا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال لاہور کے علمی اور تہذیبی منظر نامے کا خوبصورت کردار تھے اور میری رائے میں ایک عظیم والد کے فرزند ہونے کی بھاری ذمہ داری انہوں نے تمام عمر، نہایت سلیقے‘ سچائی اور بغیر کسی منافقت کے نبھائی اور اقبالؒ کے پیغام کے مطابق وہ اپنی دنیا آپ پیداکرنے کی تگ و دو بھی کرتے رہے۔ ان کی کمی یقینا محسوس ہوگی اور اقبال کے چاہنے والے انہیں یاد کرتے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں